• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک پنجابی کہاوت ہے، بلی شیر پڑھایا، فیر شیر بلی نوں کھاون آیا۔ مطلب یہ کہ بلی نے شیر کو اپنے ہنرسکھائے اور پھر ہنر سیکھنے کے بعد شیر بلی پر لپکا، اسے کھانے کے لئے۔ برے انگریز نے ہندستان میں جتنے بھی اچھے کام کئے تھے۔ ان میں تعلیمی نظام بہت اہم ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں۔ Give devil hisdue مطلب یہ کہ شیطان نے اگر کوئی اچھا کام کیا ہے تو اس کی تعریف کرو۔ ہندوستان پر لمبے عرصے تک مسلمان حکمرانوں ۔ غزنویوں، ابدالیوں، ترخانوں، ترکوں، ،خلجیوں، پٹھانوں اور مغلوں نے حکومت کی تھی۔ تاریخ میں واضح ثبوت نہیںملتے کہ ہندوستانیوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف کبھی کوئی عوامی تحریک چلائی تھی۔ اس دوران غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف راجے، مہاراجے، رانے مہا رانے لڑے تھی۔ لیکن ان کے خلاف عوامی بغاوت نہیں ہوئی تھی۔ عام آدمی غیر ملکی حاکموں کے خلاف اٹھ کھڑا نہیں ہوا تھا۔ اس نے غیر ملکی حاکموں کو چیلنج نہیں کیا تھا۔ اس اطاعت گزار اور بے عمل روئیے کے کئی اسباب ہیں، لیکن سب سے بڑا سبب اس دور میں رائج تعلیمی نظام ہے۔ بادشاہوں اورڈیڑہ دو سو ریاستوں کے راجے او ر مہارا جائوں نے ایسا نظام تعلیم رائج نہیں کیا تھا۔ جس سے ذہن میں شعور، آگاہی اور غور کرنے کی شمعیں جل اٹھیں۔ طالب علموں کو رٹے لگوائے جاتے تھے۔ رٹوں پر سوال اٹھانے کی ان کو اجازت نہیں تھی۔ سوال پر سوال پوچھنے والے کو عبرت ناک سزا دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کے خلاف عوام نے بغاوت نہیں کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کے دور میں بھگت سنگھ اور چندرشیکھر پیدا نہیں ہوتے تھے۔ انگریز نے اسکول بنوائے، کالج بنوائے، یونیورسٹیاں بنوائیں۔ ان تعلیمی اداروں میں جدید تعلیمی اور تربیتی نصاب رائج کیا۔ تاریخ، جغرافیہ، منطق، فلسفہ، لٹریچر یعنی ادب، امور نظامت، حساب ، کتاب، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان علوم کی پرچھائیں پڑ جانے کے بعد صدیوں سے سو یا ہوا انسان جاگ اٹھتا ہے۔ انگریز کے ساتھ عین پنجابی محاورے کے مطابق ہوا۔ بلی شیر پڑھایا، فیر شیر بلی نوں کھاون آیا۔
انگریزوں کے اپنے تعلیمی نظام سے جہاں رابندر ناتھ ٹیگور، رادھا کرشنن اور ڈاکٹر بی آر امبید کر جیسے مفکر ہندوستان کو ملے۔ وہاں کرمچند گاندھی، موتیلال اور جواہر لال نہرو جیسے سیاستدان ملے۔ انگریز کے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں سے بھگت سنگھ، چندر شیکھر ، راج گرو، سکھ دیو اور ہیمو کالانی جیسے نڈر باغی پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کو للکارا اور بغاوت کر دی۔ ان طلبا کی بغاوت نے ہندوستان کے سوئے ہوئے عوام کو جگا دیا۔ عام ہندوستانی نے باغی طلبا کا ساتھ دیا۔ بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں نے اپنی رابطہ مہم ہندی میں نہیں چلائی تھی بلکہ ہندوستانی میں چلائی تھی۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ انہوں اپنی رابطہ مہم ہندوستانی زبان میں چلائی تھی۔ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے کراچی میں ہم مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی پارسی وغیرہ آپس میں ہندوستانی زبان میں بات کرتے تھے۔ ہندوستانی زبان جب فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی تب اردو کہلاتی تھی اور جب دیونا گری رسم الخط میں لکھی جاتی تھی تب ہندی کہلانے لگی۔ صدر کے آٹھ دس سینمائوں میں انگریزی فلمیں چلتی تھیں اور شہر کے پندرہ بیس سینمائوںمیں ہندوستانی فلمیں لگتی تھیں۔ ہندوستانی فلموں کے نام انگریزی، اردو اور ہندی میں لکھے جاتے تھے۔
کوئی شخص بجا طور پر کہہ سکتا ہے کہ جو زبان تقسیم ہند سے پہلے کراچی سے کلکتہ اور کیرالہ سے کشمیر تک بولی اور سمجھی جاتی تھی وہ ہندوستانی زبان تھی۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ ہندوستانی زبان جب فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی تب اردو کہلوانے میں آتی تھی اور جب دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی تھی تب ہندی کہلائی جانےلگی ۔ یہاں پر ہمیں ایک اہم حقیقت پر غور کرنا چاہئے۔ ہندوستان پر لمبے عرصے تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی۔ ان حاکموں کی زیادہ تر زبان فارسی یا افغان پرشین یا ترکی ہوتی تھی۔ لہٰذا ہندوستان کے مسلمان فارسی سے متاثر تھے۔ ہندوستانی زبان اس حقیقت کے باوجود اس وقت تک فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوئی تھی جب تک چند سیاسی تحریکوں نے ہندوستان کی یکجہتی کو ہلا کر نہ رکھ دیا تھا۔ بھگت سنگھ، چندر شیکھر، راج گرو اور سکھ دیو وغیرہ نے انگریز کے خلاف اپنی تحریک ہندوستانی زبان میں چلائی تھی اور پھانسی چڑھ گئے تھے۔ اس طرح ہندوستانی زبان پورے ہندوستان کی زبان ہوگئی 1905میں آل انڈیا مسلم لیگ کو وجود میں لایا گیا۔ مقصد تھا ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے آمادہ کرنا اور ان میں سیاسی شعور پیدا کرنا۔ مسلمانوں کو ایک قوم ہونے کا احساس دلوانا۔ اس کام کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی تحریک بھر پور طریقے سے تحریری طور پر اردو میںشروع کی۔ ہندو لیڈروں کا ماتھا تب ٹھنکا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانانِ ہند کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ ہندو اور مسلمانوں کے بیچ دراڑ پڑ گئی۔ آگے چل کر دراڑ تب گہری ہو گئی جب آل انڈیا مسلم لیگ نے انگریز سے ہندوستان کے بٹوارے کی بات شروع کی۔ انگریز نے اس دراڑ کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے اور زیادہ دور کرنے کے لئے ہندوستان ریلوے کے تمام اسٹیشنوں پر ہندو پانی اور مسلمان پانی، ہندو کھانا اور مسلمان کھانے کا رواج ڈالا۔جب لوگ ایک ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے ، ایک ساتھ پانی نہیں پی سکتے تب ان کے مقدر میں ایک دوسرے سے دوری اورجدائی لکھ دی جاتی ہے۔ اس سیاسی ہیجان اور افراتفری کا ملبہ اردو پر آن پڑا۔ اردو پر مسلمانوں کی زبان، اور ہندوستان کے بٹوارے کی زبان کی چھاپ لگ گئی۔ بٹوارے کے بعد اردوکے ساتھ ہندوستان اور پاکستان میں کیا برتائو رکھا گیا، اس کا ذکر اگلے منگل کے روز۔

.
تازہ ترین