• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سے پیوستہ
اب تک یہ گروہ 100گردے فروخت کر چکا ہے اور فی گردہ 60لاکھ روپے تک ضرورت مندوں سے وصول کرچکاہے جبکہ جس سے گردہ خریدا جاتا تھا اس کو صرف ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں اب تک اس گروہ کے جو ملزم پکڑے گئے ان میں ایک لڑکی ، دو غیر ملکی اور دس دیگر افراد بھی ہیں۔ اس مافیا کا مرکزی کردار ثاقب جو کہ ایک ڈاکٹر فوادکا کزن بتایا جاتا ہے وہ اب تک گردے فروخت کرکے کروڑ پتی بن چکا ہے۔ یہ بات لائق تحسین ہے کہ اس ملزم کو گرفتار کرنے میں حساس اداروں، موٹر وے پولیس، نادرا اور محکمہ ایکسائز، آئی بی اور ایف آئی اے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تفتیش کے دوران ڈاکٹر فواد نے بتایا کہ انہوں نے 300سے زائد گردے ٹرانسپلانٹ کئے۔ سوچیں ساٹھ لاکھ روپے کے حساب سے کتنا پیسہ کمایا گیا۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنے نوبل پروفیشن سے تعلق رکھنے والے اِن ڈاکٹروں کو کیا ہو گیا ہے، اتنا لالچ کہ انسانیت ہی نہیں رہی۔ اَرے بھائی اِس سے بہتر ہے کہ تم صدقہ خیرات ہی لے لو۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو تمہیں صدقہ خیرات دے دیں گےاور پھر تم دنوں میں کروڑ پتی ہو بن جانا، موجیں مارنا جس طرح حکمراں سرکاری خزانے پر موجیں مار رہے ہیں۔کتنی شرم کی بات ہے کہ انسانی جان کی قیمت لگا کر کما رہے ہو۔؟ پھر عیاشی کر رہے ہو۔ ٹی وی چینل پر تمہاری تصاویر قیمتی عینکیں اور کپڑوں کے ساتھ ٹیلی کاسٹ ہوئی ہیں۔ ذرا برابر بھی تم کو شرم نہیںیہ حرام پیسہ اپنی اولاد کو کھلا رہے ہو۔
اب کہاں وہ وائی ڈی اے جو ہمیشہ جھوٹے دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مریضوں کیلئے آواز اُٹھاتی ہے، یا وہ مریضوں کے حقوق کیلئے ہڑتالیں کرتی ہے۔ وائی ڈی اے کا سیکرٹری جنرل ڈاکٹر التمش گردوں کے اس کاروبار میں خود ملوث ہے اور ای ایم ای سوسائٹی کے ایک گھر میں سرجری کرتے پکڑا گیا۔ ذرا سوچو کہ اُس گھر میں جو آپریشن تھیٹر بنایا گیا ہو گا کیا وہ طبی نقطہ نگاہ سے جراثیم سے پاک اور کسی سرکاری اسپتال کے آپریشن تھیٹر کے معیار کا ہو گا۔پھر یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ ہر مرتبہ کسی نئی جگہ پر گردوں کا آپریشن کرتے تھے۔ آج کل بہت ساری سوسائٹیوں میںایک ماہ کیلئے گھر کرائے پر مل جاتا ہے۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ جو ڈاکٹرز پکڑے گئے ہیں وہ گردوں کی پیوند کاری کا ایک کروڑ روپے تک لے رہےتھے۔
گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری کی آخر وجوہات کیا ہیں؟ اعضاکی پیوند کاری کے ایکٹ کے مطابق گردہ/ جگر یا کوئی اور جسمانی اعضاصرف قریبی خونی رشتہ دار یعنی سگا بھائی، سگی بہن، ماں، باپ اور بیٹا/ بیٹی دے سکتے ہیں۔ اب کسی مریض/ مریضہ کا کوئی بھائی/ بہن/ والدین ہی نہ ہوں۔ تو وہ کیا کرے؟ دوسرے اگر کسی مریض/ مریضہ کے رشتے دار عطیہ نہ دینا چاہیں تو ایسی صورت میں وہ مریض/ مریضہ کیا کرے۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان میں ہر سال 15ہزار افراد خلیجی ممالک سے پاکستان میں گردہ خریدنے آتے ہیں کیونکہ پاکستان میں گردہ سستا مل جاتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ غربت اور گردہ خرید و فروخت کا مکروہ کاروبار کرنے والے زیادہ تر بھٹہ مزدوروں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ اِس سارے مکروہ کاروبار کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس پیوندکاری کے دوران اور بعدمیں کئی مریض زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گردوں کی پیوندکاری اناڑی ہاتھوں میں ہو رہی ہے۔ پھر آپریشن تھیٹرز میں انفیکشن اور مناسب ضروری سہولتیں اور آلات کا نہ ہونا ہے۔ ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ کے تحت یہ پہلی کارروائی ہوئی ہے۔ اس ادارے کے سربراہ انتہائی ایمان دار ڈاکٹر، پروفیسر فیصل مسعود کو مقرر کیا گیا ہے، مگر تاحال اِس ادارے کے پاس اپنا اسٹاف اور عمارت نہیں۔ پروفیسر فیصل مسعود نے نہ تو سفارش سننی ہے اور نہ کوئی دبائو قبول کرنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری بات یہ ہے کہ جن مریضوں کے رشتہ دار نہیں یا جو رشتہ دار اعضاکا عطیہ نہ دینا چاہیں اُن کیلئے بھی کوئی راستہ ہونا چاہئے۔
حکومت کا یہ اقدام بالکل درست ہے کہ ایسے مافیا کے خلاف کارروائی کرے۔! دوسری طرف دُکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ کو چلانے والے ایسے افراد ہیں، جو پاکستان کے حالات اور مسائل سے بالکل بے خبر ہیں، جو امریکہ میں تو چاہے کامیاب ہوں گے مگر پاکستان میں ایک انتہائی مہنگا ادارہ بنانا کسی طور پر بھی کوئی عقل مندی نہیں۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ 20ارب روپے سے اِس ادارے کی حکومت تعمیر رکوا کر پورے صوبے میں ٹیچنگ اسپتالوں اور ٹی ایچ کیو اور ڈی ایچ کیو اسپتالوں میں گردوں اور جگر کی علاج گاہوں کو اپ گریڈ کرے۔ہمارے پاس گردوں اور جگر کے سرجنوں کی شدید کمی ہے اس پر توجہ دی جائے۔ بڑی بڑی عمارات کھڑی کرنے سے گردوں اور جگر کے امراض ختم نہیں ہوں گے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ گردوں اور جگر کے بڑھتے ہوئے امراض کو روکنے پر توجہ بالکل نہیں دی جا رہی۔گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک لوگ لائیو اعضا دیتے رہیں گے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ لائیو ڈونر ہیں۔ اس کی وجہ غربت ہے اگر حکومت سختی کے ساتھ اس بات پر عمل درآمد کرائے اور لوگ خود بھی اس نیک کام میں آگے آئیں کہ جو لوگ صحت مند ہوں اور وہ کسی حادثے میں یا قدرتی طور پر وفات پا جائیں اور ان کے تمام اعضا تندرست ہوں تو ان کے رشتہ داروں کو چاہئے کہ وہ اپنے وفات پا جانے والے رشتہ دار کے اعضاضرورت مند یعنی مریضوں کو دے دیں۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں ڈونر کارڈ بنے ہوئے ہیں لوگ خود یہ وصیت کرتے ہیں کہ ان کے مر جانے کے بعد ان کے اعضا لے لئے جائیں۔ چنانچہ جب ایسا فرد جس نے یہ ڈونر کارڈ بنوا یا ہوتا ہے اس کے انتقال پر میڈیکل ٹیمیں فوری طور پر جسم سے اعضا حاصل کرکے ضرورت مند مریضوں تک پہنچا دیتی ہیں اور ہر اسپتال میں پہلے سے ایسے مریضوں کو لسٹ پر رکھا ہوتا ہے۔ کاش پاکستان میں بھی ایسا سلسلہ شروع ہو جائے۔ حکومت علماکرام اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں۔ نادرا کے شناختی کارڈ میں ایک خانہ ڈونر کا بھی ہونا چاہئے۔ تاکہ ضرورت مند مریضوں کو گردے، دل، جگر، پھیپھڑے،جوڑ اور جلد تک مل سکے۔
اگر گردوں کی پیوند کار ی کے غیر قانونی کام کو روکنا ہے تو اس کیلئے اعضاکو عطیہ کرنے کے جذبے کو ابھارنا ہوگا اور صرف ایک سینٹر لاہور میں بنانے کی بجائے پورے پنجاب کے تحصیل اور ٹیچنگ اسپتالوں میں گردوں کی پیوند کاری کے سنٹر بنانے ہوں گے۔
دوسری جانب یہ بات طے شدہ ہے کہ جن مریضوں کے گردے ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں انہیں زندگی بھر تیس سے چالیس ہزار روپے ماہانہ کی ادویات لینا ہوتی ہیں۔ ہمارا حکومت سے سوال ہے کہ آپ نے کڈنی لیور سنٹر بنا بھی دیا، لوگوں کے گردے اور جگر تبدیل بھی کردیئے۔ بقول اس سینٹر کے ڈاکٹروں کے غریبوں کا علاج مفت ہوگا۔ آپ فرض کریں سالانہ سو سے زائد گردوں اور جگر کی پیوند کاری کردیتے ہیں۔ اب ان سو مریضوں کو ماہانہ ادویات کون فراہم کرے گا؟اور دوسری جانب یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اگر گردہ اور جگر کی پیوند کاری کرانے والا مریض دس سال تک زندہ رہے تو دس سال میں ہزاروں مریض پیوند کاری کرا چکے ہوں گے۔آپ کہاں اتنی تعداد میں مریضوں کو مفت ادویات فراہم کرپائیں گے؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ خدا را شعبہ صحت میں اورنج ٹرین جیسے سیاسی فیصلے نہ کریں، یہ شعبہ صحت ہے، کوئی پی آئی اے یا ریلوے کا شعبہ نہیں جہاں جہاز یا ٹرین لیٹ ہو جانا معمول کی بات ہے۔ یہاں پر ذرا سی کوتاہی سے انسان زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

.
تازہ ترین