• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکومت جب قائم ہوئی تو لگتا ایسا ہی تھا کہ اس کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان وفاقی وزیر اطلاعات کا عہدہ بھی سنبھالیں گے تاہم یہ ذمہ داری سینیٹر پرویز رشید کے حصے میں آئی جنھوں نے اپنی برد باری، تحمل مزاجی اور سخت گفتگو بھی نرم لہجے میں کر کے خود کو حکومت کا بہترین ترجمان ثابت کیا اور کئی دفعہ حکومت کا نہ صرف سیاسی بحرانوں میں دفاع کیا بلکہ اسے بحرانوں سے نکالا بھی لیکن ڈان لیکس کے بحران میں انھوں نے قربانی دیکر حکومتی سفینے کو ڈوبنے سے بچایا، ایک بار پھر حکومت کو وزیر اطلاعات کی تلاش ہوئی تو مشاہد اللہ خان کا نام بہت سے ذہنوں میں تھا جو خود بھی ایک متنازعہ انٹرویو کے سبب اپنی وزارت قربان کرچکے تھے تاہم اس دفعہ قرعہ مریم اورنگ زیب کے حصے میں آیا، بہت سے لوگوں کیلئے مریم اورنگ زیب ایک نیا نام اور نیا چہرہ تھیں لیکن بہت جلد انہوں نے اپنی مدلل گفتگو، بہترین ہوم ورک اور حاضر جوابی کے ذریعے خود کو حکومت کا بہترین ترجمان ثابت کرکے دکھایا اور خاص طور پرحکومت کا پانا ما اور ڈان لیکس کے بحران میں بھرپور دفاع کیا، الفاظ پر مکمل کنٹرول اور موضوع پر بہترین گرفت رکھنے والی مریم اورنگزیب سے اسلام آباد میں یہ میری پہلی ملاقات تھی جو ایک کتاب کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعوع تھیں، جبکہ سینٹر مشاہداللہ خان اور جاپانی سفیر تاکاشی کورائی بھی خصوصی طور پر تقریب میں شریک تھے، مریم اورنگزیب کا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے ان کی والد ہ بھی قومی اسمبلی کی رکن ہیں تقریب میں مریم اورنگزیب وقت مقررہ پر ہال میں داخل ہوئیں جبکہ جاپانی سفیر بھی وقت پر تشریف لاچکے تھے دونوں مہمانوں کو اسٹیج پر بٹھایا گیا کچھ ہی دیر بعد سینیٹر مشاہد اللہ خان بھی ہال میں داخل ہوئے۔ مریم اورنگزیب کیونکہ اسٹیج کی درمیانی سیٹ پر براجمان ہوچکی تھیں جو ان ہی کیلئے مختص تھی لیکن سینیٹر مشاہد اللہ خان پر نظر پڑتے ہی وہ اپنی نشست چھوڑ کر کھڑی ہوگئیں اور اپنی پارٹی کے سینئر سیاستداں کیلئے مہمان خصوصی کی نشست خالی کردی کہ ان کی موجودگی میں وہ مہمان خصوصی کی نشست پر نہیں بیٹھ سکتیں، یہ چھوٹا سے واقعہ مریم اورنگزیب کے باادب ہونے کی مثال ہے اس خوشگوار موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے سینیٹر مشاہداللہ خان سے یہ سوال پوچھ ہی لیا کہ گوگل وکی پیڈیا پر مریم اورنگزیب کے والد کے طور پر آپ کا نام درج ہے تو مشاہد اللہ خان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ کسی نے غلط تحریر کیا ہے مریم ان کی بیٹی کی طرح ہیں اور ان کی صاحبزادی کی دوست بھی ہیں لیکن ان کے والد کا نام راجہ اورنگزیب عباسی ہے، وکی پیڈیا کو حقائق درست کرلینے چاہئے، مریم اورنگزیب نے بھی اپنے خطاب میں واضح کیا کہ انکل مشاہد اللہ خان کو پہلے پاکستانی میڈیا اور پھر وکی پیڈیا نے بطور میرے والد کے طور پر تحریر کیا ہے اس طرح کی غلط معلومات کی وجہ سے لوگوں کا میڈیا اور وکی پیڈیا جیسے اداروں پر سے اعتماد کم ہوتا جارہا ہے، انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان اور جاپان کے درمیان سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جاپان پاکستان کیلئے انتہائی اہم ملک ہے اور پاکستان جاپان سے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ سال دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے پینسٹھ برس مکمل ہونے پر منایا جارہا ہے اور اس موقع پر کتاب یاران وطن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، اس موقع پر جاپانی سفیر تاکاشی کورائی نے اپنے خطاب میں پاکستان اور جاپان کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اضافے کیلئے میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ جاپانی سفیر نے امید ظاہر کی کہ وقت کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا، اس موقع پر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اپنے دورہ جاپان کے حوالے سے مشاہدات اور تجربات سے شرکا کو آگاہ کیا۔ تقریب سے مسعود ملک، ملک نور اعوان، پاک جاپان بزنس کونسل کے اشفاق احمد، سینئر صحافی حاجی نواز رضا، سینئر صحافی حنیف خالد، پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، ملک یونس اور سینئر کالم نگار مظہر برلاس نے بھی خطاب کیا جبکہ کئی سینئرصحافی اور اہم سماجی شخصیات بھی موجود تھیں جبکہ تقریب کی صدارت سینئر صحافی اور ٹی وی اینکر افشاں ملک کے سپرد تھی، اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اس اہم تقریب کے بعد اگلی منزل ایوان صدر تھی جہاں جاپان سے آئے ہوئے وفد کی ملاقات صدر مملکت ممنون حسین سے طے تھی، ایک گھنٹے بعد ہم ایوان صدر میں داخل ہورہے تھے ایوان صدر اب سابقہ صدور کے زمانے جیسا ایوان صدر نہیں رہا اب کا ایوان صدر ایک عام پاکستانی مڈل کلاس گھرانے جیسے گھر میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں شام کے وقت فالتو بتیاں بجھا دی جاتی ہیں تاکہ بجلی کے ضیاع سے بچا جاسکے، باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے نوکر و چاکر کی فوج ختم کردی گئی ہے صرف اہم اور ضروری اسٹاف ہی موجود رہتا ہے پچھلے صدور کے دور میں اور اب کے صدر کے دور میں ایوان صدر میں ہونے والے رتجگوں میں بھی فرق آگیا ہے اب یہاں رات صرف عبادت کیلئے جا گ کر گزاری جاتی ہے اور قرآنی آیات کا ورد خصوصی طور پر کیا جاتا ہے، اب ہم ایوان صدر پہنچ چکے تھے تمام مہمانوں سے موبائل فون نیچے ہی رکھوا لئے گئے پروٹوکول اور سیکورٹی کا تقاضہ یہی تھا لیکن ہمارے ساتھ آنے والے مہمانوں کی صدر مملکت کے ساتھ تصاویر کچھوانے کی خواہش زیادہ تھی اس لئے وہ اداس ہوچکے تھے، مہمانوں کو مہمان خانے میں بٹھایا گیا اور کچھ ہی دیر بعد ایک فوجی افسر جو غالباً صدر مملکت کے اے ڈی سی ہی تھے نے باآواز بلند اعلان کیا کہ خواتین حضرات صدر مملکت تشریف لارہے ہیں۔ صدر ممنون حسین باوقار انداز میں مہمان خانے میں داخل ہوئے اور فرداً فرداً سب سے مصافحہ کیا، دوران گفتگو اس دفعہ بھی صدر ممنون حسین کی آواز اور انداز میں پاکستان کے روشن مستقبل اور ترقی کے حوالے سے بہت اعتماد نظر آیا، میری یہ صدر مملکت سے تیسری ملاقات تھی اور ہر دفعہ ہی صدر ممنون حسین پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت پر امید نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے نہیں پیدا کیا ہے ایک دن مسلمان قوم بھی دنیا کی عظیم قوم بنے گی ترقی کی معراج پر پہنچے گی اور پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کرے گا، تاہم صدر ممنون حسین بعض جماعتوں کی جانب سے پاکستان کی ترقی کو روکنے کی کوششوں سے مایوس نظر آئے۔ صدر ممنون حسین کے پاس بہت سے حقائق اور اعداد وشمار بھی موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ بعض جماعتیں اپنے مفاد کیلئے پاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں تاہم عہدے کی بندشیں زبان کی بندش کا سبب بنتی ہیں تاہم صدر اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جھوٹ کو شاید وقتی کامیابی تو مل جائے لیکن اصل اور مستقل کامیابی ہمیشہ حق اور سچ کی ہی ہوتی ہے۔

.
تازہ ترین