• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کی داخلی سیاست میں تو سخت تنقید، تنازعات اور اسیکنڈلز کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ ان کی امریکہ سے عدم موجودگی اور غیر ملکی دوروں کے دوران بھی ایف بی آئی کے سربراہ کو ہٹانے اور روس سے تعلقات کے حوالے سے امریکی میڈیا اب بھی نت نئے انکشافات کر رہا ہے۔ روس کے بارے میں تحقیقات کے لئے دبائو اتنا بڑھ چکا ہے کہ تحقیقات کے لئے آزاد اسپیشل پر اسیکیوٹر بھی مقرر کیا جا چکا ہے۔ ابھی صدر کا عہدہ سنبھالے بمشکل چار ماہ گزرے ہیں مگر متعدد بااثر منتخب امریکی سیاستدان اور قانون داں صدر ٹرمپ کو آئینی خلاف ورزی کے الزام میں مواخذہ کر کے انہیں صدرات سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی میڈیا کے ساتھ انہوں نے ایک ایسی جنگ چھیڑ رکھی ہے جو کوئی بھی امریکی صدر برداشت نہیں کر سکتا۔ ادھر اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران اسلام اور مسلمانوںکے بارے میںاپنے بیانات و کلمات سے جہاں امریکہ کی ’’بائبل بیلٹ‘‘ کے نام سے مشہور ریاستوں کے کنزرویٹو ووٹرز اور ایونجلسٹ مبلغین کو خوش کر کے حمایت حاصل کی وہاں امریکی مسلمانوںمیں خوف اور مخالفت کو بھی ہوا دینے کا متنازعہ رول ادا کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوںمیں خدشات پیدا کئے۔ اس تمام ناموافق اور پیچیدہ داخلی صورت حال کے باوجود امریکہ کے جمہوری نظام کی مضبوطی اور وژن کو دیکھئے کہ امریکیوں کے درمیان اس قدر متنازع صدر ٹرمپ جب اپنے غیر ملکی دورے پر نکلتے ہیں تو وہ امریکی قوم کے نمائندہ اور امریکی قوت کے ترجمان ہوتے ہیں لہٰذا داخلی تنازعات و مسائل کو مؤخر کر کے امریکی صدر کو دنیا سے ڈیل کرنے اور امریکی مفادات کے لئے کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ سعودی عرب کے دو روزہ دورے پر صدر ٹرمپ کے پہنچنے سے قبل ہی خاموش مذاکرات اور ’’بیک ڈور پالیسی ‘‘ کے ذریعے وہ سب کچھ طے پا چکا تھا جس نے سامنے آنے پر دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔ (110) بیلن امریکی ڈالرز کے فوری نافذالعمل معاہدوں پر دستخط ہو گئے کہ امریکہ جدید اسلحہ ، ہتھیار، ٹیکنالوجی اور دیگر مصنوعات سعودی عرب کو فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ اگلے دس سال کے دوران سعودی عرب امریکی انفرااسٹرکچر میں(350)بیلن ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی کرے گا۔ صرف ہتھیاروں کے اس معاہدے سے خوش ایف سولہ طیارے بنانے والی کمپنی مارٹن لاک ہیڈ کا کہنا ہے کہ اس سے کئی نئے شعبوں میں روزگار کے ہزاروں نئے موقع پیدا ہوں گے۔ سعودی عرب نے امریکی صدر ٹرمپ کا مثالی اور تاریخی خیر مقدم اور ان معاہدوں پر دستخط کر کے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے مستقبل کا ایک نیا باب کھول دیا ہے بلکہ خطے میں ایسی ڈرامائی تبدیلیوں کی راہ ہموار کر دی ہے جس کے نتائج صرف موجودہ صدی تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ ان معاہدوں کے علاوہ ابھی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بہت کچھ مزید سامنے آنے کو ہے۔ روس اورچین اس سعودی امریکہ ڈیل کے بارے میں کس روعمل کا اظہار کرتے ہیں؟ یہ بھی اپنی اہمیت کا حامل ہے۔
صدر ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے نتائج و اثرات کا ممکنہ جائزہ لینے کے لئے اس امر کا تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ اس امریکہ۔ سعودی ڈیل سے امریکہ نے کیا حاصل کیا؟ سعودی عرب کو کیا ملا؟ اور اردگرد کے ممالک اور ماحول کو اس ڈیل سے کیا ملنے کی توقع ہے؟
صدر ٹرمپ سعودی عرب کے بعد اس اسرائیل کا دورہ بھی مکمل کر چکے۔ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم کی پرانی دوستی کی اعلانیہ تصدیق کے علاوہ سعودی وزیر دفاع اور نائب ولی عہد (31) سالہ محمدؐ بن سلمان اور ٹرمپ کے (35) سالہ داماد اور مشیر جیرڈکشنر کا خاموش اور مؤثر رول بھی اب خفیہ نہیں ہے۔ جیرڈکشنر کیلئے سعودی محل اور اسرائیلی پرائم منسٹر ہائوس اجنبی جگہ نہیں وہ دونوں طرف قابل اعتماد اور قابل استعمال رابطہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یروشلم میں یہودیوں کی مقدس ’’دیوارگریہ‘‘ پر ڈونلڈ ٹرمپ کی رسائی کے وقت صدر کے راسخ العقیدہ یہودی داماد اور خصوصی مشیر جیرڈکشنر ہی ان کے پاس دیکھے گئے لہٰذا مشرق وسطیٰ میں پرانی دشمنیاں دوستیوں میں تبدیل کرنے اور اپنے ہی ہم مذہبوں میں نئے دشمن تلاش کرنے کے مشن میں نوجوان نسل کا رول بھی ہے۔ صدرٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب اور مسلم ممالک کی سمٹ سے خطاب کے بعد براہ راست اسرائیل کیلئے فلائٹ پر بھی کسی کو اعتراض نہ ہونا بھی ’’گرائونڈ ورک‘‘ کی تصدیق ہی سمجھئے۔ بہرحال ایران کو دہشت گردی میں ملوث اور مشترکہ دشمن قرار دیکر ’’توپوں‘‘ کا رخ تل ابیب کی بجائے تہران کی طرف موڑ دیا گیا ہے جو امریکہ۔ اسرائیل اور سعودیوں کیلئے ایک مشترکہ ٹارگٹ ضرور ہے۔ مگر اس نئی اسٹرٹیجی کے منفی اثرات کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ عراق شام اور لیبیا کی تباہی کے بعد اب عرب دنیا میں مصر اورسعودی عرب ہی مسلم مڈل ایسٹ کے لیڈر ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ صدر پرویز مشرف امریکی صدر بش سے کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کے بعد اپنے ہوٹل لوٹے تو شام کو ’’جیو‘‘ کے لئے خصوصی انٹرویو سے قبل غیر رسمی گفتگو کے دوران انہوں نے اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہم پاکستانی فلسطینیوں سے بھی زیادہ فلسطینی کیوں ہیں؟ ہمارا اسرائیل سے کیا جھگڑا ہے؟ ’’بات قدرے تفصیل سے ہوئی اور پھر عرب دنیا کے درعمل پر جا کر رک گئی۔ آج وہی عرب دنیا زمینی حقائق کے ہاتھوں مجبور نظر آتی ہے۔ اسرائیل عرب رابطوں کے بعد مشرق وسطیٰ عرب۔ اسرائیل تعلقات کی نوعیت اورسمت کیا ہوگی؟ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
(2) امریکہ اپنے عالمی اور علاقائی مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی فوج، اسلحہ اور ٹریننگ پر اربوں ڈالرخرچ کرتا چلا آرہا ہے۔ ناٹو معاہدے کے اتحاد میں یورپی ممالک کے فوجی دستوں کے باوجود بیشتر اخراجات امریکہ کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی امیدوار کے طور پر ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ناٹو کے اتحادی پارٹنر اخراجات کا بڑا شیئر ادا کریں۔ سعودی عرب کو (1100) ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کر کے امریکہ کے اسلحہ انڈسٹری کے کاروبار کا بھلا بھی ہو گا اور پھر سعودی عرب اپنے وسائل سے علاقے میںفوج اور اس کی تربیت کا انتظام بھی کرے گا۔ اسلحہ انڈسٹری کو غیر ملکی کاروبار بھی ملے گا۔ صرف ہتھیاروں کے اس بڑے معاہدے سے امریکہ میں روزگار کے مواقع پیدا ہوںگے۔
(3) مسلم دنیا کے ممالک کیلئے ایک نئی آزمائش اور نیا چیلنج ہے۔ پاکستان سمیت ہر ملک میں مسلمان عقیدہ و مسلک کے امتیاز کے بغیر آباد اسی طرح ہیں جس طرح کیھتولک اور پروٹسٹنٹ عقیدہ کے عیسائی امریکہ اور دیگر ممالک میں رہائش پذیر ہیں یا پھر اسرائیل میں راسخ العقیدہ ، لبرل اور دیگر مسلک کے یہودی آباد ہیں۔ ایران کو دہشت گردی پھیلانے والا ملک کہہ کر ایک نئی تقسیم کی لکیر کھینچنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو مشرق وسطیٰ اور علاقے کے مسلم ممالک کیلئے نئے مسائل اور تقسیم پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ یہ مسلم دینا کیلئے اچھی خبر نہیں۔ ایران کو ایٹمی قوت بننے کی سزا اگر دینے کی کوشش اور منصوبہ ہے تو پھر ایٹمی پاکستان کی باری بھی کسی مرحلے پر آسکتی ہے۔ عالمی طاقتیں علاقائی ابھرنے والی طاقتوں کو کنٹرول میں رکھنےکی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہیں مگر یہ صورتحال مشرق وسطیٰ سے لیکر انڈونیشیا تک کے مسلمانوں کیلئے بری خبر ہے۔ اگر دہشت گرد کا کوئی مذہب و مسلک نہیںتو پھر کسی کو ٹارگٹ کئے بغیر دہشت گردی کے خلاف ضرور اتحاد قائم ہونا چاہئےاور بلاتخصیص عقیدہ و مسلک دہشت گردوں سے نمٹنا چاہئے۔ دہشت گردی کی اسلام میں اگر کوئی گنجائش نہیںتو پھر کسی مسلک و عقیدہ یا ملک کو قرار دینا مناسب نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں یہ حکمت عملی صدیوںکے لئے تقسیم و تباہی کا باعث ہو گی۔صدر ٹرمپ اپنے دو روزہ دورے میں اربوں ڈالرز کا اسلحہ فروخت کر کے مسلم دنیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تلقین اور ایران کو دشمن قرار دیکر واپس جا چکے۔ اسرائیل کو عرب دنیا میں حقیقت تسلیم کئے جانے کی اچھی خبرمل چکی اور پاکستانی معیشت اور معاشرے پر ایران کے حوالے سے ایک اور شدید دبائو کا اضافہ ہو گیا۔ خدا خیر کرے۔



.
تازہ ترین