• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’سعودی عرب امریکہ سے 110ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے گا۔‘‘ یہ الفاظ گز شتہ روزامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز کے مابین ہونے والے معاہدے سے لئے گئے ہیں۔ یہ کوئی نیا یا پہلا معاہدہ نہیں، اس طرح کے معاہدے تمام ممالک کے درمیان ہوتے رہتے ہیں، لیکن اصل ٹائمنگ اور حالات ہیں۔ قارئین! پس منظر و پیش منظر کے طورپر یاد رکھیںکہ چند سالوں سے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں ’’اسلحے کی تخفیف‘‘کا ڈھنڈوراپیٹ رہی ہیں، حالانکہ امریکہ سمیت ان سامراجی عزائم رکھنے والی ممالک کی بیسیوں کمپنیاں اور فرمیں اسلحہ پھیلانے میں لگی ہوئی ہیں۔ اس حقیقت کا برملا اعتراف سابق امریکی صدر بش نے 11فروری2004ء کو امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کیا تھا کہ یورپ اور امریکہ کی کئی فرمیں دنیا میں جوہری ہتھیار پھیلا رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہے۔ نیوکلیئر کی انڈر ورلڈ اس وقت 158کمپنیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اب تک صرف 78کمپنیاں سامنے آئی ہیں جبکہ بین الاقوامی ادارے باقی 80کمپنیوں تک ابھی نہیں پہنچ پائے۔ ان کمپنیوں میں سے 24کا تعلق امریکہ، 3کا چین، 8کا فرانس، 17کا برطانیہ، 6کا روس، 5 کا جاپان، 3 کا ہالینڈ، 7 کا بلجیم، 3 کا اسپین اور 2 کا سوئیڈن سے ہے۔ ان 78کمپنیوں میں سے کسی ایک کا تعلق بھی کسی اسلامی ملک سے نہیں۔ یہ ساری کمپنیاں ان ممالک میں رجسٹر ڈ ہیں اور انہی میں کام کررہی ہیں جو اس وقت جوہری پھیلائو کے خلاف ہیں۔ امریکہ اس وقت جوہری بم کے خلاف احتجاج کرنے والے ممالک میں سرِفہرست ہے لیکن اس کی کمپنی ’’Honey Well‘‘ دنیا کو مہلک ہتھیاروں کے پُرزے بیچ رہی ہے۔ ان تمام کمپنیوں کے دفتر روز کھلتے ہیں، امریکہ بھر میں ان کے بینک اکائونٹس بھی موجود ہیں۔ ان کا سارا کاروبار کھلے عام ہوتا ہے لیکن امریکہ کا کوئی ادارہ کوئی ایجنسی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتی۔ یہ10بڑے ممالک کی 78کمپنیاں ہیں جو پوری دنیا میں کیمیائی، حیاتیاتی اور جوہری ہتھیار پھیلا رہی ہیں۔ ایف بی آئی، سی آئی اے اور آئی اے ای اے کے جاسوسوں کا خیال ہے دنیا میں جوہری دھندے میں ملوث کمپنیوں میں سب سے زیادہ تعداد جرمنوں کی ہے۔ ریسرچ کے مطابق اس وقت دنیا کے 14ممالک جوہری بم کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ان ممالک میں امریکہ، آسٹریلیا، بلجیم، چین، جرمنی، جاپان، ملائشیا، ہالینڈ، روس، جنوبی افریقہ، اسپین، سوئٹزر لینڈ اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ ان ممالک کی سیکڑوں کمپنیاں ایٹمی پلانٹ کے پرزے بنارہی ہیں، انہیں روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ گویا جوہری تباہی کو روکنا شاید اتنا آسان نہیں رہا۔ یہی وہ خدشہ ہے جس نے اس وقت امریکہ کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ اس کے منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ دنیا میں ہتھیاروں کی غیرقانونی تجارت کرنے والی مافیاز دنیا کے مختلف مقامات پر غیرقانونی ایٹمی ری ایکٹر چلارہی ہیں۔ یہ لوگ سات براعظموں پر پھیلی دنیا اور دنیا کی مختلف فیکٹریوں میں آلات بناتے ہیں۔ ان آلات کو جوڑ کر کہیں نہ کہیں ایٹمی ری ایکٹر بناتے ہیں، اس میں یورینیم افزودہ کرتے ہیں اور یہ یورینیم آگے مارکیٹوں میں فروخت کردیتے ہیں۔ امریکہ کا خیال ہے اگر ان لوگوں نے نجی سطح پر ایٹم بنانے شروع کردئیے اور یہ بم بھی رائفلوں، توپوں اور گولوں کی طرح مختلف ممالک کو فروخت ہونا شروع ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟پہلی جنگ عظیم 28 جون 1914ء کو شروع ہوئی تھی اور11نومبر 1918ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس جنگ کے فریقین طاقتور تھے۔ ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ تھےتو دوسری طرف امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے۔ جنگ عظیم اول میں دونوں طرف سے ایک کروڑ سے زائد افراد مارے گئے اور دو کروڑ کے لگ بھگ معذور ہوگئے۔ دوسری جنگ عظیم یکم ستمبر 1939ء سے شروع ہوئی اور 2 ستمبر 1945ء میں انجام تک پہنچی۔ اس میں بھی فریقین طاقتور تھے۔ ایک طرف جاپان، اٹلی اور جرمنی جیسی طاقتیں تھیں تو دوسری طرف برطانیہ، روس اور امریکہ جیسے ممالک تھے۔ جنگ کے اختتام پر امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایٹم بم گرائے۔ اس بربریت سے چشم زدن میں دو لاکھ افراد بلبلے کی طرح پگھل کر رہ گئے۔ جو زندہ بچ گئے وہ زندہ درگور تھے۔ تاریخ کے اس بدترین ظلم وستم کے بعد اگر انسانیت کی رمق بھی باقی ہوتی تو امریکہ اپنے مہلک اور جوہری ہتھیار تلف کردیتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کی ہمت اور بڑھ گئی۔ امریکہ جنگِ عظیم دوم کے بعد سے تاحال بیسیوں آزاد ملکوں پر جارحیت کا ارتکاب کرچکا ہے۔ افسوس کہ اس کی خون آشامی کا سلسلہ اس وقت بھی پوری شدت اور حدت سے جاری و ساری ہے۔ اور نائن الیون کے بعد سے سارا زور استعماری قوتیں باقی ماندہ عالمِ اسلام کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ کر، اسے تقسیم در تقسیم کے عمل سے دوچار کرکے، اس میں فرقہ واریت اور نفرت کے بیج بوکر بے دست وپا کرنا چاہتی ہیں۔ دنیا بھر کے 245 ممالک میں سے 57 اسلامی ممالک: البانیہ، بوسنیا ہرزیگوینا، بینن، ٹوگو، برکینا فاسو، آئیوری کوسٹ، گنی، سرالیون، گمبیا، سینیگال، گنی بسائو، مالی، موریطانیہ، مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، چاڈ، نائیجر، نائیجیریا، کیمرون، گیبون، سوڈان، مصر، اریٹیریا، جیبوتی، صومالیہ، یوگنڈا، تنزانیہ، کوموروس، انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی دارالسلام، بنگلہ دیش، پاکستان، قزاخستان، کرزغستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، افغانستان، ایران، آذربائیجان، ترکی، شام، لبنان، فلسطین، اردن، عراق، سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان، یمن کے تفصیلی حالات دیکھئے ۔مسلم ممالک ہی خلفشار،انارکی اور حالت جنگ کا شکار نظر آتے ہیں ۔ جنگ جن ممالک کے مابین بھی ہو ،لیکن اسلحہ ساز 75ملٹی نیشنل کمپنیاں اور 93 فرمیں اپنا ہر قسم کا اسلحہ بلاتفریقِ مذہب و قوم سب کو دھڑا دھڑ فروخت کر رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک نے اپنے قیمتی وسائل اسلحے کی دوڑ میں ضائع کردئیے ہیں، حالانکہ یہی وسائل عوام کی معاشی بہتری کیلئے استعمال کئے جاسکتے تھے۔ اب امریکہ نے سعودی عرب کو 110 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچنے کا معاہدہ کیا ہے جبکہ دیگر کئی ممالک سے پہلے کئی معاہدے کر چکاہے۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ ایسے میں امن کے پھول کیسے کھلیںگے؟



.
تازہ ترین