• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیویارک کے علاقے فلشنگ جانیوالی بس کے انتظار میں لگی قطار میں میرے پیچھے کھڑے ہوئے مشرقی ایشیائی لگتے شخص سے میں نے پوچھا، ’’چین سے یا تائیوان سے ہو؟‘‘ تو اس نے کہا ’’دونوں سے نہیں انڈونیشیا سےہوں‘‘۔ ہم لوگ جو ہر مشرقی ایشیائی چاہے مشرقی ایشیائی پھر وہ چینی ہو کہ ویتنامی چاہے تھائی، جاپانی کہ کوریائی یا کمبوڈیائی، فلپینی اور ملائیشیا تک سب کو ’’چینی‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ پتہ نہیں کیوں اپنے ہزارہ بھائیوں کو بھی۔ چلو انکے لیے تو ایک طرح سے آج کل اچھا ہوگا! فلشنگ نیویارک میں ایک چھوٹا بیجنگ ہے۔ جہاں کی دکانوں اور عمارتوں کے بل بورڈ بھی نہ فقط چین میں ہیں بلکہ چینی زبان میں عبارت ڈاک بھی ڈاکیے فلشنگ میں اپنی منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ فلشنگ کی مرکزی لائبریری کے سامنے کئی دنوں سے فرقے فالن گا والے چین میں انکے لوگوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کیخلاف چینی زبان میںبڑے بڑے بینر اور جھنڈے اٹھائے احتجاج کیے ہوئے ہیں، اور اسی طرح تبت کے لوگوں اور دلائی لاما کا بھی بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔ لیکن امریکی دکانیں اور بڑے بڑے چینی اسٹورز ہیں جو چینی مال سے بھرے پڑے ہیں جن میں اور اشیاء تو چینی ساخت کی ٹھہریں لیکن امریکی پرچم بھی میڈ ان چائنا ملتے ہیں۔ ہر بڑے چھوٹے شہر میں ایک چائنا ٹائون ہے۔ بسیں بھی چینی ہیں جو امریکی دارالحکومت سمیت کینیڈا تک سستے میں پہنچاتی ہیں۔ امریکہ میں چین اور چینیوں کے متعلق پھر کبھی سہی۔ چین کے ذکر کو لیکر نکلا میں چلا پیارے پاکستان۔
یہ سب کچھ تب بھی یادآیا جب ایک خبر نظر سے گزری کہ پاکستان میں پہلا چینی زبان کا اخبار شائع ہوا ہے جس میں زیادہ تر خبریں کاروباری نوعیت کی ہیں۔ میں نے سوچا یہ معاملہ ہے ہی سارا سیاسی سے زیادہ کاروباری نوعیت کا۔ لیکن میں پسند کروں یا نہ کروں، چاہے میں دنیا میں چینی ریشہ دوانیوں اور اسکے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کا زبردست مخالف ہوں، مائو کے ثقافتی انقلاب سے لیکر ٹینامین اسکوائر تک۔ لیکن یہ حقیقت مشرق سے ابھرتے سورج کی طرح روشن ہے کہ چین ایک قدیم اور عظیم انسانی تہذیب، قوم، اور خطے میں خود کو منواتی ہوئی ابھرتی طاقت ہے۔ سی پیک تو آج کی بات ہے۔ شاہراہ ریشم بہت قدیم اور ’’شاہراہ انقلاب‘‘ بہت پرانی ہے۔
چینی لوگ ہمارے خطہ برصغیر میں سب سے پہلے کب پہنچے! پہلا چینی بو دھ سیاح ہمیں فاہین ملتا ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں بودھ کے فرمو دات کی تلاش میں یہاں پہنچا تھا اور یہی راستہ لیکر جسے شاہراہ ریشم کہتے ہیں۔ ہمالیہ عبور کرتے ہوئے وہ سندھ کے میدانوں اور گندھارا اور پشاور تک آیا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں چینی سیاح بین زانگ کا پتہ ملتا ہے جس نے پنجاب جاتے ہوئے سندھ کا سفر اختیار کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یکتیریا فتح کرنے کے بعد چینیوں نے تب کے مغربی ہند سے تجارتی تعلقات کو اپنے سفیر جہاں بھیجے تھے وہ آج کا سندھ تھا۔ کنفیوشس کی قوم پھر تاریخ میں ایک لمبی تان کے کر پنکیوں میں گم بھی ہوگئی تھی۔ ہندوستان کی افیون پر چین کے ساتھ جنگیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی چین کی افیم پر اجارہ داری قائم کرنے کیلئےسازشی جنگوں کا انتہائی دلچسپ پیرایے میں ذکر لکھاری اور ناول نگار امیتاو گھوش نے اپنےناول میں کیا ہے جوتین جلدی گزشتہ سالوں میں شائع ہوا ہے۔انکی امریکن اہلیہ لارا بیکر الک طویل عرصہ لاہور میں رہیں اور انہوں نے مولانا مودودی کی منہ بولی بیٹی کی زندگی پر کتاب بھی لکھی ہے۔
خیرپس انقلاب چین جو ماؤزے تنگ کی قیادت میں ابھرا اس نے زیادہ تر جدید دنیا کی سیاست اور سماج پر اپنی چھاپ اور اثرات قائم کیے۔ یہ سب کچھ دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑی تبدیلیوں میں شمار ہونے لگا۔پاکستان اور بھارت انیس سو سینتالیس میں آزاد ہوئے اور چین انیس سو انچاس میں۔ فطری طورپر ہندوستان اور پاکستان کی سیاست اور سماج پر چینی انقلاب کے اثرات خاص طور اور باقی دنیا پر عام طور پڑے۔ ہندوستان اور پاکستان کے ’’کامریڈوں‘‘ یا بائیں بازو پر بھی چینی انقلاب اور اسکے قائد چیئرمین مائو کے افکار کےاثرات لامحالہ پڑے تھے جو ایک کتاب ’’لال کتاب‘‘ ’’ریڈ بک‘‘ یا ’’لال پستک ‘‘ کے نام سے ہے۔ ایک پنجابی فلم میں لال کتاب کو ’’لال بھجکڑ‘‘کا مزاحیہ نام دیا گیا تھا۔ جس طرح فلم میں وہ مزاحیہ کردار ہر کام کیلئے ’’لال بھجکڑ‘‘ سے رجوع کرتا ہے اسی طرح دنیا بھر کے مائو نواز کامریڈ بھی مائو کی "سرخ کتاب. سے رجوع کیا کرتے تھے۔ اس کتاب کا بہت ہی مشہور قول مائو تھا ’’انقلاب بندوق کی نالی سے آیا کرتا ہے‘‘ شنگھائی سے کلکتہ تک ایک عالمی انقلاب کی بات بھی دنیا میں تب چل نکلی تھی۔ انیس سو پچاس کی دہائی تھی۔ ’’ایشیا ہرجا سرخ‘‘ ہو رہا تھا۔ حیرت ہے کہ پیارا پاکستان جو اب چین کو اپنا عظیم دوست سمجھتا ہے اسکا تب حکمران طبقہ کوریائی جنگ میں امریکہ کا حلیف تھا اور جنگ میں مال کی فراہمی کے ٹھیکوں سے ایک نیا پاکستانی سرمایہ دار طبقہ وجود میں آیا جن میں سے کئی پھر بدنام زمانہ بائیس خاندانوں میں شمار بھی ہوئے۔
انیس سو باسٹھ میں چین بھارت جنگ ہوئی اور جس میں بھارت کو شکست ہوئی۔ ناول نگار روہناتن مستری لکھتے ہیں کہ جواہر لال نہرو کا دل کے دورے سے انتقال کا سبب بھارت کی چین کے ہاتھوں شکست سے زیادہ انکے داماد فیروز گاندھی کی بدعنوانی کا صدمہ تھا۔ لیکن یہ انیس سو ساٹھ کی دہائی تھی جب آمر ایوب خا ن اور اسکے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے چین سے پاکستان کی دوستی کے ناتے بڑھائے۔ ایوب خان کے سبز انقلاب پر مائو زے تنگ کے سرخ انقلاب کا تو کوئی اثر نہ ہوا پر دونوں ملکوں کے بیچ دوستی بڑھی۔ حبیب جالب نے اس پر کہا تھا:
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں پر جو نظام ہے
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
چو این لائی جب درمیانے سندھ پر کوٹری بیراج یا غلام محمد بیراج کا افتتاح کرنے آئے تو وہ ہاری رہنما بابائے سندھ سے بھی ملے۔
تاریخ اور ذکر بہت طویل ہے کالم چھوٹا۔ پینسٹھ کی پاکستان بھارت جنگ، چین کی طرف سے مدد، تاشقند معاہدہ۔بھٹو کا ایوب خان کی حکومت سے استعفیٰ۔ سابقہ مغربی پاکستان کے اکثر بائیں بازو کا بھٹو کی نئی پی پی پی کشتی پر ایک ہی جست میں سفینہ غم دل سمجھ کر چڑھ جانا۔ بھٹو کے چین کے دوروں سے واپسی پر کراچی میں تاریخی استقبال ۔ انہی سالوں میں منگولیا پر روس چین تنازع پر پاکستانی کامریڈوں یا بائیں بازو کی بھی روس چین میں تقسیم۔ نیپ ولی خان ماسکو نواز۔نیپ بھاشانی چین نواز۔ معراج محمد خان۔ ہمارے پلیجو جنہیں انکے بے تکلف دوست’’ منی مائو‘‘کہتے۔ سندھ میں مائو نواز افکار و نظریات ، چینی انقلابی شاعری اور ادب زیادہ تر انکے قلم کی وسط سے پہنچا یا پھر این ایس ایف معراج اور طفیل عباس گروپ کا رشید حسن خان کی معرفت۔ پلیجوکی لکھی ہوئی ماؤزے تنگ کی سوانح عمری سندھی میں کافی مقبول ہوئی۔ اسی طرح بابر ایاز کا کتابچہ ’’سوشلسٹ چین کا سائنسی مطالعہ‘‘ ۔

.
تازہ ترین