• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے بعد پاکستان اٹھائیس مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرچکا تھا پوری پاکستانی قوم خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں ایسا لگتا تھا کہ پاکستان نے پوری دنیا فتح کرلی لیکن دنیا کے ایک کونے میں موجود ملک جسے جاپان کہتے ہیں جس کے دو شہروں نے اس ایٹم بم کی تباہی صرف دیکھی ہی نہیں ہے بلکہ سہی بھی ہے وہاں کے عوام ایک صدمے سے دوچار تھے وہ حیران تھے کہ انسانیت کس رخ پر سفر کررہی ہے ایک دوسرے کو نیست و نابود کردینے کے ہتھیار تیار کرکے کس قدر خوشی منائی جارہی ہے ، دھماکے کے اگلے روز ٹوکیو میں پاکستان کے سفارتخانے کے سامنے شدید مظاہرے جاری تھے جاپانی حکومت نے پاکستانی سفارتخانے کو بھرپور سیکورٹی فراہم کررکھی تھی اسی دوران ہیروشیما کے میئر جو احتجاج ریکارڈ کرانے سفارتخانہ پاکستان پہنچے تھے انھوں نے انتہائی مہذ ب انداز میں پاکستان کے ایٹمی تجربے کو انسانیت کی بقا کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے ایک ویڈیو سی ڈی پاکستانی سفیر کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ٹی وی پر آپ لوگوں کو ایٹم بم کی تیاری پر خوشی مناتے ہوئے دیکھا ہے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ یہ ویڈیو بھی اپنےعوام کو دکھائیں جس میں ایٹم بم حملے کے وقت کے مناظر موجود ہیں اور دونوں شہروں کی تباہی اور لاکھوں افراد کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے ایٹم بم سے ہونے والی تباہی اور ان تکلیف دہ مناظر کو دیکھ کر انسانیت بھی کانپ جاتی ہے میں یہ چاہتا ہوں کو آپ اپنی قوم کو اس تباہی اور تکلیف سے آگاہ کریں جو جاپانی قوم نے ایٹم بم کی تباہی سے سیکھی اور دیکھی ہے ، یہ واقعہ مجھے جاپان میں تعینات ایک پاکستانی سفارتکار نے سنایا تھا جو مجھے اس وقت گورنر سندھ محمد زبیر کی تقریر سن کر یاد آیا جب وہ ایک تقریب میں انتہائی جذباتی انداز میں پاکستانی قوم کو جاپانی قوم سے امن اور میانہ روی سیکھنے کی تلقین کررہے تھے ، تقریب کیونکہ پاکستان اور جاپان کے حوالے سے شائع ہونے والی کتاب کی تقریب رونمائی کے حوالے سے تھی لہذا گورنر سندھ ہال میں موجود حاضرین اور میڈیا کے ذریعے پوری قوم سے مخاطب تھے ان کا یہی کہنا تھا کہ جاپانی قوم ایک ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ قوم ہے ہم جاپانی قوم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جس کے لئے جاپان کے حوالے سے تحریر کی گئی کتاب کی بہت اہمیت ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کتابوں کو لائبریریوں اور الماریوں میں رکھنے کے بجائے ہم انھیں پڑھیں اور ان میں سے کچھ چیزیں اپنی زندگی میں بھی شامل کریں ، جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے اندر تحمل پیدا کریں ہمیں ہر چیز بہت جلد اور بہت شارٹ کٹ میں چاہیے جس کے لئے ہم غلط راستہ اختیار کرنے سے بھی نہیں کتراتے خاص طور پر سیاست میں قوم کے نمائندہ ہونے کے دعویدار کچھ لیڈر جلد بازی میں اور شارٹ کٹ کے ذریعے اقتدار کے لئے پورے ملک کو دائو پر لگانے کے لئے تیار ہیں ، اقتدار کے حصول کی ہوس میں جمہوریت بھی خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں لیکن اس طریقہ کار میں نقصان زیادہ اور فائدے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے ، گورنر سندھ محمد زبیر اپنی نظر آنے والی شخصیت کے مقابلے میں انتہائی نرم گو اور تحمل مزاج شخصیت کے مالک ہیں ایک فوجی گھرانے سے تعلق کے باوجود جمہوریت سے انتہائی گہری کمٹمنٹ رکھتے ہیں اپنی تقریر میں بھی گورنر سندھ مسلسل آمریت کے خلاف سخت موقف رکھنے والی شخصیت نظر آئے اپنے خطاب میں گورنر صاحب نے انتہائی سادہ مثال کے ساتھ ملکی معیشت حاضرین کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ کا گھرانہ آٹھ افراد پر مشتمل ہے اور آپ کی آمدنی ایک لاکھ روپے ہے جس میں اگر آپ پچاس ہزار روپے سیکورٹی گارڈز اور گھر کی حفاظت کے لئے خرچ کر دیں تو آپ کے پاس گھر کے اخراجات کے لئے صرف پچاس ہزار ہی بچیں گے جس میں شاید آٹھ افراد کے اخراجات بھی پورے نہ ہوسکیں اسی طرح ہم اگر گھر کی سیکورٹی پر بیس ہزار روپے ماہانہ خرچ کریں گے تو ہمیں اسی ہزار روپے ماہانہ گھر کو چلانے کے لئے مل سکیں گے جس سے گھر کی معیشت بہتر ہوسکے گی اور ضروریات زندگی اور معیار زندگی بھی بہتر ہوگا ، گورنر سندھ بہت ہی آسان الفاظ میں ایک گھرانے کی مثال دیتے ہوئے سامعین کو پورے ملک کی معیشت سمجھا رہے تھے ۔بہرحال تقریب اختتام پذیرہوئی اور جاپان کے حوالے سے بہت سی باتوں سے سامعین اور حاضرین کو آگاہی حاصل ہوئی ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ واقعی ہماری قوم میں زندگی کے ہر شعبے میں انتہاپسندی بڑھ چکی ہے ہمارے اندر صبر اور تحمل کا مادہ ختم ہوچکا ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی نفسیات کو جانچنے کے لئے وہاں ٹریفک کے نظام کا جائزہ لے لیں آپ کو قوم کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو جائیگا ، ہمارے ہاں ٹریفک پولیس کا خوف ختم ہو کر رہ گیا ہے ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا باعث فخر سمجھا جاتا ہے ، جس دن ہم ہمارا ٹریفک نظام ٹھیک ہوگیا اس دن ہماری قوم بہت سے مسائل سے نکل جائے گی ، کیونکہ ٹریفک کا نظام صرف اس وقت ہی ٹھیک ہوسکتا ہے جب ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہوگی ۔ چین اور بھارت کی تیز رفتار ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہاں قانون کی عملداری ہے جس نے وہاں کے عوام کے اندر تحمل مزاجی پیدا کی ہے ، بھارت کی ترقی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بھارت نے اب سے پانچ دہائیوں قبل ہی یہ بات بھانپ لی تھی کہ آنے والا دو ر تعلیم ، انگلش اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہوگا ، جس کے بعد بھارت میں ہزاروں کی تعداد میںانگلش سکھانے کے اسکول کھل گئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم عام کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بھارتی ماہرین اپنی انگریزی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تعلیم کے ذریعے پوری دنیا میں چھا گئے جبکہ پاکستان میں انگریزی کو دشمنوں کی زبان قرار دے کر مخالفت میں مہم چلائی گئی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کو شروع میں مذاق میں لیا گیا لیکن جب ہمیں احساس ہوا کہ انگریزی تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ترقی کی کنجی ہے تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔تاہم اب پاکستانیوں نے دونوں جانب توجہ دی ہےاور عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب بھی ہوئے ،اب بھارت نے جاپانی زبان کو فوکس کیا ہے تو چند سالوں میں ایک ہزار جاپانی سکھانے کے اسکول جاپان میں کھل گئے ہیں اور ہزارو ں آئی ٹی ماہرین جاپان پہنچ چکے ہیں تاہم اب پاکستان کو دیر نہیں کرنی ہے اور جلد سے جلد جاپانی معیشت سے اپنا ثمر حاصل کرنا ہے جس کے لئے بہترین ہوم ورک وقت کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین