• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوشنما نعرے مذہب کی بنیاد پر بلند کئے جائیں یا سماجی معاملات کو کامیابی کی سولی میں تبدیل کئے جانے کی خواہش ہو بہرحال عوام میں سے پیروکار مل ہی جاتے ہیں حالانکہ دعوئوں کو بنیادی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھنا حق وباطل کو از خود آشکار کر دیتا ہے ، اسحاق آخرس مغربی 135ھ میں اصفہان میں منظر عام پر آیا اہل عرب کی اصطلاح میں مغرب شمالی افریقہ کے اس حصے پہ مشتمل ممالک کا نام ہے کہ جن میں مراکش ، تیونس، الجزائر وغیرہ شامل ہیں ۔ اسحاق آخرس مغربی نے چاروں آسمانی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا دیگر علوم حاصل کئے اور مختلف زبانوں پر عبور کی حد تک کمال حاصل کر لیا ، اس کے بعد وہ اصفہان پہنچا ایک عربی مدرسے میں قیام پذیر ہو گیا اور منہ کو ایسے سی لیا کہ گویا گونگا ہے بس اشاروں کنایوں میں ہنسی مذاق کرتا اور ایک تنگ کوٹھری میں مستقل قیام رکھتا ۔ کسی کے گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ شخص متعدد علوم میں طاق ہے ۔ دس برس اسی حالت میں گزار دیئے اور اس دوران رازداری سے ایک روغن اور دو رنگدار موم بتیاں تیار کیں جو کسی خاص مواد سے بنی ہوئی تھیں کہ اگر اس روغن کو چہرے پر مل لیا جائے اور ان شمعوں کی روشنی میں بیٹھا جائے تو غیر معمولی طور پر چہرہ دمکنے لگے دس برس بعد اچانک ایک رات کو مدرسے کے درودیوار نماز میں قرآن کی بے نظیر خوش الہانی تلاوت سے گونجنے لگے چہرے پر روغن کی وجہ سے اور مخصوص موم بتیوں کی روشنی کی بنا پر چہرہ تھا کہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ مدرسے کے اساتذہ اور طلبہ باہر آئے تو حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگے کہ یہ گونگا اور یہ حالت شہر میں غل پڑ گیا رات کی تاریکی کے باوجود آدم تھا کہ جوق در جوق " بہ سبب زیارت " حاضر ہونے لگا خوش اعتقادی ہمیشہ اپنے عروج پر ہی رہی ہے ، خوش اعتقادوں نے رات کو ہی جعلی تقدس کے ڈھول پیٹنے شروع کر دیئے ، اگلے دن قاضی شہر آیا اور اسحاق آخرس سے دریافت کیا کہ حضور والا آخر یہ ماجرہ کیا ہے بس اسحاق آخرس اسی موقع کا منتظر تھا پوری ریاکاری سے ایک نزول ملائیکہ کا واقعہ گھڑا اور معاذ اﷲ دعویٰ نبوت کر ڈالا چاروں آسمانی کتب کا علم اور متعدد رسم الخطوط پر قدرت اپنے دعویٰ کی دلیل کے طورپر پیش کردی ۔ وہ بدقسمت جو آسمانی ہدایت کے بنیادی اصولوں سے لاعلم تھے نقد ایمان ہار بیٹھے حاملین شریعت نے بہت سمجھایا کہ یہ راہزن ایمان ہے مگر خوش اعتقادی تھی کہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ فتنہ یہاں تک جڑ پکڑ گیا کہ اسحاق آخرس مغربی نے بصرہ ، امان اور ان کے زیر اثر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر مسلمان افواج اس فتنے کی بیخ کنی کی خاطر پے در پے حملہ آور ہونے لگے کئی معرکے ہوئے یہاں تک کہ اسحاق آخرس مغربی بھی ایک معرکے میں کام آگیا ۔اسی طرح بہا فرید نیشاپوری ، ابو مسلم خراسانی کے عہددولت میں معاذ اﷲ دعویٰ نبوت وحی کے ساتھ منظر عام پر آیا کچھ عرصے بعد ہی چین چلا گیا اور وہاں سات برس تک قیام کرکے ایک دن وطن واپس پہنچا اور کسی کے علم میں آئے بغیر مجوسیوں کے عبادت خانے کے سب سے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا ۔ جب صبح پجاری عبادت خانے میں آنا شروع ہوئے تو یہ دھیرے دھیرے عبادت خانے سے نیچے اترنا شروع ہو گیا لوگ سات سال کی غیر حاضری کے بعد اس کو یوں بلندی سے نیچے آتا دیکھ کر تعجب کا اظہار کرنے لگے ، لوگوں کی اس حالت کا ہی بہا فرید نیشاپوری انتظار کر رہا تھا ۔ کہنے لگا کہ حیرت کی کوئی بات نہیں خداوند عالم نے مجھے آسمان پر بُلایا تھا میں سات برس تک آسمانوں کی سیر میں محفوظ رہا جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرتا رہا آخر رب نے مجھے معاذ اﷲ نبوت عطا کر دی اس زمانے میں اس علاقے کے لوگ چین میں بنے ہوئے باریک کپڑا جو کہ اس قدر باریک ہوتا تھا کہ آدمی کی مٹھی میں سماجائے سے ناواقف تھے بہا فرید نیشا پوری اس کے کپڑے کی سبز رنگ کی قمیص ساتھ لایا تھا اور زیب تن کر رکھی تھی کہنے لگا کہ خدا نے مجھ کو اس خلعت سے نواز ا ہے ذرا دیکھوتو سہی کیا دنیا میں ایسا کپڑا بھی موجود ہے لوگ روشناس نہ تھے لہذا اس قمیص کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ، ایک کسان اس وقت عبادت خانے کے باہر ہل چلا رہا تھا اُس نے کہا کہ میں نے خود اسے آسمان سے اترتے دیکھا ہے ، کچھ پجاری بھی اس کسان کی ہاں میں ہاں ملانا شروع ہو گئے مجوسیوں کو تو اس نے متاثر کر ہی دیا ساتھ ساتھ مسلمان بھی ایمان سے ہاتھ دھونے لگے ، آسمانی نزول اور معجزہ خلعت بہا فرید نیشاپوری کے حق میں محکم دلیل کے طور پر پیش کرنے لگے ۔ بہا فرید لوگوں کو اپنی متابعت کی دعوت دیتا رہا ابو مسلم خراسانی جب نیشا پور آیا تو مسلمانوں اور مجوسیوں کے مشترکہ وفد نے ابو مسلم فراسانی سے اس فتنے کے سدباب کی خاطر درخواست کی ابو مسلم خراسانی نے بہا فرید نیشا پوری کی گرفتاری کا حکم دے دیا وہ فرار ہو گیا مگر جلد ہی سپاہیوں کے ہتھے چڑھ گیا گرفتار کرکے لایا گیا اور ابو مسلم خراسانی کے ایک خنجر کے وار سے اپنے خودساختہ معجزات سمیت کیفر کردار کو پہنچ گیا ان دوواقعات کے بیان کرنے کا سبب یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کی غرض سے نت نئی شعبدے بازیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اور بعض اوقات ان شعبدے بازیوں سے معاشرے کو غیر معمولی نقصان بھگتناپڑ جاتا ہے ۔ عام انتخابات کے سال کی بس اب آمد آمد ہے اور سیاسی جماعتیں عوام کی عدالت میں اپنے اعمال کے ساتھ سامنے آئیں گی ۔ یہ عوام کا بنیادی فرض ہے کہ وہ قومی مفادات اور سماجی ترقی کے بنیادی اصولوں اور سچ جھوٹ کی تمیز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شعبدے بازی اور حقیقت کے مابین فرق کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ صادر کریں ، عوام کی نظر میں اے ڈی خواجہ کے واقعہ سے لیکر 35پنکچروں کی فریب کہانی تک سب کچھ فیصلے کے وقت سامنے ہونا چاہئے ۔ شیریں مزاری کے طارق فاطمی کی برطرفی کے بعد دور چین میں ان کی شمولیت پر مضحکہ خیز ٹویٹ جیسی شعبدے بازی سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہونا چاہیے عوام کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ کہاں صرف ترقی کی باتیں ہوں اور کہاں 2فیصد شرح ترقی کو 5فیصد سے بھی آگے لیجایا گیا ضرور مدنظر رکھیں ۔ اگر صرف بدزبانی اور الزام تراشی کو کسی کی مخالفت کی بناپر پذیرائی بخشی تو قوم مزید شعبدے بازیوں کی منتظر رہے۔ مگر خیال رہے کہ شعبدے بازوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔

.
تازہ ترین