• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوم تکبیر وہ دن ہے جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور وہ بھی جب بھارت نے ہمیں مجبور کیا، مشرقی پاکستان کا المیہ پہلے ہی رونما ہوچکا تھا اور اس پر 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کردیا جو پاکستان پر دبائو کی انتہا تھی، اب بھارت کو امریکہ ایٹمی طاقت تسلیم کرنے کو تیار ہے، پاکستان کو نہیں، اس سلسلے میں جو محاذ اور کشمکش میں ہے وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ممبر شپ کے سوال پر ہے، چنانچہ کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام ایک سیمینار ایٹمی ٹیکنالوجی کا پُرامن استعمال اور ایٹمی سپلائرز گروپ کی سیاست کے عنوان سے منعقد ہوا جس میں عالمی شہرت یافتہ دانشور اور ماہرین شریک ہوئے، جن میں مشیر برائے پاور نیشنل کمانڈ اتھارٹی ڈاکٹر انصر پرویز، سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ، سابق ڈائریکٹر جنرل کنٹرول اور عدم اسلحہ، معاملات، ڈاکٹر ظفر علی یوسف زئی، ڈائریکٹر اسٹرٹیجک کنٹرول ڈویژن وزارت خارجہ ڈاکٹر تنویر خالد، ڈاکٹر طلعت وزارت، ڈاکٹر رضوانہ عباسی، ڈائریکٹر ظفر نواز جسپال، اسکالر حلیمہ سعدیہ اور دیگر نے خطاب کیا۔ اِس مذاکرہ میں سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے انتہائی اہم انکشاف یہ کیا کہ جب 1974ء میں پوکھران میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر بھارت کے دورے پر آئے اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کی، اندرا گاندھی کا خیال تھا کہ اُن کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا مگر امریکی وزیرخارجہ نے اندرا گاندھی سے نرم لہجہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھآپ نے کیا وہ کرلیا، مگر اب کسی اور ملک کو ایٹمی طاقت نہیں بننے دینا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے نہ دینا۔ عملاً یہ بہت مشکل نظر آرہا تھا کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلے، کیونکہ وہ اِس پروگرام سے میلوں دور تھا۔ اِس کے بعد ہنری کسنجر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملے، اس ملاقات میں کیا ہوا یہ تو کسی کو نہیں معلوم البتہ اُس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو دیوانگی کی حد تک پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے خواہاں ہوئے اور اسی عالم میں وہ تاریخی جملہ ادا ہوا کہ پاکستان اگر اس مقام پر پہنچ جائے کہ اُس کو کھانے کو بھی کچھ نہ ملے اور اُسے گھاس کھانا پڑے، اس کے باوجود پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر رہیں گے، چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آمد ہوئی اور یوں پروگرام پایۂ تکمیل کو پہنچا، اگرچہ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت نہ بننے دینے کیلئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ بنایا، ویانا گروپ بنا، آسٹریلیا گروپ اور ویسنر گروپ بنائے، پاکستان نے اِن تمام رکاوٹوں کو پار کرکے 1983-84ء میں ایٹم بم بنا لیا۔ دُنیا کو اِس کی خبر بھی ہوگئی اور انہوں نے اِس کو اسلامی بم کا نام دے دیا اور ایک سرخ ہلال مراکش سے انڈونیشیا تک بنا کر کہا کہ اب یہ مسلمان ممالک یکجا ہوجائیں گے اور اُن کو پاکستان ایٹمی چھتری فراہم کرے گا مگر پاکستان نے اپنا کردار صرف بھارت تک محدود رکھا۔ پھر ایٹم بم کو ہدف پر مارنے کیلئے میزائل بھارت نے کیا۔ پھر پاکستان نے بنائے اور اس سلسلے میں پاکستان نے محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بھی بنا ڈالے۔ اس مذاکرہ میں یہ بات زیربحث آئی کہ پاکستان عالمی معیار کے مطابق این ایس جی کی ممبر شپ کی ساری شرائط پوری کرتا ہے، سوائے ایٹمی عدم تحفظ کے معاہدہ پر دستخط کرنے کے جس پربھارت نے بھی دستخط نہیں کئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے اور ایٹمی تکنیکی ترتیب دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے نہ صرف یہ بلکہ اس کا ایٹمی پروگرام کے کنٹرول کا نظام موجود ہے مگر یہ معاملہ انتہائی سیاسی ہوگیا ہے۔ اب معیار پر بات نہیں ہورہی بلکہ پسندیدگی اور جیو اسٹرٹیجک مفادات ہیں جو امریکہ کو بھارت سے حاصل بھی نہیں ہورہے مگر پھر بھی امریکہ بھارت کی حمایت کررہا ہے۔ ڈاکٹر انصر پرویز نے انکشاف کیا کہ بھارت سے تجارت کی بنا بھارت کو یہ امید تھی کہ اس کے عوام کو 27 ہزار اسامیاں حاصل ہوجائیں گی اور کئی سوبلین ڈالرز ایٹمی پروگرام کو جدید کرنے کی مد میں امریکہ کو ملیں گے۔ مگر وہ اُس کو نہیں ملے تاہم چین کا راستہ روکنے میں بھارت مدد کررہا ہے اس لئے امریکہ کا جھکائو بھارت کی طرف ہے۔ ڈاکٹر انصر پرویز کا کہنا تھا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی صرف فوجی مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوئی بلکہ اِس کےحصول سے انسانی خدمت کے کام بھی سرانجام دیئے جاسکتے ہیں۔ جیسے شعبہ صحت میں، زراعت اور بجلی کی پیداوار کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت 3200 میگاواٹ کی قلت کا سامنا ہے، جسےایٹمی ذرائع اور دیگر ذرائع سے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تیل، گیس، تیز ہوا اور شمسی منصوبہ جات خاصے مہنگے ہوتے ہیں جبکہ ایٹمی پاور پلانٹ کے ذریعے حاصل کردہ بجلی کا خرچہ زیادہ آتا ہے، ایسے ہی جیسے کہ مکان کی تعمیر میں اخراجات ہوتے ہیں مگر بعد میں وہ سب سے کم خرچ والی رہائش بن جاتی ہے۔ ایئرکموڈور خالد بنوری کا کہنا تھا کہ بھارت کا ایٹمی پروگرام نہ صرف غیرمحفوظ ہے بلکہ وہ بہت تیزی سےاپنے پروگرام کو وسیع کررہا ہے، بھارت کی خواہش ہے کہ اُسے این ایس جی میں شامل کیا جائے، مگر اُس کے جارحانہ عزائم اس راہ میں حائل ہیں۔ اگرچہ یہ معاملہ سیاست کی نذر ہوگیا ہے اور امریکہ اور چین اس معاملے کو ہینڈل کررہے ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ ایٹمی عدم تحفظ کے معاہدے سے نقصانات بھی ہوتے ہیں اور فائدے بھی، اُن کا کہنا تھا کہ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو اب تک بیس ملک ایٹمی بن جاتے ۔ نقصان یہ ہے کہ صرف پانچ ممالک ساری دُنیا پر حکمرانی کرتے ہیں۔ نئے ملکوں کو جو جوہری ملک بن چکے ہیں تسلیم نہیں کرتے، جس سے خطرہ یہ ہے کہ یہ دُنیا یک قطبی سے ہمہ قطبی بن جائے، جس سے دُنیا زیادہ خطرات میں گھر سکتی ہے اور اس کے اثرات نیوکلیئر سپلائرز گروپ پر بھی پڑیں گے اور اس کا معیار اور ایجنڈا بھی سیاست کی نذر ہوگیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت نے صحت کے شعبہ میں ایٹمی ترقی اور پاکستان کی صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بطور خاتون وہ خود اس ایٹمی صلاحیت سے مستفیض ہوئی ہیں بلکہ شعبہ زراعت میں بھی پاکستان اٹامک انرجی کی کامیابیاں شاندار ہیں، انہوں نے کہا کہ عموماً ایٹمی صلاحیت کی بات ہوتی ہے تو توجہ ہتھیاروں پر جاتی ہے، اگرچہ اِس کے پُرامن مقاصد انسانیت کی فلاح کیلئے کارآمد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ NSG کی ممبر شپ کی وجہ سے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ساتھ ساتھ عدم پھیلائو کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد نے کہا کہ بھارت نے ایٹمی صلاحیت خطے میں بالادستی کیلئے جبکہ پاکستان نے اپنے دفاع کیلئے حاصل کی۔ ڈاکٹر ظفر علی یوسف زئی کا کہنا تھا کہ بھارت کو عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل رہی ہے مگر چین اور دیگر ملکوں کی مخالفت کی وجہ سے اُسے ممبر شپ نہیں مل سکی۔ پاکستان کا معاملہ بہت بہتر ہے ہم ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہیں اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کے نہ صرف اہل ہیں بلکہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے دستیاب ہیں، ساری دُنیا کو ایٹمی پروگرام محفوظ بنانے کی تربیت دے سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین