• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اہم سوال ہے خواب آنے اچھے ہیں یا خواب دیکھنے، ہم سب پاکستانیوں کو بہت خواب آتے ہیں بند آنکھوں کے خواب کھلی آنکھوں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر جو لوگ خواب دیکھتے ہیں اور بند آنکھوں سے نہیں۔ وہ ہی تعمیر اور تعبیر کا بھی سوچتے ہیں۔ میں ڈاکٹر امجد ثاقب کو نوکر شاہی کے تناظر میں جانتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے کینیڈا میں ہی ان کی کتاب ’’اخوت کا سفر‘‘ میری نظر سے گزری۔ وہ ان کے سفر کی داستان حیات تھی۔ مگر اس کا اسلوب کہانی اور سفرنامے کے تال میل سے بنا تھا۔ اس نے مجھے متاثر بھی کیا اور میری خواہش رہی اور ہے کہ امجد ثاقب سے میل ملاقات ہو اور ان سے سوال کروں کہ ہم مسلمانوں میں اخوت کا پرچار بہت ہے۔ مگر اخوت معاشرہ میں سفر کرتی نظر نہیں آتی۔ مگر زندگی کے نشیب و فراز ایسے رہے کہ ملاقات اور تعلق کا کوئی سبب نہ بن سکا۔ چند دن پہلے کینیڈا کے شہر ہلٹن میں ایک پرانے دوست اور مہربان ملنے کے لئے آئے تو کتابوں کا ذکر شروع ہوا۔ وہ بتانے لگے کہ اب ایک دفعہ پھر پاکستان میں کتابوں کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے۔ مجھے ذرا حیرانی تھی۔ کتابوں کی اہمیت کا احساس وہ بھی پاکستان میں یہ کیسے ممکن ہے۔ پھر لکھنے والوں کے حوالہ سے مستنصر حسین تارڑ، عبداللہ حسین، انتظار حسین، بانو قدسیہ اور اپنے قدرت اللہ شہاب کی باتیں شروع ہو گئیں۔
وہ بتانے لگے کہ لوگ ان کی کتابوں کو پڑھتے بھی ہیں اور دوبارہ سے چھپ بھی رہی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آج کل ان کے زیر مطالعہ کونسی کتب ہیں۔ انہوں نے ایک دو انگریزی کتابوں کا ذکر کیا۔ میں نے کہا بھائی ولایتی بھاشا کی کتابوں کا ذکر نہ کرو۔ اردو یا پنجابی کتابوں کی بات کرو۔ یا کسی ترجمے والی کتاب کا بتائو ترجمے کے حوالہ سے انہوں نے فوراً بتایا کہ The Fourty Rules Of Loveکا ذکر کیا جو کہ ایک ٹرکش ایلف شفق نے تحریر کی اور اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوا اور بہت مقبول کتاب ہے۔ جناب رومی کے زندگی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ میرا پھر سوال تھا اور اردو کی کوئی کتاب جو آپ نے حالیہ دنوں میں پڑھی ہو۔ وہ ذرا پُر جوش ہوئے اور کہنے لگے ہاں دو کتابیں بہت ہی دلچسپ ہیں۔ ایک عرفان جاوید کی ’’دروازے‘‘ جو اردو کے مصنفین کے خاکوں پر مشتمل ہے اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ’’کامیاب لوگ‘‘ میں امجد ثاقب کے نام پر چونکا اور مجھے فوراً ’’اخوت کا سفر‘‘ کا خیال آیا۔ میں نے ان سے پوچھا کیا آپ نے ’’اخوت کا سفر‘‘ پڑھی ہے۔ وہ بتانے لگے ابھی تک نہیں۔ بس تذکرہ ضرور سنا ہے پھر کینیڈا میں اردو کی کتاب کا حصول مشکل معاملہ ہے۔ میں نے سوچا ’’کامیاب لوگ‘‘ کیسی کتاب ہو گی۔ میرے دوست نے میری خاموشی سے اندازہ لگا لیا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔ وہ خود ہی بولے۔ ’’کامیاب لوگ‘‘ ایک نرالی طرز کی کتاب ہے اور ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے خواب دیکھے اور ان کو حقیقت بنایا۔ امجد ثاقب کی کتاب تحقیق اور تعمیر کی کہانی ہے کیا مطلب تحقیق اور تعمیر کی کہانی۔ ہاں بالکل وہ بولے۔ بھئی امجد ثاقب بھی آپ کی طرح پرانے راوین ہیں اور پھر میڈیکل ڈاکٹر بھی اور ایک عرصہ تک نوکر شاہی کے ستون رہے۔ ان کی ابتدائی دنوں کی پوسٹنگ پاکستان کے شہر چینوٹ میں ہوئی تھی۔ مگر اس وقت ان کو اپنی کاوش کا نہ اندازہ تھا نہ خیال۔ یہ کتاب پاکستان کے قدیم شہر چنیوٹ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے اور چنیوٹ کی شیخ برادری کا حوالہ ہے بتانے سے اندازہ نہ ہو سکے گا۔ تم پاکستان جا ہی رہے ہو۔ خریدنا اور ضرور پڑھنا میں سوچ میں تھا کہ کیسے کامیاب لوگ ہوں گے۔
پاکستان آنے کے بعد میرے مہربان دوست جو ادب نواز بھی ہیں اور ادب شناس بھی جناب افضال احمد سے کتاب کا ذکر ہوا۔ انہوں نے میری بات سنی اور مسکرائے اور کہنے لگے امجد ثاقب بڑے اچھے دوست اور انسان ہیں۔ جب ملاقات کے بعد فیصلہ ہوا کہ افضال صاحب مجھے عوامی سواری کی بجائے خود ہی ماڈل ٹائون ڈراپ کر دیں گے تو میں مزید ممنون احسان ہوا دفتر سے نکلتے وقت انہوں نے اپنی میز پر سے ایک کتاب میرے حوالہ کی۔ جب میں نے کتاب دیکھی تو حیرانی اور خوشی سے سرشار تھا ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ’’کامیاب لوگ‘‘ میری ملکیت تھی۔ میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کتاب کا تحفہ اتفاق ہے یا حسن اتفاق۔ وہ بولے اتفاق میں برکت ہے اور بات ختم ہو گئی۔
غیر معمولی گیٹ اپ کی کتاب تقریباً 425صفحوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ایک نہیں کئی لوگوں کے خواب کی تعبیر ہے اور ایسی تعبیر جس کے بعد خواہش ہوتی ہے کہ ایسے خواب جاگتی آنکھوں کے ساتھ پوری پاکستانی قوم کو دیکھنے چاہئیں۔ چنیوٹی شیخ برادری کے لوگ کاروبار زندگی کے لئے اپنے شہر سے ہجرت کر گئے اور پورے ہندوستان میں ان کا سفر جاری رہا 1850کا یہ سفر تقسیم ہند تک چلا اور پاکستان کے وجود کے بعد کتنی نسلوں نے خواب کی تعبیر کو حقیقت کے روپ میں دیکھا۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آج کے جدید مغربی تصور انٹر پر نیور شپ کی سمجھ زیادہ بہتر طریقہ سے ہوتی ہے۔ انٹر پر نیورشپ کے حوالہ سے بنیادی چار مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ (1) دولت (2) طاقت (3) شہرت (4) خدمت اور اس کے بعد نتیجہ ہے ’’اطمینان قلب‘‘ یہ معاملہ بہت مشکل سا لگتا ہے مگر یورپ اور امریکہ کے امیر لوگ ان چار بنیادی اہداف حاصل کرنے کے بعد اطمینان قلب سے اپنا پیسہ امدادی طور پر اداروں کو لوگوں کو بانٹتے ہیں اور ایسا نظریہ پاک و ہند میں کم نظر آتا ہے یا ہماری توجہنہیں ہوتی۔ یہ کتاب ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے نئی دنیا کا خواب دیکھا اور اپنی محنت اور مشقت سے اس خواب کو سچ کر دکھایا۔ میں نے صرف ایک دفعہ ہی کتاب کو پڑھا ہے اور میرا خیال ہے کہ مجھے کئی مرتبہ پڑھنا پڑے گا۔ دلچسپی کے علاوہ تاریخ کا جبر حوصلہ کا امتحان اور قسمت کا ستارہ اس میں اپنی پہچان کرواتے ہیں اس کتاب میں پنجاب کے خادم اعلیٰ شہباز شریف کا تبصرہ بھی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتابیں انسان کو کیسے بدلتی ہیں۔ مجھے سوچنا پڑا کہ خادم اعلیٰ شہباز شریف نے کتاب کو پڑھا اور ان کے خواب غربت کا خاتمہ اور سماجی ترقی کے لئے انتھک محنت اس کتاب کا بنیادی نظریہ ہے اور چنیوٹ کی شیخ برادری کی طرح ان کے خاندان نے بھی خواب دیکھے اور تعبیر کے لئے ان کی تیسری پیڑھی میدان عمل میں ہے۔ یہ کتاب وزیراعظم پاکستان کی جدت پسندبیٹی مریم کے لئے بھی اہم ہے۔ جناب شہباز شریف کا یہ تبصرہ بہت ہی اہم ہے ’’وہ کامیاب افراد کو مثال بنا کر غریبوں کو محنت اور خود انحصاری کا پیغام دینا چاہتے ہیں تاکہ غربت کے اندھیروں میں امید کے دیے روشن ہو سکیں‘‘۔
اس کتاب میں کسی ایک فریق کا تذکرہ نہیں اس میں پوری برادری خوجہ، شیخ، مگوں، میاں، سہگل اور دیگر سب ہی شامل ہیں۔ ہمارے ایک دوست عرفان قیصر شیخ بھی چنیوٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کتاب نے مجھے ان کا بھی مزید گرویدہ بنا دیا ہے۔ میں حیران ہوتا تھا کہ عرفان قیصر شیخ اتنے سماجی اور سرکاری کام رضاکارانہ طور پر کیسے کر لیتے ہیں۔ اس کا بھید اس کتاب نے کھولا ہے اور سب سے بڑی بات نیت کی اور نیت کا پھل ہماری نسلوں کو ملتا ہے اگرچہ آج کل ایک دوسرے کی نیت پر شک کا زمانہ ہے مگر کامیاب لوگوں کے لئے ایسا امتحان بھی ضروری ہے۔

.
تازہ ترین