• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ عالمی عدالت انصاف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی پرعملدرآمد عدالتی فیصلے تک موخر کرنے کا حکم سنادیاہے ۔‘‘ قارئین! آگے بڑھنے سے پہلے یہ تاریخ یاد رکھیں کہ مختلف ممالک اپنے شہریوں کی پھانسی رکوانے کیلئے عالمی عدالت انصاف میں امریکہ کو بھی گھسیٹ لائے۔ آپ ان دومقدمات، ان پر عدالت کا فیصلہ اور امریکہ کا عملدرآمد دیکھئے۔ 1998ء میں پیراگوئے کے ایک شہری کو امریکہ نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ پیراگوئے اپنے شہری کی پھانسی رکوانے کیلئے عالمی عدالت انصاف پہنچ گیا۔ مقدمہ چلا۔ پیراگوئے نے اپنے شہری تک قونصلر رسائی مانگ لی۔ دلائل شروع ہوئے۔ اپنے اپنے جواز پیش کئے گئے اور اس کے بعد عدالت انصاف نے امریکہ کے خلاف فیصلہ سنادیا۔ عدالت نے فیصلہ دیاجب تک عدالت کا حتمی فیصلہ نہیں آتاامریکہ پیراگوئے کے شہری کو پھانسی نہیں دے سکتا۔ یہ اسی طرح کا فیصلہ تھا جس طرح کا فیصلہ18مئی کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوکے مقدمے میں دیا گیا، مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ امریکہ نے اس عدالتی فیصلے کے پانچ دن بعد ہی پیراگوئے کے اس شہری کو پھانسی دے دی۔ 1982 ء میں امریکہ نے دو جرمن بھائیوں قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ جرمنی نے قونصلر رسائی چاہی۔ امریکہ نے انکار کر دیا۔ جرمنی نے عدالت انصاف کی زنجیر ہلادی، مگر آپ عالمی قوانین کی دھجیاں اڑنے کی حد ملاحظہ کیجئے، جس روز جرمنی نے امریکا کے خلاف عدالت میں اپیل کی۔ اسی دن امریکہ نے ایک جرمن شہری کو پھانسی دے دی۔ دوسرے شہری کی پھانسی رکوانے کیلئے عدالت انصاف نے سماعت شروع کی اور امریکہ نے اسی دن اس جرمن شہری کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امریکہ کا موقف تھا ویانا کنونشن کسی شخص کو نہیں ریاست کو تحفظ دیتا ہے۔ اب آپ خود ہی اندازا لگا لیں، کوئی عالمی عدالت انصاف کے حکم کی چیرہ دستیاں کر دینے والے امریکہ کو نکیل ڈال سکا۔ اس لئے کہ دنیا کے تمام طاقتور ادارے اس کی مٹھی میں ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار اقوام متحدہ جیسے ادارے ہوں یا پھر انصاف و قانون کے پیامبر عالمی عدالت انصاف جیسے ادارے۔ یہ سب ادارے امریکہ کے اشارے کے منتظر رہتےہیں جبکہ امریکہ نے ان کےفیصلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، مگر اب سوال یہ ہے کیا پاکستان بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے انکار کر کے ردعمل سے بچ سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ اگر پاکستان عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دے تو یہ اس کے بعد اپنا کوئی بھی کیس اس عدالت میں نہیں لے جا سکے گا۔ مثال کے طور پر کشمیر کا مسئلہ، سندھ طاس کا معاہدہ وغیرہ وغیرہ۔
یہی نہیں اگر پاکستان یہ فیصلہ نہیں مانتا تو اسے اقوام متحدہ کے رکنیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے اور اسے سفارتی تنہائی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھیں تو پاکستان کیلئے یہ مقدمہ بہت اہم ہے۔ پاکستان کے پاس ویانا کنونشن کا اہم ترین ہتھیار موجود ہے جوصرف قیدیوں تک قونصلررسائی کا اختیار دیتا ہے۔ اسی طرح پاک بھارت کے درمیان 2008ء کا سیکورٹی معاہدہ بھی موجود ہے۔ اس معاہدے کے آرٹیکل 6کے تحت قونصلر رسائی کا فیصلہ میرٹ آف دی کیس پر کئے جانے کے دونوں ملک پابند ہیں، لہٰذا بھارت کی قونصلر رسائی کی اپیل میں اتنا دم نہیں۔ رہ گیا پھانسی رکوانے کا معاملہ تو عالمی عدالت انصاف کے سامنے پاکستان کو کلبھوشن یادیو کو بھارتی جاسوس ہی نہیں دہشت گرد ثابت کرنا ہے اور پاکستان کے پاس اس بھارتی جاسوس کو دہشت گرد ثابت کرنے کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ مثلاً سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یا جعلی پاسپورٹ ہے۔ دوسرا کلبھوشن کا اعترافی بیان ہے جس میں وہ بذات خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرانے کو تسلیم کر رہا ہے۔ سہولت کاروں سے رابطوں کااعتراف کر رہا ہے۔ پاکستان کے پاس اس کی خفیہ کمیونیکیشن کے ثبوت بھی موجود ہیںاور یہ بھی کہ بھارتی نیوی کا ایک حاضر سروس آفیسر جعلی پاسپورٹ پر پاکستان میں کر کیا رہا تھا۔ کیا یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ کیا کسی بھی دوسرے ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ کیا معصوم لوگوں پر خود کش حملے کرانا، ان کا قتل عام کرانا انٹرنیشنل لاکی توہین نہیں۔ یہ وہ نکات ہیں جن پر یہ کیس آگے بڑھے گا۔ ابھی تو مقدمہ اوپن ہوا ہے۔ ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔ ابھی تو کلبھوشن کے اعترافی بیانات اور بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت تفصیل کیساتھ عدالت کے سامنے رکھے جائینگے۔ ایرانی بندرگاہ کے ذریعے پاکستان میں گھسنے، دہشت گردانہ کارروائیاں کرانے اور جعلی پاسپورٹ کے اصل حقائق بھی سامنے لائے جائینگے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارت اپنے جاسوس کی وقتی طور پر پھانسی رک جانے پر شادیانے بجا رہا ہے، لیکن اگر ریاست پاکستان اس کیس کو ٹھوس دلائل اور مضبوط شواہد سے لڑے تو بھارت کو ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑے گی۔ آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے یہ کوئی پہلا کیس نہیں کہ جس میں بھارت اور پاکستان دونوں عالمی عدالت انصاف کے سامنے کھڑے ہیں۔ ہمیں اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اٹھانا چاہئے۔ ہمیں مقدمہ لڑنے کے ساتھ ساتھ دنیا کوباور کرا دینا چاہئے کہ بھارت اور اس کے دہشت گرد خطے میں امن کے دشمن ہیں اور اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان سے یہ مقدمہ جیت نہیں سکے گی۔

.
تازہ ترین