• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ آخرکار آہی گیا۔ یہ بجٹ کیسا ہے؟ جس کا مجھے گمان تھا کہ حکومتی ارکان تو اس کی شان میں رطب اللسان ہوں گے کہ غریب کے لئے اس سے بہتر بجٹ ہو ہی نہیں سکتا اور اپوزیشن اس کو اسی بنیاد پر کوسے گی کہ اس بجٹ سے عام آدمی کی چیخیں نکل جائیں گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈار صاحب 15ہزار میں کسی گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں اور غریب آدمی اسی پریشانی میں غلطاں ہوگا کہ کوئی اس سے بھی پوچھے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟
بجٹ کیسا ہے؟ پچھلے بجٹ کیسے تھے؟ میں پہلے آپ کو انور مسعود صاحب کی ایک نظم سناتا ہوں اور بات آگے بڑھاتے ہیں؎
بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انوکھے خسارے تیرے
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
گرانی کی سوغات حاصل مرا
محاصل ترے گوشوارے ترے
مشیروں کا جمگھٹ سلامت رہے
بہت کام جس نے سنوارے ترے
مری سادہ لوحی سمجھتی نہیں
حسابی کتابی اشارے ترے
کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے
کنائے ترے استعارے ترے
تو اربوں کی کھربوں کی باتیں کرے
عدد کون اتنے شمارے ترے
تجھے کچھ غریبوں کی پروا نہیں
وڈیرے ہیں پیارے دلارے ترے
ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا
یونہی چل رہے ہیں ادارے ترے
میرے خیال میں تو اس نظم کے بعد کچھ کہنے کو باقی نہیں رہتا۔ یہ بجٹ، پچھلا بجٹ، اس سے پچھلا بجٹ، وزیراعظم کی حالیہ تقریریں، سب غریب عوام کا مستقبل سنوارنے کے لئے ہیں۔ اسی غریب آدمی کے لئے جس کے لئے کم از کم تنخواہ اب 14ہزار سے 15 ہزار کردی گئی ہے۔ جتنے میں اسحٰق ڈار صاحب کا جوتا بھی نہیں آتا۔ وزیراعظم کی گھڑی کے حوالے سے تو کئی بار بات ہو چکی کہ وہ کتنے کروڑ کی ہے لیکن ایوان میں بیٹھے اکثر اراکین کے جوتے یقیناً 15 ہزار سے زائد کے ہوں گے۔
میں اتنا لکھ پایا تھا کہ خیال اس نائب قاصد کا آگیا جو اپنے مستقبل کی بہتری کے خواب دیکھتے دیکھتے چھت سے کود کر خودکشی کر گیا۔ جی یہ پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کا باپ وہ نائب قاصد ہے جس نے کچھ روز قبل دفتر کی چھت سے چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ یہ متوفی محمد اقبال ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہائشی علیل ہونے کی وجہ سے ساڑھے چار ماہ سے چھٹی پر تھا۔ ساڑھے چار ماہ کے بعد دفتر واپسی پر اسے معلوم تھا کہ اب اس کی ہمت نوکری کرنے کی نہیں۔ اسے واحد امید یہ تھی کہ اس کی جگہ اس کے بیٹے کو نوکری مل جائے مگر اسے بتایا گیا کہ بیٹے کی ملازمت کے لئے ضروری ہے کہ اس کا باپ دوران ملازمت فوت ہو جائے۔ وہ چھت پر چڑھا اور یہ کہتے ہوئے اس نے موت کو گلے لگا لیا کہ اچھا چلو پھر میں مر ہی جاتا ہوں۔
ایسے لوگوں کے لئے اسحٰق ڈار صاحب کے بجٹ میںکوئی جگہ نہیں، مجھے تو خبر پڑھ کر یوں لگا جیسے کسی نے میرے گال پر زناٹے دار تھپڑ مار دیا ہو۔ ایسا لگا جیسے منوبھائی، آئی اے رحمان، کشور ناہید، عاصمہ جہانگیر زار و قطار رو رہے ہوں۔ ایسا لگا جیسے فیض احمد فیض ’’ ہم دیکھیں گے‘‘ کہ خواب دیکھ رہے تھے روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی ہو، ایسا لگا جیسا بجٹ بنانے والوں کی غیرت و حمیت کا جنازہ نکل گیا ہو۔
جالب صاحب جو ہمیشہ سسٹم کے ناکارہ ہونے کے غم میں مبتلا رہے اس طرح کے حادثے کا شاید انہیں کبھی اندازہ ہی نہ ہوا ہو لیکن کیا کریں۔ ہم ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں کہ جہاں وزیر خزانہ کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے اربوں روپے مختص کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات کا خیال بھی نہ آیا ہو۔
ایسے میں طاہر القادری، عمران خان، چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی کسی دھرنے کا اعلان نہیں کریں گے۔ اپنی میٹنگوں میں جہاں وہ عوام کو بے رحم وقت کے جبڑوں سے نجات دلانے کی قسمیں کھاتے ہیں یہ واقعہ ان کے لئے ایسا بڑا ظلم نہ ہو کہ جس پر وہ آواز اٹھاتے۔ افسوس کہ وہ ملک جنہیں ہم کافر قرار دیتے ہیں اگر ایسا واقعہ وہاں ہوتا تو زمین ہل گئی ہوتی، آسمان پھٹ گیا ہوتا، شاید ملک کی حکومت استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جاتی کہ چلو اگر ہم ایسے مظلوموں کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تو پھر تف ہےہم پر۔ اور تو اور جو بے غیرت بریگیڈ سرخی پائوڈر لگا کر ٹی وی چینلوں پر سرشام بیٹھ کر اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کرتے ہیں انہیں بھی اسی طرح کے واقعات پر بات کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ،ایسے لوگوں کے لئے بجٹ کیسا بنے گا؟ ایسے لوگوں کو کیا اسی خواب پر ٹرخا دیا جائے گا کہ دیکھو میٹرو بن رہی ہیں، سڑکوں کے جال بچھائے جارہے ہیں، ٹرینیں آرہی ہیں؟



.
تازہ ترین