• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
28 مئی کو ہم نے19واں یوم تکبیر منایا۔ اس دن کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ 14 ؍اگست کی۔ 14 اگست کو ہم کو اللہ تعالیٰ نے قائد اعظمؒ کی رہنمائی میں ایک آزاد ملک پاکستان عطا فرمایا تھا اور ہمیں انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نجات دلائی تھی۔ 28؍مئی کو اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی میں اس پیارے وطن کو بین الاقوامی طور پر ایک ایٹمی قوت کے طور پر پیش کردیا۔ اس نے پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر دفاع مہیا کردیا اور ہمارے ابدی دشمن کی جارحانہ حرکات و پالیسیوں کو دفن کردیا۔ اس دشمن نے ہمارےئاندرونی خلفشار اور کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کردیئے تھے اور اب اس تاک میں تھا کہ موقع ملتے ہی ایک ضرب کاری لگا کر مغربی پاکستان کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردے اور آزاد کشمیر پر قابض ہوجائے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دشمن سازشیں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیریں کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر بہت بہتر اور حاوی ہوتی ہے۔ یہی حال ہمارے دشمنوں کی سازش کا ہوا اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور رحم و کرم سے ہم ایک محفوظ ملک بن گئے۔ میں اللہ رَب العزّت کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس کا وسیلہ بنایا اور مجھ سے اتنا اہم کام لیا۔
ہماے ایٹمی سفر کا آغاز 16؍دسمبر 1971ء سے شروع ہوا جب ہمیں ذلّت آمیز شکست ہوئی۔ میں اس وقت بلجیم میں تھا اور اپنی ڈاکٹریٹ کے تھیسز کے دفاع کے انتظار میں تھا۔ اس وقت میں بہت رویا اور کئی دن تک کھانا کھانے میں سخت دقت محسوس کررہا تھا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر سے مجھے ہالینڈ میں ایک اعلیٰ ملازمت دلوا دی اور وہاں میں نے ایٹمی میدان میں مہارت حاصل کی۔ میں نے تعلیم کے دوران ایک کتاب اور کئی اعلیٰ مقالہ جات بین الاقوامی رسالوں میں شائع کئے تھے اور مجھے کئی ممالک یعنی امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ سے نوکری کی پیشکش ہوئی تھی مگر چونکہ میری بیگم کے والدین ہالینڈ میں سکونت پذیر تھے اور یہ ان کی اکلوتی بیٹی تھیں اس لئے ہم نے ہالینڈ میں قیام کو ترجیح دی۔ میں سنٹری فیوج کے ذریعے یورینیم کی افزودگی پر کام کررہا تھا اس پر ہالینڈ، جرمنی اور انگلستان کے مشترکہ انجینئرز، سائنسدانوں نے تقریباً 20 سال محنت کرکے اور دو ارب ڈالر خرچ کرکے مہارت حاصل کی تھی۔ میں نے نہایت محنت و مشقت اور عقل و فہم سے اس میں چار سال میں مہارت حاصل کرلی ، اس وقت یہ کام انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔قبل اس کے کہ آپ کو مزید بتلائوں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق ہندوستان کے وسط میں واقع مسلمان ریاست بھوپال سے ہے۔ میرے والد انیسویں صدی کے اوائل میں ناگپور یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور جبلپور سے ہائی اسکول کے طلبا کو پڑھانے کا ٹیچرز ٹریننگ کورس امتیازی نمبروں کیساتھ پاس کیا تھا۔ پوری عمر ہیڈماسٹر کے عہدہ پر فائز رہے ، ان کی بے حد عزت تھی۔ اس زمانے میں جبکہ سونا 18 روپیہ فی تولہ تھا ان کی ماہانہ تنخواہ دو سو روپیہ تھی۔ گھر میں علمی ماحول تھا۔ اور ہم ساتوں بہن بھائی ہمیشہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوتے تھے۔ بھوپال جنت مقام ریاست ہے سرسبز و شاداب بڑے بڑے تالاب، دریا اور لاتعداد جنگلی جانور وہاں تھے۔ 1952میں میٹرک پاس کرکے میں براستہ کھوکھرا پار پاکستان آگیا۔ کراچی میں رہائش اختیار کی اور ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج سے بی ایس سی کی ڈگری لے کر انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات بن گیا۔ تنخواہ اچھی تھی اور زندگی اچھی گزر رہی تھی مگر میں مطمئن نہ تھا اور ہمیشہ سے انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ 1961میں ،میں برلن چلا گیااور وہاں کی بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹی (ٹیکنیکل) میں تعلیم حاصل کرنے لگا۔2سال بعد میری منگیتر کی درخواست پر میں ہالینڈ میں مشہور بین الاقوامی شہرت کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں چلا گیا۔ برلن کی تعلیم وہاں تسلیم کرلی گئی، وہاں میں نے امتیازی نمبروں سے ماسٹر آف ٹیکنالوجی کی۔ ایک سال ریسرچ اسسٹنٹ رہا۔ کئی ممالک سے ڈاکٹریٹ کرنے کی پیشکشیں تھیں مگر بیگم کے والدین کی قربت کی وجہ سے میں نے بلجیم کی 650 سال قدیم مشہور یونیورسٹی کی پیشکش قبول کرلی اور وہاں سے ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ یہ یونیورسٹی آج یورپ کی سب سے بہترین یونیورسٹی مانی جاتی ہے۔1971ءکے واقعات نے میرے دل پر بہت سخت اثرا ڈالا تھا اور مجھے یقین تھا کہ جلد یا بدیر ہندوستان ہمارے بقیہ ملک کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ 18 مئی 1974ءکو جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو میری نیند اُڑ گئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب پاکستان 10 سال سے زیادہ عرصہ سالم و ثابت نہیں رہ سکتا۔ میں نے ستمبر میں بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ اب ملک کو نہایت ہی بڑا خطرہ موجود ہے میں اپنی خدمات پیش کرتا ہوں اور میں پاکستان کو ایک ایٹمی قوّت بنا سکتا ہوں۔ بھٹو صاحب نے دعوت دی کہ آکر ملوں، دسمبر میں پاکستان آئے ان سے ملاقات کی اور ان کی ہدایت پر اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین کو سب کچھ سمجھا کر چلا گیا۔ ہم دسمبر 1975میں چھٹی پر آئے تو پھر بھٹو صاحب سے ملے اور ان کی ہدایت پر میں نے تمام کام کا جائزہ لیا جو زیرو کے برابر تھا۔ جب میں نے بھٹو صاحب کو یہ بتلایا تو انھوں نے درخواست کی کہ ہم واپس نہ جائیں ان کو ڈر تھا کہ اگر میں چلا گیا تو یہ پروگرام کبھی کامیاب نہ ہوگا۔ ہم چھٹی پر آئے تھے صرف چند کپڑے لے کر آئے تھے۔ میری تمام کتابیں، لٹریچر ہالینڈ میں تھا وہ سب وہیں رہ گیا۔ ہمیں شروع میں بہت تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک خالی گھر میں ویران علاقے میں رہنا پڑا۔ چھ ماہ بعد صرف تین ہزار روپیہ ماہانہ تنخواہ دی گئی، گاڑی نہ دی گئی وغیرہ وغیرہ۔ میں نے ملک کی خدمت کی خاطر اس کی پرواہ نہ کی مگر جب کام بالکل نہ بڑھ سکا تو درخواست کی کہ یا تو اس پروگرام سے علیحدہ کرکے میرے حوالے کردیا جائے ور نہ ہم واپس ہالینڈ چلے جائینگے۔ بھٹو صاحب نے فوراً مجھے انچارج بنا کر یہ پروگرام میرے حوالے کردیا اور پھر میں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کئی نہایت قابل محب وطن پاکستانی انجینئرز اور سائنسدان بھرتی کئے۔ میں 15 سال یورپ میں رہ کر آیا تھا مجھے وہاں کی تمام کمپنیوں سے واقفیت تھی ان کے افسران سے ذاتی مراسم تھے اس وجہ سے میں نے تمام ضروری سامان بہ آسانی حاصل کرلیا اور کوئی شخص یہ کام نہیں کرسکتا تھا وہ لوگ اس پر اعتبار نہ کرتے۔ پانچ سال میں ہم نے اپنا نوے فیصد کام کرلیا اور چھٹے سال ہم نے تما م تجربہ جات کرکے یہ یقین کرلیا کہ ہمارا بم کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے۔ یہ کام اتنا آسان نہ تھا میرے رفقائے کار اور میں20،20 گھنٹے، سات دن فی ہفتہ، کام کیا تھا کبھی چھٹی نہ لی تھی اور ہمارے اہل خانہ نے بہت قربانیاں دیں اور تکالیف اُٹھائی تھیں۔ 25 سال کی سروس اور اس ملک کو ایک ایٹمی قوت اور میزائل قوت بنانے کے بعد جب میں ریٹائر ہو ا تو میری پنشن چار ہزار پانچ سو سے بھی کم(Rs4476) تھی۔ لیکن ہم یہاں پیسہ کمانے نہیں آئے تھے۔ اور نہ ہی ایک گز زمین نہ لی تھی ۔ مجھے پوری قوم نے جو محبت اور خلوص دیا ہے وہ پوری دنیا کی دولت نہیں خرید سکتی۔ آپ مجھے قائد اعظم کے بعد ملک کا سب سے بڑا محسن مانتے ہیں۔ مجھے محسن پاکستان کا لقب دیا ہے مجھے دو مرتبہ نشان امتیاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز ملا ہے جو آج تک کسی اور پاکستانی کو نہیں ملا۔ صدر، وزیر اعظم، افواج پاکستان کے سربراہوں نے میری کارکردگی کو سراہا اور میری محنت و قیادت کو خراج تحسین پیش کئے۔ یہ تمام چیزیں تاریخی دستاویزات ہیں ۔ عزت کوئی آپ سے نہیں چھین سکتا۔ غلام اسحٰق خان صاحب نے تحریری طور پر کہا کہ وہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے اور کوئی نہیں جنہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنادیا۔ جناب آغا شاہی نے بھی کہا کہ اگر پاکستان ایک ایٹمی قوت بنا تو وہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مرہون منت ہے۔ اسکا سہرا ان کے سر پر ہے۔ پوری دنیا کے اخبارات اور لیڈروں نے ایسے ہی خراج تحسین پیش کئے۔دیکھئے میں اس ملک کے لئے کچھ کرسکتا تھا کردیا۔ میں باہر اعلیٰ عہدہ پر فائزتھا۔ میری بیگم غیرملکی تھیں اور مجھے کئی ملکوں سے پروفیسر شپ کے آفر تھے مگر جب میں نے ملک کو خطرہ میں دیکھا تو سب کچھ چھوڑ کر واپس آگیا اور کبھی واپس باہر جانے کا تصور بھی نہیں کیا۔ ہمارے نوجوان ملک کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کرتے رہتے ہیں میں نے تو صرف کچھ تکالیف اُٹھائیں جان دینے کی نوبت نہیں آئی۔ آئی تو وہ بھی دیدوں گا۔ آپ کبھی یہ نہ سوچیں کہ ایک شخص کیا کرسکتا ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے مِلّت کے مقدر کا ستارا
مجھے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے مُقدر کا ستارا بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پاکستان کا نام روشن کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

.
تازہ ترین