• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں کے الیکٹرک انتظامیہ نے ’’کے الیکٹرک کامستقبل‘‘ کے موضوع پر ایک نہایت معلوماتی پریذنٹیشن دی۔ تقریب میں میرے علاوہ کراچی کے ممتاز صنعتکاروں، فیڈریشن اور چیمبرز کے عہدیداروں، چارٹرڈ اکائونٹینٹ کمپنیوں کے نمائندوں، ٹی وی چینلز اور اخبارات کے سربراہان کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا جبکہ تقریب میں کے الیکٹرک کے اعلیٰ عہدیداران بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ کے الیکٹرک ( سابقہ کے ای ایس سی) سے میرا گہرا تعلق رہا ہے۔ 1994ء میں کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے بحران سے نمٹنے کیلئے وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے مجھے کے ای ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کیلئے نامزد کیا، اس طرح مجھے کے ای ایس سی کے اندورنی معاملات سمجھنے کا موقع ملا۔ اُس دور میں لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کیلئے نئے پاور کنکشنز پرپابندی عائد تھی اور کے ای ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو صرف ایمر جنسی کیسز میں کنکشن دینے کی اجازت تھی۔ 1994ء سے 2005ء تک کے ای ایس سی کے انتظامی امور پاک فوج کے پاس رہے تاہم 29نومبر 2005ء کو کے ای ایس سی کے انتظامی امور سعودی کمپنی الجمائیہ اور کویتی NIG گروپ کے حوالے کردیئے گئے۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب اسلام آباد میں کے ای ایس سی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور مجھ سمیت بورڈ کے دیگر ممبران نے نجکاری معاہدے کے تحت کے ای ایس سی کے 71فیصد شیئرز سعودی کمپنی الجمائیہ اور کویتی NIGگروپ کے حوالے کئے۔ میں انتہائی خوش تھا کہ اب کے ای ایس سی میں کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی کے باعث ہونے والے مالی نقصانات حکومت کو برداشت نہیں کرنا پڑیں گے اور نئی پروفیشنل انتظامیہ سرمایہ کاری کرکے کراچی کے شہریوں کو سستی بجلی اور بہتر سہولتیں فراہم کرے گی مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔
متحدہ عرب امارات کے ابراج گروپ نے کے الیکٹرک کے انتظامی امور سنبھالنے کے بعد 2009ء میں 361 ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کرکے ادارے کو پروفیشنل مینجمنٹ کے ذریعے کامیابی سے چلایا اور تقریباً ایک ارب ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کرکے کمپنی کی کارکردگی کو بہتر بنایا جس کے نتیجے میں کمپنی کے تکنیکی (T&D) نقصانات 36 فیصد سے کم ہو کر 22فیصد پر آگئے۔ اس طرح نقصان میں چلنے والے ادارے نے 17 سالوں بعد 2012ء میں پہلی بار 1.8 ارب روپے کا منافع کمایا جبکہ اس کے ٹرن ارائونڈ کا مطالعہ ہارورڈ بزنس اسکول میں بطور کیس اسٹڈی کیا گیا۔ کے الیکٹرک کے مطابق انتظامیہ نے ادارے کے امور سنبھالنے کے بعد جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ پاور پلانٹس کی بدولت بجلی پیدا کرنے کی استطاعت میں ایک ہزار میگاوٹ سے زائد کا اضافہ کیا ہے جبکہ موجودہ حالات میں انڈسٹری 100 فیصد اور عام صارفین 62 فیصد لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔ حال ہی میں کے الیکٹرک انتظامیہ ابراج نے اپنے 66.4فیصد شیئرز اور انتظامی حقوق دنیا کی فارچیون 500 کمپنیوں میں شمار کی جانے والی چینی کمپنی شنگھائی پاور انویسٹمنٹ کارپوریشن کے ذیلی ادارے شنگھائی الیکٹرک کو 1.77 ارب ڈالرز میں فروخت کرنے کے معاہدے پر ستخط کئے۔ معاہدے کے بعد شنگھائی الیکٹرک نے اعلان کیا کہ وہ کے الیکٹرک میں اضافی بجلی کی پیداوار کے علاوہ T&D سسٹم کو جدید بنانے کیلئے 9ارب ڈالرز کی نئی سرمایہ کاری کرے گی جس کی بدولت کے الیکٹرک کا شمار دنیا کی بہتر ین پاور سپلائی کمپنیوں میں ہوجائے گا اور اس کا فائدہ کراچی کے تقریباً 25لاکھ صارفین کو پہنچے گا۔ رپورٹ کے مطابق شنگھائی الیکٹرک کے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کے الیکٹرک کو حکومتی اجازت نامے (NOCs) فراہم کرنے ہونگے جس کیلئے حکومت نے کے الیکٹرک کے ذمہ مختلف اداروں کی واجب الادا رقوم سرچارج (LPS)سمیت ادا کرنے کو کہا ہے جبکہ دوسری جانب مختلف اداروں کے ذمہ کے الیکٹرک کے واجب الادا رقوم پر خاص پیشرفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ نیپرا نے کے الیکٹرک کو کارکردگی کی بنیا د پر دیا جانے والا 7 سالہ ملٹی ایئر ٹیرف بھی ختم کردیا ہے جس کے باعث نہ صرف کے الیکٹرک کو سالانہ 290 ارب روپے کا خسارہ ہوگا بلکہ کراچی کے بجلی کے نظام میں مزید بہتری کیلئے سرمایہ کاری بھی نہیں کی جاسکے گی۔ کے الیکٹرک انتظامیہ کے بقول ایسی صورتحال میں ادارے کے آپریشنز بری طرح متاثر ہوں گے اور کراچی کو مطلوبہ پاور سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی میں سالانہ تقریباً ایک فیصد کی کمی آئے گی۔
یہ صورتحال کافی سنگین نظر آتی ہے۔ مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت، ارجنٹینا، برازیل، یورپی یونین اور امریکہ نے جب اپنے یوٹیلیٹی اداروں کو دی جانے والی مراعات واپس لے لیں تو اُن ممالک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرگیا لیکن بعد میں بالآخر اِن ممالک کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر دیا جانے والا ٹیرف یوٹیلیٹی کمپنی کی کاکردگی میں اضافہ کرتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کے الیکٹرک انتظامیہ نے اس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹراسحاق ڈار، وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور نیپرا حکام سے کئی ملاقاتیں کی ہیں جنہوں نے حکومتی واجبات کی ادائیگی کیلئے افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر سوئی سدرن گیس کمپنی نے شنگھائی الیکٹرک کو خط لکھا ہے کہ واجبات کی عدم ادائیگی کی صور ت میں کے الیکٹرک کو 160MMCFD گیس کی فراہمی روک دی جائے گی جبکہ پرائیویٹائزیشن کمیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب تک کے الیکٹرک اپنے تمام واجبات حکومتی اداروں کو ادا نہیں کردیتا، اُسے نیشنل سیکورٹی کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری نہ کیا جائے۔ ایسی صورتحال میں کے الیکٹرک کا شنگھائی الیکٹرک سے معاہدہ خطرے میں پڑگیا ہے حالانکہ شنگھائی الیکٹرک، کے الیکٹرک کے پوٹینشل کے پیش نظر اِسے خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
کے الیکٹرک کی موجودہ انتظامیہ ابراج کے سربراہ پاکستانی نژاد عارف نقوی ہیں۔ ابراج یو اے ای کا پرائیویٹ ایکویٹی فنڈ ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں 3 سے 5سالہ سرمایہ کاری کرکے ادارے کو پروفیشنل مینجمنٹ کے ذریعے منافع بخش بنانے کے بعد اپنے حصص فروخت کردیتا ہے۔ کے الیکٹرک میں ابراج کی سرمایہ کاری کو 7سال گزر چکے ہیں اور پرائیویٹ ایکویٹی فنڈ کی مدت پوری ہوچکی ہے، اسلئے ابراج کو اب اپنے شیئرز فروخت کرنے ہیں۔ کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے والی کمپنی شنگھائی الیکٹرک کا شمار دنیا کی نامور پاور کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ یہ کمپنی چین کے شہر شنگھائی کو 30ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی فراہم کررہی ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ کے الیکٹرک کے انتظامی امور سنبھالنے کے بعد شنگھائی الیکٹرک کراچی کے شہریوں کو جدید طرز پر بہتر خدمات فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نواز شریف سے درخواست ہے کہ وہ کے الیکٹرک اور حکومتی اداروں کے مابین تنازع میں فوری مداخلت کریں تاکہ کے الیکٹرک اور شنگھائی الیکٹرک کے درمیان طے پانے والا معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے بصورت دیگر ملکی جی ڈی پی اور روشنیوں کے شہر کراچی کا مستقبل خطر ے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

.
تازہ ترین