• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے ایم اے کی ڈگری معاشیات میں حاصل کی ہے۔اس مضمون میں کبھی بھی کمال حاصل نہیں رہا۔میری ہمیشہ سے دلچسپی ادب، مزاح اور سماجیات میں رہی ہے۔ اخراجات، تخمینہ، طلب، رسد، قیمتوں کا اتار چڑھائو کبھی سمجھ نہیں آیا۔ کچھ دوستوں نے میری ڈگری کے حوالے سے مجھ سے بجٹ کے بارے میں رائے لینے کی کوشش کی مگر منہ کی کھائی۔ سچ بات تو یہ ہے جو کچھ تھوڑا بہت یاد تھا وہ بھی اب ذہن سے محو ہو چکا ہے۔انیس سو بانوے سے اب تک وقت بھی تو بہت گزر گیا ہے۔ اسی لئے جب بھی بجٹ تقریر ہوتی ہے میں فون آف کر دیتا ہوں ، کوشش کرتا ہوں کسی سے بات نہ کروں کہیں کوئی اکنامکس کی ڈگری کے دھوکے میں مجھ سے کوئی رائے لینے کی مذموم کوشش نہ کرے اور جو علم کا بھرم بنا رکھا ہے اسکی ہنڈیا کہیں چوراہے میں نہ پھوٹ جائے۔ ٹی وی پر آنے والی نابغہ روزگار شخصیات کیلئے ہر موضوع پر باکمال گفتگو کرنا انتہائی لازمی ہے۔ ان میں سے بیشتر اصحاب ان موضوعات پر حتمی اور اٹل رائے دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وزیر خزانہ اور وزارت خزانہ کے پرخچے اڑانا جانتے ہیں۔ موقع ملتے ہی بجٹ کو غریب کش بجٹ ثابت کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ مہنگائی کے بڑھ جانے کے شماریاتی ثبوت دینا جانتے ہیں۔ میں فی الحال اس قابلیت سے محروم ہوں اور اپنی نااہلی کو حق گوئی کے لبادے میں چھپا کر گزارا کرتا ہوں۔
اسحاق ڈار آج پھرا سکرین پر جگمگا رہے تھے۔ بجٹ تقریر کا شہرہ کچھ دنوں پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ چینلوں نے نئے نئے گرافکس تیار کر لئے تھے۔ غربت کے بڑھ جانے والے وڈیو پیکج پہلے ہی تیار کر لئے گئے تھے۔ دالیں ، گوشت، اور سبزیوں کے نرخ آج کی سب سے اہم خبر ہو رہے تھے۔سیمنٹ کی بوری کی قیمت، سگریٹ پر لگنے والی متوقع ڈیوٹی، موبائل فون پر کم ہونے والا ٹیکس، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی شرح ، دفاعی اخراجات میں ہونے والا اضافہ، خام تیل کی قیمت اور بجلی کی فی یونٹ کے نئے نرخ سامنے آ رہے تھے۔ کچھ لوگ ڈیسک بجا رہے تھے۔ کہیں سے حکومت مخالف نعروں کی آ واز آ رہی تھی۔اچھا خاصہ تماشہ لگا ہو اتھا۔ میں عموما بجٹ تقریر کے وقت کوئی اچھی سی فلم دیکھنا پسند کر تا ہوں۔ اب اسے شومئی قسمت ہی کہیے کہ جب فلم ختم ہوئی تو ابھی ہمارے وزیر خزانہ کی تقریر جاری تھی۔ بس دو جملے کان میں پڑے۔ اسحاق ڈار یہ جملے کہہ کر تیزی سے آ گے بڑھ گئے۔ لیکن اتنا ضرور ہوا تھا کہ ان دو جملوں پر ڈیسک بجنے کی آواز ذرا تیز ہو گئی ۔ شاید کچھ حکومت کے حق میں نعرے بھی لگے ہوں مگر بات جس برق رفتاری سے ہو رہی تھی اس میں احباب کو خوشامد کاموقع ہی نہیں مل رہا تھا۔اسحاق ڈار کی تقریر کے جن دوجملوں کا ذکر میں کر رہا ہوں ان کا تعلق معذور افراد کے حوالے سے تھا۔وزیر خزانہ نے فرمایا کہ معذور افراد کی ملازمتوں میں دو فیصد کوٹے کو اب لمیٹڈ کمپنیو ںتک وسیع کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ معذور افراد کو بچت کے ضمن میں شہدا اور بیوائوں کی طرح بہبود اور ڈیفنس سرٹیفکیٹ جیسی اسکیموں سے زیادہ منافع دیا جائے گا۔اب مجھے اتنا علم نہیں کہ جب ملازمتوں میں دو فیصد کوٹے کو لمیٹڈ کمپنیوں کی طرف وسیع کیا جائے گا تو کیا اس سے مراد پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ہیں یا پرائیوٹ کمپنیوں پر بھی یہ پابندی ہوگی۔ یہ ابھی تجویز ہے یا حکم نامہ ہے؟ اسی طرح اگر بچت میں زیادہ منافع دینے کا سوچا گیا ہے تو کیا یہ سرٹیفکیٹ معذور افرادکو مہیا کیا جائیں گے یا جمع شدہ سرٹیفکیٹس پر ہی منافع بڑھا دیا جائے گا۔میرا معاشیات کا علم یہ جواب دینے سے قاصر ہے۔ نہ ہی بجٹ کی یہ تفصیلات میری نظر سے گزری ہیں کہ ان کے بارے میں دوجے ماہرین کی طرح اپنی حتمی رائے کا اظہار کر سکوں۔
ابھی تک اس کالم میں ، میں نے پوری صراحت سے اپنی کم علمی کا رونا رویا ہے، اور بجٹ کے بارے میںکوئی بھی رائے دینے کی نااہلیت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ لیکن جسطرح میں وزیر خزانہ کو معاشی پالیسیوں کے بارے میں کوئی تجویز نہیں دے سکتا اسی طرح وزیر خزانہ بھی ایکدم معذور افراد کے بارے میں ایک ایسی پالیسی کا اعلان نہیں کر سکتے جس کا حقیقت حال سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ معذور افراد کیلئے ملازمتوں میں دو فیصد کوٹے سے بڑا ظلم اس ملک میں کوئی ہے ہی نہیں۔ مجھے کوئی ایک ادارہ بتا دیں جہاں اس قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہو۔ ہو تا یہ ہے جب اسطرح کے کوٹے حکومتوں کی طرف سے سامنے آتے ہیں تو یہ نااہل لوگوں کے لئے سونے کی کان بن جاتے ہیں۔ آپ سب کو پتہ ہے اس معاشرے میں ڈاکٹر سے ایک جعلی سرٹیفکیٹ لینا کتنا دشوار ہے ؟ ہر چوک ، ہر گلی میں یہ کام سر عام ہو رہا ہے۔جس کی چھوٹی انگلی کٹ گئی ہے اس نے بھی یہ سرٹیفکیٹ بنوا لیا ہے ، جس کی کمر میں درد ہے وہ بھی ڈس ایبلٹی سرٹیفکیٹ بنوا چکا ہے۔دھونس ، دھاندلی سے اس کوٹے پر مدت سے نااہل لوگ براجمان ہیں اور کتنے ہی حقدار معذور افراد کا حق مار رہے ہیں۔ او راگر قسمت سے کسی معذور شخص کو اس کوٹے پر ملازمت مل بھی جائے تو کیا ادارے میں اسکی سہولت کا کوئی اہتمام کیا گیا ہے یا پھر گھر بیٹھے تنخواہ دینے کا ارادہ ہے؟کیا نابینا شخص کو ٹاکنگ کمپیوٹر فراہم کیا گیا ہے۔کیا جسمانی معذور افراد کیلئے ریمپس اور باتھ روم موجود ہیں۔ کیا قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لئے اشاروں کی زبان سمجھنے والوں کا انصرام ہے؟لیکن یہ سب تو بہت بعد کی باتیں ہیں۔ پہلا مرحلہ تو تعلیم کا ہے۔ کیا اتنے اسپیشل اسکول ہیں جہاں یہ بچے تعلیم حاصل کرکہ اس ملازمت کیلئے اپلائی بھی کر سکیں؟ کیا ان بچوں کیلئے کتابیں دستیا ب ہیں؟ کیا ان اسکولوں میں ان بچوں کو صرف اور صرف نمائش کے طور پر رکھا جاتا ہے یا انکو تعلیم بھی دی جاتی ہے؟ کیا ان بچوں کیلئے موبائل پر اردو سافٹ وئیر ریڈر ایجاد ہو گیا ہے؟کیا نارمل اسکولوں میں ان بچوں کے داخلے کو یقینی بنایا گیا ہے؟ کیا گھروں میں رسیوں سے بندھے بے شمار معذور بچوں کو اس دو فیصدکوٹے کی بنا پر نوکری مل سکتی ہے؟بات یہاں ختم نہیں ہوتی اب بہبود سرٹیفکیٹ پر منافع پر بات کر تے ہیں۔ کیا وزیر خزانہ جانتے ہیں ان میں سے بے شمار بچوںکو بھکاری بنا دیا جاتا ہے، بے شمار دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں، بے شمار بچیوں کی شادی نہیں ہو سکتی۔ بے شمار بچے ایسے ہیں جن کی ہر اہلیت پر لوگ ٹھٹھے کرتے ہیں۔ بے شمار بچے صرف مدرسوں میں صدقے خیرات پر پلتے ہیں۔بے شمار بچوں کے والدین اور رشتہ دار انہیںکسی گناہ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ معاشرے میںان لوگوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ بے شمار بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔بے شمار بچے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ان بچوں کیلئے سرٹیفکیٹ پر منافع میں اضافہ کرنے سے پہلے انکو بنیادی حقوق دے دیں ، دو وقت کی روٹی دے دیں، پڑھنے کیلئے اسکول بنا دیں ، علم حاصل کرنے کیلئے کتابیں دے دیں پھر منافع پر بھی بات کر لیں گے۔ پھر دو فیصد کوٹے کا سوال بھی اٹھا لیں گے۔ وزیر خزانہ صاحب ان محروم بچوں کا تمسخرنہ اڑائیں۔ ڈرائنگ روموں میں بنائی ہوئی ایسی پالیسیوں سے ان بچوں کو اور نہ رلائیں۔

.
تازہ ترین