• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں لاہور چڑیا گھر کی ہتھنی کی موت لاکھوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئی۔ سوزی ہر کسی کی دوست اور چڑیا گھر کا پسندیدہ جانور اور شان تھی ۔ اس کے انتقال نے مجھے بھی بہت مغموم کر دیا۔ یہ 1996ء کی بات ہے جب میرا بیٹا احمد فرقان تقریباًپونے دو سال کا تھا اور میں اسے چڑیا گھر دکھانے لے گیا تو اس نے سوزی میں بڑی دلچسپی ظاہر کی اور میں نے اسے اپنی گود میں لیکر سوزی کی سواری کی، تصاویر بنوائیں،آج جب سوزی نہ رہی تو میں نے وہ تصویریں نکالیں اور بڑی دیر تک دیکھتا رہا، میرا بیٹا سوزی کی موت کے حوالے سے مختلف سوالات کرتا رہا۔میں کوئی جواب دینے کی بجائے اسے ساتھ لے کر چڑیا گھر چلا گیا اور سوزی کے انکلوژر کے پاس کھڑا ہوگیا، جہاں 12فٹ گہرا گڑانکال کر اسے دفن کیا گیا تھا۔ سوزی کی وفات کے بعد طرح طرح کے تبصرے ہورہے ہیں یہاں کے ڈائریکٹر کو معطل کر دیا گیا ہے، اسکی موت کی وجوہات اپنے اپنے مفادکے تحت بیان کی جارہی ہیں۔5رکنی ڈاکٹروں کی ٹیم نے اپنی پوسٹ ماٹم رپورٹ جمع کرا دی ہے جبکہ چھ رکنی انکوائری کمیٹی مطلوبہ وقت میں اپنی رپورٹ سیکرٹریٹ جمع نہیں کرا سکی بلکہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک دھڑا حقیقی رپورٹ دینا چاہتا ہے جبکہ دوسرا دھڑ اپنی پسند کے ڈائریکٹر کو لگوانے کیلئے رپورٹ دینا چاہتا ہے۔ زو مینجمنٹ کمیٹی نے چڑیا گھر میں نیا ہاتھی لانے کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے۔ چند دنوں کے بعد دوسرے سانحات کی طرح یہ خبر بھی مٹی تلے دب جائیگی اور لوگ ڈسکس کرتے رہیں گے ’’ مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتاہے‘‘ جب میں سوزی کے انکلوژر کے پاس کھڑ تھا تو میں نے محسوس کیا کہ سوزی اپنے اُن عوام سے مکالمہ کر رہی ہے جنکا وہ دل لبھایا کرتی تھی۔ مجھے لگا کہ وہ بہت ہی سمجھ دار ی کی باتیں کر رہی ہے اور یہ سب عوام تک پہنچنا ضروری ہیں۔ وہ واقعتاسمجھ دار تھی۔1996ء میں جب اسے ایک روپے کانوٹ دیا تو اپنی سو نڈھ سے اٹھایا اور مہاوت کو دے دیا لیکن جب کاغذاُسکی طرف پھینکا تو اسے نہ اٹھایا—آیئے آپ بھی سینے کہ وہ اپنی کہانی میں ہم لوگوں کو کس طرح ایکسپوز کرتی ہے۔
میری کہانی اس طرح سے ہے کہ 1992ء میں مجھے بیلجئم سے لایا گیا، جب میری عمر چھ برس تھی۔ چند روز کے بعد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ جو گھر مجھے دیا گیا ہے یہاں پہلے1968ء کو لکھی رانی ہتھنی لائی گئی پھر اس کا اکیلا پن دُور کرنے کیلئے شہ زور نامی نوجوان نر ہاتھی جسکا چڑیا گھر کے ریکارڈ میں ’’رستم ‘‘نام ہے وہ لایا گیا —مگر کچھ عرصہ بعد شہ زور اچانک کسی بات پر بدمست ہوگیا تو انتظامیہ نے اسے آٹے میں نشہ کی گولیاں دینا شروع کر دیں تاکہ بیہوشی میں اسکا علاج کیا جا سکے مکر جب کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تواسے گولی مار دی گئی، اس کا ڈھانچہ ایف سی کالج کی بیالوجی لیبارٹری میں پہنچادیا گیا۔ اس کے بعد لکھی رانی تنہائی کا شکار ہوگئی اور اسی صدمے میں بیمار پڑ گئی تو انتظامیہ نے اپنی غفلت کا بھر پور مظاہرہ کیا اور رانی چالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئی۔ پھر اُسی طرح میٹنگ کی گئی جس طرح اب میرے مرنے کے بعد کی گئی اور مجھے بلجیم سے منگوایا گیا، میں تو چڑیا گھر انتظامیہ کیلئے نوٹو کی بوری تھی۔ میرے اوپر ہر روز سینکڑوں افراد کو سواری کرائی جاتی اور لاکھوں کمائے جاتے۔ شروع شروع میں جب میں بیمار ہوگئی تو کچھ علاج ہوا اور 1999ء تک سواری بھی بند کر دی گئی پھرکچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا، اور معطل کر دیا گیا لیکن 2013ء میں میری تمام خواہشات اور ضروریات کو نظر انداز کر کے مجھے نوٹوں کی مشین سمجھ کر استعمال کیا گیا۔ مگر میری کسی بیماری کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی میری تنہائی کا کوئی سامان کیا۔ جب 2017ء کو لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل ہوا تو مجھے سجایا گیا میں نے سمجھا شاہد میری شادی ہورہی ہے اور 25سال بعد میرااکیلاپن باٹنے والا لایا گیا ہے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں تھا اور میں اس غم میں بیمار پڑ گئی۔ اب جب میں اس دنیا میں نہیں رہی تو میرے مرنے کی مختلف وجوہات کا ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے، جتنے منہ، اتنے مفاد اور اتنی ہی باتیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ صرف دو دن پہلے پائوں میں انفکیشن ہوئی، ایکسرے کروانے کی کوششیں کی مگر آلات نہیں تھے، رات دو بجے کے بعد حالت خراب ہوئی تو گر پڑی، کوئی کہتا ہے کہ گرنے سے سانس اکھڑ گئی اور اسی دوران دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا، کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ سوزی بہت موٹی ہو گئی تھی، یورک ایسڈ کی وجہ سے ٹانگیں درد کرتی تھیں، سوزی کو السر ہو گیا تھا، اس کا جگر خراب تھا، اس کی ٹانگ پہ پھوڑا تھا، اس کے جسم پر پیٹ سے اوپر بائیں جانب ایک فٹ 9انچ لمبا اور 8انچ چوڑا زخم تھا۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ اس قسم کے ہاتھی کی عمر 17سے 30سال ہوتی ہے، سوزی طبعی عمر پوری کر چکی تھی۔
جتنے منہ اتنی باتیں لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں اگر میری ان سب بیماریوں کا انتظامیہ کو پتا تھا تو پھر علاج کیوں نہیں کرایا گیا، کیوں غفلت بھرتی گئی جب یہ پتا چلا کہ میری ٹانگیں وزن نہیں اٹھا سکتیں مجھے کیئر کی ضرورت ہے تو پھر میرا کوئی نگران کیوں نہ رکھا گیا، کیوں مجھے تنہا چھوڑ دیا گیا میں تو پہلے ہی تنہائی کا شکار تھی، میں نے اپنی نسل کا کبھی کوئی جانور پچھلے 25سال میں نہ دیکھا، نہ کسی کو احساس ہوا کہ میرا اکیلا پن ختم کیا جائے، کبھی ایک دو مرتبہ میٹنگ کا ایجنڈا بنا بھی تو کہا گیا کہ اتنے فنڈ نہیں کہ کوئی نر ہاتھی لایا جائے، بعض نے تو یہ بھی مذاق کیا کہ چلو جب سوزی مر جائے تو سوا لاکھ کی ہوگی اور ابھی مجھے مرے 24گھنٹے بھی نہیں ہوئے اور میری تقسیم شروع ہوگئی ہے کہ میری کھال پنجاب یونیورسٹی کو دی جائیگی۔ ڈھانچہ وٹینری یونیورسٹی کو، میرے دانت میوزیم میں رکھے جائینگے اور لوگوں کو باور کرایا جائیگا یہ دانت کھانیوالے نہیں بلکہ دکھانیوالے ہیں۔ میں جب تک زندہ تھی تو بے زبان تھی اب پہلی بار میں نے اپنی زبان کھولی ہے اس سے پہلے کہ یہ بند کرا دی جائے میری آخری بات سن لو۔ میں یہ بات کلیئر کردوں کہ میری نسل کے ہاتھی پچاس سے 85سال تک زندہ رہتے ہیں اگر میرے اکیلے پن کا خیال کیا ہوتا تو میں بھی 50سال سے زیادہ آپ کیلئے پیسوں کی مشین ثابت ہوسکتی تھی مگر میری خوراک بھی اپنے گھروں کو لے جاتے جو وہاں بھی پوری نہیں پڑیگی۔ میرے پہ جو ظلم کرنا تھاکر لیا۔ اب جب کوئی ہاتھی لائو تو اسکا جوڑا ضرور بنانا ورنہ چڑیا گھر بھی بنجر ہوجائیگا ویسے مجھے اس مافیا سے امید نہیں کیونکہ اب تک جو بڑے جانور مرچکے ہیں جن میں دریا ئی گھوڑا، گینڈا اور زرافے شامل ہیں۔ اُنکے متبادل تو لائے نہیں گئے اور یہ سب بھی انتظامیہ کی غفلت کی بھینٹ چڑ ھے تھے۔ میرے بعد سپارڈٹ ہرن بھی ہلاک ہو چکا ہے اور اس موسم گرما میں درجنوں دیگر جانور مرچکے ہیں، اس کیساتھ چڑیا گھر کا اکلوتا ٹیوب ویل تھا وہ بند ہوگیا ہے جبکہ دوسرا جو میرا ہم عمر تھا وہ خستہ حال ہے۔ جس سے نہ صرف درختو ں کو پانی دیا جاتا بلکہ آبی پرندے اور جانور بھی اسی سے پانی پیتے۔ میں تو مر چکی ہوں مگر یاد رکھواب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو تم صرف ماتم کرتے رہ جائو گے!

.
تازہ ترین