• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوستو! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اس مرتبہ ہم نے کالم کا عنوان کیا رکھا ہے۔ ہوا یوں کچھ یہ کہ حسب روایت ڈاکٹروں کو ملتے ملاتے ہماری ملاقات کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی و میواسپتال کے شعبہ امراض اعصاب و پٹھہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اطہر جاوید سے ہوگئی۔ روایات اور اقدار پر بڑی دیر گپ شپ ہوتی رہی۔ دوران گپ شپ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی نے 200مستحق اسٹوڈنٹس کی فیسیں معاف کر رکھی ہیں وہ ہر کیس کی جانچ پرکھ کرکے ایسا کرتے ہیں، وہ اس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ وہ مستقبل کے ڈاکٹر ہیں جو کالج کی سالانہ بیس پچیس ہزار روپے فیس بھی نہیں دے سکتے۔ لیکن جب ڈاکٹر بنتے ہیں تو سب سے زیادہ ظلم غریب اور امیر دونوں مریضوں پر کرتے ہیں اور غریب مریضوں کو اپنی پرائیویٹ کلینک پر دیکھنا تو بہت دور کی بات، ان سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ غربت سے امارت کا سفر طے کرکے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے قرضے لے کر اور لوگوں سے پیسے مانگ مانگ کر پڑھایا تھا۔ ان کے دل پتھر کے اور دماغ سوچنے کی صلاحیتوں سے عاری ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی گائنا کالوجسٹ لاہور میں تھی جو اگر مریضہ کے پاس فیس نہیں ہوتی تھی تو اس کے کنگن تک اتار لیتی تھی۔ وہ گائنی کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ ہر مریضہ کو زبردستی اسکن بیوٹی کریم بھی اپنے کلینک پر فروخت کرتی تھی۔
ہما ری بحث یہ تھی کہ جب غریب اسٹوڈنٹ ڈاکٹر بنتا ہے تو وہ زیادہ ظالم ہوتا ہے مگر ڈاکٹر صاحب کو ہماری بات سے پوری طرح اتفاق نہ تھا۔ اسی طرح لاہور کے ایک ڈاکٹر کے والد سبزی فروش تھے ۔ کورے ان پڑھ، سائیکل پر آوازیں لگاکر سبزی فروخت کیا کرتے تھے۔ خاندان کا پہلا فرد جو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا، پھر اس نے پرائیویٹ کلینک بنا لیا اور آج کل جس طرح وہ مریضوں کو لوٹ رہے ہیں اگر بیان کروں تو کتاب بن جائے گی۔ اسی طرح لاہور کے ایک پرائیویٹ اسپتال کے مالک کے باپ نے دو دو، چار چار روپے اکٹھے کرکے بیٹے کو پڑھایا، انتہائی غریب باپ کا بیٹا تھا، آج کسی مستحق مریض کو ایک روپیہ بھی نہیں چھوڑتا۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے چکروں سے کروڑوں روپے کما لئے۔ پھر میڈیکل کالج بنا کر لوٹ مار کا مزید بازار گرم کرلیا۔
آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ غریب یا متوسط طبقے کے مریض کا کیا کام کہ وہ پرائیویٹ اسپتال جائے۔ تو دوستو! بات یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے حالات انتہائی ابتر ہیں۔ چنانچہ ایک تصور عام ہوگیا ہے کہ پرائیویٹ اسپتال میں مریضوں کا علاج بہتر ہوتا ہے چنانچہ یہ لوگ اپنی جائیدادیں، زیورات اور اکلوتے گھر تک فروخت کرکے پرائیویٹ اسپتالوں میں آتے ہیں مگر یہاں پر ظالم اور ماضی کی غربت کے مارے ہوئے ڈاکٹرز جو اب زندگی فارم ہائوسز میں بسر کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو صرف یہ بتاتے ہیں کہ وہ خاندانی امیر ہیں، اپنے باپ دادا کی غربت کا ذکر نہیں کرتے۔ ایک اور ڈاکٹر ہیں جو غیر ضروری ٹیسٹ کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ کسی دوسرے ڈاکٹر نے کہا کہ ایسا نہ کیا کرو تو اس نے کہا یارمجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں دوبارہ غریب نہ ہو جائوں۔
اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو تعلیم یافتہ لوگوں نے لوٹا ہے۔ اشفاق احمد مرحوم کی بات سو فیصد درست ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ اس ملک کو صرف غریبوں نے لوٹا ہے۔آپ سیاست میں دیکھ لیں کہ دو دو مرلے کے مکانوں میں رہنے والے آج حویلیوں اور فارم ہائوسز میں رہتے ہیں۔ ہم بے شمار سیاست دانوں، صحافیوں اور علما کرام کو جانتے ہیں کہ ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والے آج محلوں میں رہتے ہیں۔ یہ غریب جب امیر ہو جاتے ہیں تو غریبوں پر اس لئے ظلم کرتے ہیں کہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ وہ بھی غریب انہی کی طرح کی ذہینت اور سوچ رکھتے ہیں اور ان کی طرح امیر ہو کر ان کے حصے دار بننا چاہتے ہیں۔ اس لئے ماضی کا ہر غریب، موجودہ تمام غریبوں کے خلاف ہے۔ اور خلاف رہے گا۔
آیئے اب اشفاق احمد مرحوم کی بات کا جائزہ لیتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ آپ جائزہ لے لیں کہ بیورو کریسی اور جن کا نام لینےسے پر جل جاتے ہیں، وہاں اکثریت ان لوگوں کی آتی ہے جو انتہائی غریب تھے ہم تو ایسے بیورو کریٹس کو جانتے ہیں کہ جو گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) میں زیر تعلیم تھےتو کالج کی سالانہ فیس صرف تین سو سے چھ سو روپے تک تھی وہ بھی معاف کروایا کرتے تھے آج ان کے بچے یو ایس اے، یو کے، کینیڈا، آسٹریلیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں زیرتعلیم ہیں۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے جن غریب بیوروکریٹس نے جن اسکولوں، خاص کر ٹاٹ اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی اپنے بچوں کو نہ تو وہاں سے پڑھایا بلکہ اپنے بچوں کو ان اسکولوں تک بھی کبھی نہیں لے کر گئے۔ کہتے ہیں کہ غریب کی بھوک بہت بری ہوتی ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ شیر جب پیٹ بھر لیتا ہے تو بچا ہوا گوشت دوسرے جانوروں کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ہم سے تو بہتر پھر شیر ہوا۔ ہم تو کچھ بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ گلیوں اور محلوں میں منتخب ہونے والوں کو ڈیفنس بہت پسند ہے۔ ڈیفنس اور کئی جدید بستیاں نئے امیروں سے بھری پڑی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کو باپ کا مال سمجھ کر لوٹا اور لوٹتے چلے جا رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے لاہور میں بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بڑی زور دار دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس پر کروڑوں روپے لگ گئے۔ ہر طرف چین کے لوگ نظر آتے رہے۔ ویسے بھی پچھلےچار برسوں میں لاہور میں اتنے چینی آگئے ہیں کہ اب لاہور چین کا کوئی شہر لگتا ہے۔ ہر ہوٹل اور بازار میں آپ کو چینی نظر آئیں گے۔
چینی خود تو آگئے ان کا من بھی یہاں لگ گیا اور دھن بھی لے آئے۔ لہٰذا اب صوبہ پنجاب کو تن من دھن صوبہ قرار دے دینا چاہئے کیونکہ چینی تو اب پنجاب کے کئی شہروں میں بھی کام کر رہے ہیں۔ ہمیں چین اور ترکی کے لوگوں کی آمد پر کوئی اعتراض نہیں مگر حضور والا! اگر چینی اپنے ساتھ گوادر اور دیگر شہروں میں جہاں جہاں وہ کام کر رہے ہیں اپنی لیبر بھی لے کر آ رہے ہیں۔ ذرا دیر کو سوچیں اگر مزدور بھی چینی آ جائیں گے تو پاکستان کے غریب مزدور کہاں جائیں گے؟دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی ایسا واقعہ ہو جائے کیونکہ چینیوں کی سیکورٹی کسی صورت تسلی بخش نہیں اور یہ بھی ہر جگہ گھومتے رہتے ہیں۔
70برس میں پاکستان نے اپنے حکمرانوں کی بدولت یہ کمایا ہے کہ صفائی کا نظام ترکی والے چلا رہے ہیں، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے نظام کو چلانے کے لئے بھی یو کے، چین اور ترکی والوں سے مدد مانگی جا رہی ہے۔ کیا چین نے 1948 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد کسی ملک سے مدد مانگی تھی؟
ایک زمانہ تھا کہ جب جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوا، تو جرمنی بالکل تباہ ہو چکا تھا۔ اس کو دنیا کے 14ممالک مالی امداد دے رہے تھے ان میں پاکستان بھی شامل تھا ۔ ایوب خان کی حکومت نے 12کروڑ روپے بیس سال کے لئے بطور امداد دیئے تھے۔ آج یہی جرمنی روزانہ کی بارہ کروڑ روپے کی پیپرین بنا رہا ہے۔ دنیا کی مضبوط معیشت والے ممالک میں چوتھا نمبر ہے۔ آج وہاں کی فی کس آمدنی 41178ڈالر ہے اور پاکستان کی صرف 1434ڈالر ہے۔ کیونکہ وہاں حکمراں سادگی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ہمارے حکمراں قرضوں پر مزے کرتے ہیں۔



.
تازہ ترین