• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بطور انسان ساری عمر کسی بھی شخص کو دو ہی محاذ درپیش ہوتے ہیں ایک انسان کے اندرکادوسرا باہر کا محاذ۔ چوٹ باہر سے لگے یا اندر کی کوئی بیماری بسا اوقات انسان کی موت کا سبب بن جاتی ہے،وطن عزیز کو بھی برسوں سےدونوں محاذوں کا سامنا ہے، ملکی بقا و سلامتی اور دگرگوں معاشی حالات کے سخت چیلنجز نے پورے ملک کو پریشانی کا شکار کر رکھا ہے، ماہرین کے مطابق معاشی صورت حال اچھی ہو تو سماجی، سیاسی اور جمہوری حالات بھی ٹھیک رہتے ہیں، پاکستان ایک مضبوط ایٹمی طاقت ہے لیکن سرحدی و اندرونی سیکورٹی کے سنگین معاملات اور معاشی چیلنجز ترقی کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہیں، ایٹمی طاقت کےحامل روس کی تقسیم کاسبب بدترین اور بدحال معاشی حالات ہی تھے،لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ محض ایٹمی طاقت ہونا ہی نہیں، مضبوط معیشت، برابری کے اصول و ضوابط اور ٹھوس بنیادوں پرقائم سماجی ڈھانچہ ہی ملکی بقا و مضبوطی کا ضامن ہوتا ہے، جب کوئی ملک معاشی ناہمواریوں کا شکار ہوتا ہے اور امیر و غریب کےدرمیان فرق بڑھنے لگتا ہے تو اس کے دفاع اور سلامتی کے معاملات بھی بگڑتے ہیں جو بیرونی مداخلت کے اسباب پیدا بھی کرتے ہیں، اسی باعث پاکستان سمیت تیسرے درجے کے ملکوں میں امیر ملکوں کی سرکاری و غیرسرکاری اداروں کےذریعے ملکی و سماجی امور میں مداخلت اور قرضوں کے فریبی جال میں پھنسانے کی حکمت عملی ہمیشہ کامیاب رہتی ہے،مشہور مقولہ ہے"Hungry man is always an angry man"یعنی، بھوکا شخص ہمیشہ ناراض رہتاہے ۔
دوسروں کے سہارے جینے کے عادی ملکوں میں غربت کے مارے افراد بھی غیرملکی مداخلت کا شکار ہونے لگتے ہیں اور سرزمین کے سپوت ہی وطن دشمنی کا سبب بن جاتے ہیں، طاقتور ملکوں کی ہتھیاروں کے بغیر یہ حربی حکمت عملی"Fifth Generation Warfare" کہلاتی ہے۔
اس حکمت عملی کا استعمال اور حقیقت تب سامنے آتی ہے جب کرپٹ و نااہل قیادت اور معاشی ناہمواریاں عوام کو بےسہارا اور مجبور کردیتی ہیں، جہاں ایک طرف لیڈر کا کھانا ہیلی کاپٹر میں پہنچایا جاتا ہے، کتوں کو ایئرکنڈیشن ماحول میں تازہ خوراک بھی بیرون ملک سے منگوا کردی جاتی ہے جبکہ غریب کے پاس ایک وقت کھانا تو دور کی بات ماں کے علاج یا دوا کے لئے پیسے تک نہیں ہوتے، جہاں ملک کا سربراہ تو بنگلوں میں رہتا، قیمتی گاڑیوں میں شاہانہ ٹھاٹ بھاٹ میں گھومتا جبکہ عوام کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی، پھر انہی معاشی تضادات و ابتری کے شکار ملکوں میں جاسوسی کےنظام لگانا، دہشت گرد، تخریب کار، فرقہ وارانہ اور انتہاپسند گروپس بنانا، علاقائی تعصب پھیلانا اور لسانی تقسیم پیدا کرنا آسان ہو جاتا ہے، بڑےملکوں سمیت بھارت کی ایجنسیوں کی مداخلت اور کلبھوشن کے انکشافات نے ان عوامل کو سچ بھی ثابت کردیاہے۔ اسی لئے تو کہتےہیں کہ ’’بھوکے پیٹ جمہوریت پر یقین تو دور کی بات، خدا نہیں سوجھتا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ برسرروزگار، اپنا اور اپنوں کا پیٹ بھرنے والے کا ذہن تبدیل کرنا، خریدنا، ایجنٹ بنانا یا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔
1789ء میں فرانس میں انقلاب کا لاوا پک رہا تھا، ایک روز بادشاہ کے مشیر اس کے کتوں کے تازے گوشت کی خوراک سے لدے ریڑھے کو دھکیل رہے تھے، اچانک کئی دنوں سے بھوکی ایک بڑھیا آگے بڑھی اور کانپتے ہاتھوں سے اپنے حصے کا گوشت ’’چھیننے‘‘ کی کوشش کی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا، شاہ کے وفاداروں نے بوڑھی عورت کو دھکے دیئے تو بےروزگاری، تنگدستی اور مالی بدحالی کے مارے عوام شاہی پوشاک میں ملبوس وفاداروں پر پل پڑے، مجروح جذبات اور حالات کے جبر کے مارے غریبوں کے ہاتھ جو آیا دے مارا، تن من میں لگی بےبسی و بے توقیری کی آگ کا بدلہ لینے کے لئے عوامی سیلاب نے محل کا رخ کرلیا، بےبس بڑھیا پر تشدد کا واقعہ برسوں سے تذبذب کے شکار معاشرے میں 10سالہ انقلاب کا باضابطہ آغاز ثابت ہوا۔1799 میں نتیجہ خیز ثابت ہونے والے انقلاب فرانس کی سب سے اہم اوربنیادی وجہ امیر اور غریب کے درمیان دیوارِچین کے مصداق طویل فاصلہ اور فرق تھا، امیر امیر تر تھا اور غریب غریب تر، عام آدمی حکومت کے عائد کردہ بھاری ٹیکسز ادا کرنے پر مجبور تھا لیکن، بادشاہ، وزیر، مشیر اور وفاداروں سمیت پادری اور دیگر زعماء و معززین ٹیکس دینے کے روادار نہ تھے، پھر سرزمین فرانس کے حقیقی وارثوں نے یہ بھی کر دکھایا کہ سڑک پر گزرنے والوں کے ہاتھ چیک کئے جاتے تھے، محنت و مزدوری کے باعث جس ہاتھ پر نشان نہیں ہوتے اس شخص کو موقع پر جان سے مار دیا جاتا۔
وطن عزیز میں منتخب عوامی حکومت کے پانچویں تاریخی بجٹ کی ’’خوش خبری‘‘ نے معصوم عوام کو خوشی سے چکرا کر رکھ دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ حکومت کے عام آدمی کی زندگی سنوارنے کے انقلابی اقدامات کا شکریہ کیسے اور کن لفظوں میں ادا کریں، راقم نےبجٹ سے ایک روز پہلے پارلیمنٹ کی پرشکوہ عمارت کی تزئین و آرائش میں مصروف مزدوروں سے گفت گو کی اور پوچھا کہ بجٹ آرہا ہے آپ کی کیا توقعات ہیں؟ ایک مزدور کا جواب تھا کہ بجٹ کا نام تو ہرسال سنتےہیں لیکن ہمارے نام پر بنائے جانے والے بجٹ کا ہمیں تو آج تک فائدہ نہیں ہوا، کم سے کم اجرت کے 14 ہزار تک ہمیں نہیں دیئے جارہے، ہمارے گائوں گوٹھوں سےووٹ لے کر اس عمارت کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والوں نے تو کبھی مڑ کر ہمارا پوچھا تک نہیں، ہاں انہوں نے خود بہت ترقی اور کامیابی حاصل کی ہے کیونکہ یہ دن رات بہت ’’محنت‘‘ کرتے ہیں۔ ایک محنت کش مزدور زخمی ہاتھ دکھاتے ہوئے پھٹ پڑا، بولا..... اچھا برا وقت گزارا ہے، وزیراعظم صاحب کو سب معلوم ہےکہ ہم غریب کس حال میں ہیں؟ اگر انہیں ہمارا پتا ہی نہیں تو ہم ان سے توقع کیا کریں، پھر تو ان سے کوئی شکوہ یا مطالبہ بھی کیا کرنا؟چند روز پہلے وزارت داخلہ کے درجہ چہارم کےملازم نے اپنے پڑھے لکھے بیٹے کو نوکری نہ ملنے پر وزارت کی چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی، طاقتور وزیر صاحب کے افسران نے ملازم کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری ریٹائرمنٹ کےبعد بھی بچےکو نوکری کا کوئی چانس نہیں، ہاں اگر تم دوران ملازمت مرجائو تو شاید تمہارے بیٹے کو نوکری مل جائے، پس غریب کے پاس موت کو بروقت گلے لگانے کے سوا آپشن ہی کیا تھا، طاقتور وزیر صاحب کی جانب سے معاملے کا نوٹس لینے کا تو علم نہیں، تاہم ’’یتیم‘‘ کو ابھی تک نوکری نہیں ملی، ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ صدیوں سے غلامانہ ذہینت رکھنے والے حاکم امراء اس احساس سے ہی عاری ہیں کہ گھر کے سربراہ کا مرجانا، سہارا یا چھت چھن جانا ہی نہیں دنیا اجڑ جانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ایک طرف یہی خوشحال حکمراں بھاری قرضوں پر قائم ’’مضبوط معیشت‘‘ کے کھوکھلے نعروں سے ترقی و خوشحالی لانے کی باتیں کرتےہیں تو کوئی اعلیٰ نسل کے پالتو جانور کےساتھ محلات میں شاہانہ طرز زندگی گزارنے والا ملک میں تبدیلی لانے کا ہروقت راگ الاپتا ہے، یہی نہیں قربانیوں کےخراج اورجمہوریت کےنام پر پانچ سال تک حکمرانی کا ’’اندھادھند‘‘ مزہ لینے والے بھی پھر سے قوم کی’’حالت بدلنے‘‘ کے لئے کمر کس چکے ہیں۔ ان سب کے لئے سوچنے اور سمجھنے کا مقام تو یہ ہےکہ یہ تو معلوم کرلیں کہ کہیں محروم اور بےحال طبقہ تلخ لیکن حقیقی لوازمات کے ساتھ کسی انقلاب کے لئے تیار تو نہیں کھڑا؟ معاشی و سماجی انحطاط کےسبب آنے روز ہونے والے سنگین واقعات صورت حال کو مزید گمبھیر بناکر کسی نئی صورت حال کا پیش خیمہ تو نہیں بننے جارہے؟ کہیں ہمارا معاشرہ بھی ایک بوڑھی عورت کے ساتھ سرعام شاہ کے وفاداروں کے ’’حسن سلوک‘‘ کے کسی غیرمعمولی واقعہ کا منتظر تو نہیں؟ اگر وفاق اور صوبوں میں اقتدار کا نشہ ابھی نہیں ٹوٹا اور اب بھی صورت حال کی سنگینی کا ادراک نہیں ہوا، سڑکوں، پلوں اور توانائی کےمنصوبے مثبت اقدامات کےدعوئوں کے باوجود تعلیمی ادارے، اسپتال بنانا، روزگار دینا ابھی اولین ترجیح نہیں بنا، شاہانہ طرز زندگی ترک کرکے برابری کی بنیاد پر عوام کے معاشی حالات ٹھیک کرنے کی امنگ ابھی تک نہیں جاگی تو پھر انتظار کیجئے حالات کی تبدیلی کے لئے عوام کے اٹھ کھڑے ہونے کا، یاد رکھئے، معاشی مسائل کے شکار ملک میں معاشی ناہمواری ہو تو قابل برداشت ہوتی ہے لیکن امیر اور غریب کا توازن بگڑ جائے تو پھرحالات ناقابل گرفت ہوجاتے ہیں، اقوام غریب ضرور ہوجاتی ہیں لیکن غیرت مند اور باضمیر ہونا انہیں ہمیشہ قائم و دائم رکھتا ہے۔



.
تازہ ترین