• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹرپتھریلی ٹیبل پر اس کے جسم کا پوسٹ مارٹم کررہےتھے اور اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ کہیں اس کے جسم پر کوئی ایسی گولی یا آہنی ضرب کا نشان تو نہیں ، کہیں اس کے معدے میں زہریلی چیز کے اثرات تو نہیں، ڈاکٹر اپنی رپورٹ مرتب کررہے تھے لیکن وہ اس شخص کے رکے ہوئے دل کو نہیں پڑھ سکتےتھے کہ اس شخص کی لاش کا اصل دکھ اس کے دل پر تحریر تھا۔۔۔۔!
دنیامیں جس نے بھی آناہے ایک روز جاناہے ، ہمارے اردگرد روزانہ حادثات یا دہشت گردی کے کئی واقعات ہوجاتے ہیں اور درجنوں جہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں لیکن کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں جو ان لوگوں کے آنسو بھی رواں کرجاتی ہیں جن کا اس سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا لیکن اس کی موت کا دکھ دلوں کو چیر کررکھ دیتا ہے ۔ میرے دل پر پوری دنیا کی طرح آج بھی نقش ہے کہ جب ایک معصوم سے شامی بچے کی لاش اوندھے منہ سمندر کے ساحل پر پڑی تھی اس کی سرخ شرٹ اور نیلی نکر سے جھانکتا ہوا معصوم جسم دلوںپر قیامت ڈھا رہا تھا اور نہ جانے اس ڈوبتے ہوئے بچے نے کتنی بار اپنے باپ اور ماں کو امی امی اور ابا ابا کہہ کر پکارا ہوگا کہ مجھے بچا لو اور اس بچے کے والدین بے بس ہوںگے ، مجھے کراچی کی اس فیکٹری کی آگ بھی یاد ہے جب دہشت گردظالموں نے بھتہ نہ ملنےپر پوری فیکٹری کو مقفل کرتےہوئے اس پر کیمیکل پھینک کر اسے آگ لگا دی اور اس فیکٹری میں ماؤںکے محنت کش جوان، معصوم بچوں کی روٹی روزی چلانے والے والد اور اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ محنت مزدوری کرنے والی خواتین جل کر بھسم ہوگئیں۔آگ لگی اور دھواں بھری اس فیکٹری میں واسطے دیتے اور بھاگتے پھرتے انسانی جسم رفتہ رفتہ آگ کے بے رحم شعلوں کی نذر ہوتے رہے ، کھڑکیوں کی انگارہ بنی آہنی سلاخیں ان کے ہاتھوں کی کھا ل کھینچ کھینچ کر ان کی انگلیوں اور ہتھیلیوں کی ہڈیوں کو ننگا کرتی رہیں لیکن تقریباًتین سو افراد بھتے کی آگ کے سامنے جانیں ہار گئے۔مجھے کراچی کی سترہ سالہ اس بچی کی موت بھی یادہے جسے اسکے سگے بھائی نے اسے دروازے میں کھڑے ہونے کی جرم کی پاداش میں چھری کے وار کرکے مو ت کا مسا فر بنا دیا، اہل محلہ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے اس کے خون آلود اور تڑپتے جسم پر چادر تو ضرور اوڑھا دی لیکن موبائل فون سے اس تڑپتی لاش کی ویڈیو بھی بناڈالی ، ویڈیو میں اس بچی کی درد اور کرب سے بھینچتی مٹھیاں اس کی تکلیف کو بیان کررہی تھیں، آج بھی وہ کرب اور تکلیف میرے ذہن پر نقش ہے ۔ لیکن سرکاری اسپتال میں پو سٹ مارٹم کےلیے لائے جانے والے اقبال کی موت نے عجیب طرح سے دل کو زخمی کردیا ہے ، نفسا نفسی کے اس عالم میں اقبال کی موت پوری قوم کو جھنجھوڑنے ، خاص طورپر حکمرانوں کو سوچنے اور اپنے چہرے نوچنے کےلیے کافی ہے کہ ایک والد جسکی ریٹائرمنٹ قریب ہےنے وزارت داخلہ میں اپنے افسر کو جاکر کہاکہ میرےبیٹے کو نوکری دیدو تاکہ روزگار بھی مل جائےاور وہ جس سرکاری کوارٹر میں رہتا ہے وہ اس کی فیملی کےلیے چھت کاسہارا بھی بنا رہے ، اس کے بیوی بچے دردر کی ٹھوکریں نہ کھاتےرہیں لیکن افسر نےاسے اچھے الفاظ کے چنائوکے ساتھ سمجھانے کی بجائے حقائق پر مبنی یہ ننگے الفاظ بیان کردیئے کہ نوکری اس سرکاری ملازم کے بچے کو مل سکتی ہے جس کا والد دوران ملازمت کسی حادثےمیں موت کا شکارہوجائے ۔ اپنے بیٹے کو روزگار دلانے اور اپنے خاندان کو زیادہ عرصہ تک سرکاری مکان کی اوٹ میں بسائے رکھنے کےلیے اقبال نے حساب کتاب لگایا تو اسے یہ سودا مہنگا نہ لگا وہ روزانہ بڑےبڑے احکامات نکالنے اور کروڑوں بلکہ اربوںکے فنڈزکے اخراجات کرنے والی وزارتوں کی عمارت کی چھت پر گیا اس نے سخت گرمی میں نیچے تپتے ہوئے فرش کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ وہ جب اس فرش پر گرے گا تو اس کے بیٹے کو ضرور سرکاری ملازمت مل جائیگی کیونکہ وہ کسی بااثر کی اولاد کی طرح اپنے بیٹے کو کسی بھی وزارت میں مشیر، کنسلٹنٹ یا انٹر نی لگا کر وظیفہ یا مراعات حاصل نہیں کرسکتا ،اس کے پاس صرف زندگی کا ایک کھوٹا سکہ ہے جس کی آج دام لگ گئے ہیں تو کیوں نہ اسے کیش کرالوں ورنہ غربت کی وجہ سے کھانس کھانس کر مرنے کا مجھے کیا ملے گااور پھر اس نے بلند سرکاری عمارت سے چھلانگ لگا کر اپنے بیٹے اور خاندان کےلیے جان دیدی، سرکاری فائلوں اور قوانین میں نہ جانے اس کی موت کو حادثہ تصور کرکے اس کے بیٹے کو ملازمت اور خاندان کو چھت کے دام دیئے جاتے ہیںیا نہیں لیکن اقبال نے اس کھرے سودے کے دام ادا کردیئے ہیں۔زند گی کے ایسے سو دا گر نہ پہلے سنے اور نہ دیکھے۔


.
تازہ ترین