• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا حالیہ بجٹ لفظ ’’ اُمید ‘‘ کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے ۔غریبوں کی اُمید پر پانی اور امیروں کی اُمیدپوری ہونا جیسے لوازمات بجٹ کا مخصوص حصہ ہیں۔ بجٹ رمضان کی آمد کے قریب سنایا گیا ہے اسی لئے حکومت پاکستان نے غریبوں کے لئے رمضان پیکج کا خصوصی اعلان کیا ہے جس کے لئے 1.6بلین روپے مختص کئے گئے ہیں، 260ملین آبادی کے تناسب سے 28دنوں میں ایک پاکستانی کو مبلغ 7روپے ملیں گے یعنی ہر دن کے حساب سے 0.3پیسے، اِس وقت پاکستان میں ایک سموسے کی قیمت 15روپے ہے لہٰذا اِس حساب سے ایک پاکستانی فرد حکومت کے دیئے گئے پیکج سے پورے رمضان میں آدھا سموسہ خرید سکتا ہے، اب آدھا سموسہ کہیں بنتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے اِس لئے غریب پاکستانی کسی دوست کے ساتھ شراکت داری کرکے پورا سموسہ ضرور خرید سکتا ہے اور پھر دونوں حصہ دار اُس سموسے کو آدھا آدھا کھا کر ’’ انجوائے ‘‘ کر سکتے ہیں ۔یہ ہوگیا غریبوں کی اُمید پر پانی پھرنا ،اب چلتے ہیں امیروں کی طرف جہاں ایک ہی مثال دی جا سکتی ہے اور وہ ہے صدر پاکستان کی تنخواہ میں 6لاکھ روپے کا اضافہ کیا جانا، اب یہ تنخواہ دس لاکھ سے بڑھ کر 16لاکھ روپے ہو گئی ہے ۔بجٹ دستاویزات کے مطابق صدر پاکستان کی جانب سے تحائف اور دیگر تفریح کے لئے مختص رقم میں 3لاکھ کا اضافہ کیا گیا ہے ،یہ رقم بارہ لاکھ سے بڑھا کر 15لاکھ کر دی گئی ہے ،صوابدیدی فنڈز کے لئے دس لاکھ رکھے گئے ہیں ،ایوان صدر کے لئے 95کروڑ چھیانوے لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جس میںسے ایوان صدر کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے 65کروڑ 33لاکھ روپے رکھے گئے ہیں ،اگلے مالی سال کے بجٹ میں ایوان صدر کے باغ باغیچوں کی دیکھ بھال کے لئے 4کروڑ 13لاکھ، ایوان صدر کی گاڑیوں کے لئے 3کروڑ 97لاکھ، ڈسپنسری کے لئے 2کروڑ 12لاکھ اور صدر کے دوروں کے لئے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ایک کروڑ 32لاکھ روپے رکھے گئے ہیں ۔ہمیں یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے محلے میں کبھی کبھار ایک آواز آتی تھی ’’ کڑیو منڈیو چیز ونڈی دی لے جاؤ ‘‘ ( لڑکو اور لڑکیو کوئی چیز بانٹی جا رہی ہے لے جائیں ) ہم اُس سمت کو بھاگ پڑتے جس گھر سے یہ آواز آتی تھی ۔وہاں پہنچ کر اپنے حصے کی چیز لینے کے بعد فوراً کہنا ’’ میرے بھائی کا حصہ ‘‘ بھی مجھے دے دیں ۔کچھ کے بھائی ہوتے تھے اور کچھ ایسے ہی چیز کی مقدار بڑھانے کے لئے بھائی کے حصے کا ڈرامہ کر لیتے تھے۔ چیز بانٹنے والے بھی کتنے سادہ اور صاف دل ہوا کرتے تھے، انہوں نے نہ تو بھائی کو دیکھنا، نہ تصدیق کرنی کہ بھائی ہے بھی یا نہیں، بس کہنے والے کو ایک فرد کا مزیدحصہ دے دینا ،آج جب صدر پاکستان کو ملنے والی مراعات اور ان کے دوروں کے لئے حالیہ بجٹ میں مختص کی گئی رقم کا پڑھا تو فوراً ہمارا دھیان محلے میں چیزیں بانٹنے والے سادہ دل لوگوں کی طرف چلا گیا۔ پاکستان میں صدر مملکت اور صوبوں کے گورنرز آئینی عہدے ہیںلیکن آئین کے تحت ملنے والے ان کے اختیارات کہاں ہیں وہ کسی کو معلوم نہیں ۔سلیمانی ٹوپی کے بارے میں کہانیاں مشہور ہیں کہ جو بھی وہ پہن لیتا وہ کسی کو نظر نہیں آتا تھا، ہم اس بات کو کہانیوں تک ہی محدود سمجھتے تھے، اگر دیکھا جائے تو سلیمانی ٹوپی صرف کہانیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آج بھی موجود ہے یہ ٹوپی دوشخصیات بکثرت استعمال کرتی ہیں، ایک صدر مملکت اور دوسرے اوورسیز منسٹر کیونکہ دونوں ہی کسی کو نظر نہیں آتے ۔تارکین وطن پاکستانی تو اپنے متعلقہ وزیر کا نام تک نہیں جانتے لیکن دونوں شخصیات کو تنخواہیں اور مراعات مسلسل دی جا رہی ہیں ۔بجٹ پیش کرنے والے بھی شاید گلیوں اور محلوں میںچیزیں بانٹنے والے وہی سادہ دل لوگ ہیں جو بغیر تصدیق کئے چیزیں بانٹ رہے ہیں ۔غربت مٹانے تک تو ٹھیک ہے لیکن غریب مٹانے کے عزم سے پاک بجٹ کب پیش ہوگا؟ اِس کا انتظارصرف پاکستان میں مقیم افراد کو ہی نہیںبلکہ دنیا بھر میں آباد تارکین وطن پاکستانیوں کو بھی ہے ۔یورپی ممالک میں پیش ہونے والے بجٹ میں تعلیم کے فروغ کے لئے خطیر رقم رکھی جاتی ہے، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک جانتے ہیں کہ تعلیم کے حصول میں ہی اقوام کی ترقی کا راز پنہاں ہوتا ہے ،تعلیم شعور پیدا کرتی ہے اور شعور انسان کو اچھے بُرے کی تمیز سکھاتا ہے، ہماری حکومتیں کیوں نہیں چاہتیں کہ پاکستانی عوام میں شعورپیدا ہو ؟ شاید اِس لئے کہ عوام کو شعور آگیا توکہیں وہ اپنے لئے بہتر حکومتی نمائندے منتخب نہ کر لیں، مالی سال 2017-18 کے لئے پیش کیا جانے والا پاکستان کا بجٹ 53 کھرب 10ارب روپے کاہے لیکن تعلیم کے فروغ کے لئے انتہائی کم رقم رکھی گئی ہے۔ حالانکہ تعلیم کے حوالے سے فرمان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے، ہماری حکومت نے تعلیم کے لئے حالیہ بجٹ میں کم رقم شاید اس لئے رکھی ہے کہ انہوں نے چین والوں کو ہی پاکستان میں بلا لیا ہے تاکہ پاکستانیوں کو علم حاصل کرنے کے لئے اتنی دور نہ جانا پڑے ۔کسی گاؤں میں ایک شخص بے ہوش ہوگیا، اُس گاؤں کے حکیم نے بے ہوش شخص کی نبض چیک کی اور کہا کہ یہفوت ہو گیا ہے، حکیم کی بات کو حرفِ آخر سمجھ لیا گیا، بے ہوش شخص کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد میت کو تدفین کے لئے قبرستان کی جانب لے جایا جارہا تھا کہ کچھ ہی فاصلے پر کفن میں لپٹے شخص کو ہوش آگیا، وہ چیخ کر بولا مجھے کہاں لے جا رہے ہو، بھائیومیں زندہ ہوں، مجھے چارپائی سے نیچے اتارو، جنازے میں شامل ایک بزرگ نے تحکمانہ انداز میں اُس ہوش میں آ جانے والے شخص کو کہا آرام سے لیٹے رہو، تم گاؤں کے حکیم سے زیادہ ’’سیانے‘‘ نہیں ہو ۔



.
تازہ ترین