• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1980ء کی دہائی کی نعرہ بازی یاد ہوگی جب افغانستان میں نام نہادجہاداپنی جولانی پر تھا اور پاکستانی ریاست دنیا کے آخری جنگی محاذ پر اشتراکیت کو نیست و نابو د کرنے کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں صف ِ اوّل کا کردار ادا کررہی تھی ؟ امریکہ اور مشرق ِ وسطیٰ کے حکمرانوں کے ساتھ وابستگی اور الائنس قائم کرنے اور اس جنگ میں ہمارے تزویراتی کردار کی بابت ارزاں کردہ وضاحتیں بھی یاد داشت کا حصہ ہوں گی؟ خیر وہ ہنگامہ خیز دور انگڑائی لے کر بیدار تو نہیں ہورہا، لیکن ہم ایک اور عالمی مہم کا حصہ بنتے ہوئے اُسے جزوی طور پر دوبارہ زندہ کرنے جارہے ہیں۔ اُس وقت وہ جنگ روسیوں کے خلاف لڑی گئی تھی، آج مد ِ مقابل ایرانی ہیں۔ الائنس کے ساختی اجزا وہی ہیں، ریاض اور واشنگٹن۔ صرف ہدف تبدیل ہوا ہے۔
جہاں تک تزویراتی عناد کا تعلق تو ریاض کانفرنس نے تمام مغالطہ دور کردیا۔ کئی صدیوں سے مختلف ممالک میں مختلف اشکال میں لڑی جانے والی اس جنگ میںعربوںنے ایرانیوں پر فیصلہ کن ضرب لگانے کی تیاری کر لی ہے۔ دوسری طرف ایرانی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔ وہ بھی معقول رویوں اورقواعد وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی صورت ِحال پیدا کرنے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں جس میں اُس کے خلاف کارروائی کرنے کی سعودیوں اور اُن کے عرب اور غیر عرب اتحادیوں کو بھاری، بلکہ ناقابل ِ قبول قیمت چکانی پڑے۔ اور ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب مسلکی تفریق کی لکیر عرب دنیا کو تقسیم کر تے ہوئے ایران مخالف ریاستوں کے داخلی استحکام کو سبوتاژ کر دے۔ اگر جنگ شروع ہو گئی تو عرب حریفوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تہران اپنے توشہ خانے میں کافی فوجی اور مسلکی اسلحہ رکھتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے والی فالٹ لائن سے 1980ء کی دہائی کی بازگشت سنائی نہ دیتی (سرد جنگ کا دوسرا مرحلہ درحقیقت دوسری جنگِ عظیم کے المناک اختتام کے بعد شروع ہوا تھا) اگر اس مسابقت میں ٹرمپ کا امریکہ ایک فریق کے ساتھ کھڑا نہ ہوجاتا۔ ریاض اور ایران کے درمیان مخاصمت بہرحال کوئی خبر نہیں ہے، یہ عوامی گفتگو اور بیانات کا حصہ تھی، جیسا کہ سعودی شاہ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں ایران کو عالمی دہشت گردی کا سرخیل قرار دیا۔یہ تنائو خفیہ بات چیت اور مذاکرات کا بھی حصہ رہا ہے، جیسا کہ سب نے اس کے بارے میں وکی لیکس کے ذریعے پڑھا۔ تاہم طویل عرصے سے سلگنے والی اس علاقائی رقابت کو جس چیز نے عالمی شکل اختیار کرنے سے روکے رکھاوہ واشنگٹن کی اس منظر نامے سے غیر موجودگی تھی۔ تاہم ٹرمپ کی آمدنے تمام صورت ِحال کو تبدیل کرتے ہوئے ایک علاقائی تنائو کو ایک بھرپور عالمی جنگ کی شکل اختیار کرنے کے لئے درکار لوازمات مہیا کردئیے ہیں۔
ریاض کانفرنس نے ایران کو کھل کر ہدف نہیں بنایا لیکن اس کے اہم شرکاء کے ارادے واضح تھے۔ اس کانفرنس کے طاقتور ارکان اور ان کے واشنگٹن میں موجود دوست ایران کو تنہائی سے دوچار کرنا اور اس کا عالمی اثر کم کرنا چاہیں گے۔ اس کوشش کا آغاز مشرق ِوسطیٰ سے کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے وہ طاقت چھین لیںگے جس کے ذریعے وہ مسلکی جذبات سے کھیلتے ہوئے عرب دنیا کی حکمران اشرافیہ کے خلاف شورش کی آگ دہکا سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ خارجہ پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خوفناک داخلی مسائل سے توجہ بٹانے اور امریکہ کو ایک بار پھر ایک عظیم قوم ثابت کرنے کا موقع حاصل کرنے پر خوشی سے شادیانے بجا رہی ہوگی۔ اگر اس عمل کے دوران جنگ میں کودنے کی تیار ی کرنے والے ممالک کے ساتھ اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی ڈیل طے پاجاتی ہے، اور اس کے ذریعے اسلحہ ساز صنعت کو فروغ ملتا ہے تو اس سے اچھی کیا خبر ہوسکتی ہے ؟اس کے بغیر ٹرمپ انتظامیہ ’’ملازمتوں کی امریکہ میں واپسی‘‘ کے وعدے کو کس طرح ایفا کرسکتی ہے ؟ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو 1950ء اور 1980ء کی دہائیوں کی طرح ایک بار پھرصف ِاوّل کا اسٹیٹس حاصل کرنے اور ’’دنیا کے تحفظ‘‘ کی ذمہ داری اٹھانے کے دعوے کے ساتھ ہم عقل و دانائی کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال چکے ہیں۔
ہمارے کانوں میں وضاحت کا گھولا جانے والا رس یہ ہے کہ ہم عرب اور اسلامی دنیا اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف قائم ہونے والے انتہائی ضروری اور پرعزم عالمی الائنس کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔ ایک ملک جس کی مسلح افواج اس کے اپنے طول وعرض میں دہشت گردی کے خلاف لڑرہی ہوں،وہ سرحدوں سے ماورا، عالمی دہشت گردی کے خلاف کسی نئی مہم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔عرب اور عجم کے درمیان عالمی جنگ کی شکل اختیار کرنے والی اس مسابقت میں ایک کھلاڑی کا کردار ادا کرنے کی ضرورت کی وضاحت کرنے والے سرکاری جواز کا بودا پن ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم نے پرائی آگ میں کودناہو تو تاریخی طور پر غلط بیانی سے کام لینے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
سیٹو اور سینٹو میں شمولیت افغان جہاد میں کودنے سے مختلف نہ تھی۔ افغان جہاد بھی مشرف دور میں بش کی گمراہ کن جنگوں، جنہوں نے واشنگٹن کو اسلامی ممالک پر حملہ کرنے کا جواز فراہم کیا، سے مختلف نہ تھا۔ان تینوں کیسز میں ہم ’’دنیا کو بچانے ‘‘ کے گمراہ کن التباس کا شکار ہوگئے، یا ہمیں یہ پرفریب زعم ہوگیا کہ دنیا ہمارے بغیر اس جنگ کو نہیں جیت سکتی۔ ایک مرتبہ پھر ہم اسی سراب کا شکار ہوگئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارا لہجہ دھیما تھا۔ تاہم ریاض اعلامیے پر دستخط کرنے کے بعد ہم ایک مرتبہ پھر اُسی فکری دھند میں کھو گئے ہیں جس کی بھول بھلیاں ہمارے لئے اجنبی نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم ایسے کثیر ملکی الائنس میں شریک ہوگئے ہیں جس کے اعلانیہ مقاصد اس کے اصل اہداف سے بہت مختلف ہیں۔ سردجنگ روسیوں کے خلاف تھی، افغان جہاد روسیوں کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ واشنگٹن کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار بن گئی جس کے ذریعے وہ دنیا کا نظام تہہ وبالا کرتے ہوئے عالمی نقشے تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
ریاض اعلامیے میں ایسے ہی بلند وبالا دعوے کیے گئے ہیںجن کی باز گشت پہلے ہی ہمارے کانوں میں موجود تھی : ’’علاقائی اور عالمی سطح پردہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے اور امن اور استحکام اور ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسلامی ممالک اور عرب رہنمائوں اور امریکی قیادت کی شراکت داری ‘‘۔ ’’ تعلقات کو مضبوط کرنے اور مشترکہ کاوش کو استحکام بخشنے کے لئے رہنمائوں نے تعاون کے ذرائع اور امکانات کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ نیز اُنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایک طرف عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان تعاون جاری رہے گا، اور دوسری طرف امریکہ کے ساتھ باہمی دلچسپی کے معاملات پر تعاون اور ترقی کے امکانات کو فروغ دیا جائے گا۔ ’’جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ عرب اور اسلامی دنیا کی تعاون اور تعلقات بڑھانے اور دیگر معاملات کے علاوہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کی خواہش کا خیر مقدم کرتا ہے‘‘۔
سرد جنگ یا بش دور کے کسی بھی اعلامیے کے الفاظ اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔ تو یہ رہے ہم، ایک مرتبہ پھر دیگر ممالک کے اہداف کے حصول کے لئے ماضی کو دہرانے جارہے ہیں، اور ایک مرتبہ پھر ہمیں اس کوشش کی ادا کی جانے والی قیمت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے مغربی الائنس میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے کسی سے رائے نہیں لی تھی، جنرل ضیا نے ماسکو کے خلاف واشنگٹن کے میدانِ جنگ میں کودنے سے پہلے کوئی ریفرنڈم نہیں کرایا تھا، جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد کلائنٹ لیڈر کا کردار ادا کرنے سے پہلے واشنگٹن کے کا غذات کو ٹھیک طریقے سے نہیں پڑھا تھا، اسی طرح جنرل راحیل شریف نے بھی مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی جنگ میں ملک کو جھونکنے سے پہلے کسی سے بات نہیں کی۔
ماضی کی ہر مثال ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی پاکستان نے کسی الائنس میں شمولیت اختیار کی تو اس کے اعلانیہ مقاصد اور اصل اہداف میں وسیع تفاوت پایا گیا۔ ہر موقع پر پاکستان کو اربابِ اقتدار کی بے بصری کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ دیگر ممالک کامیاب ہوئے جب کہ ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس مرتبہ کیا نتیجہ مختلف ہو گا؟ کیا راحیل شریف کے تہران اور ریاض کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کے دعوے پر ہنسیں یا روئیں؟ جو بھی کرلیں، ہمیں غیر معمولی حد تک خطرناک وقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔



.
تازہ ترین