• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’میں ان قدیم دریائوں کو جانتا ہوں
قدیم اتنے جتنی یہ دنیا
جتنا پرانا انسانی رگوں میں دوڑتا ہوا لہو
ان دریائوں نے میری روح کو گہرائی بخشی ہے
میں نے فرات میں غسل لیا جب ابھی صبحیں جواں تھیں
میں نے دریائے کانگو کے پاس کٹیا کھڑی کی اور اس نے مجھے تھپکی دیکر سلادیا
میں نےدریائے نیل پر نظر ڈالی اور اسکے اوپر اہرامین کھڑے کیے
میں نے دریائے مِسی سپی کو اس وقت گاتے سنا جب ابراہام لنکن نیو اورلینس گیا
تو میں نے اس دریا کی مٹیالی چھاتی کو سورج ڈھلتے وقت سونہرا روپ بدلتے دیکھا
میں دریائوں کو جانتا ہوں ‘‘
یہ نظم لینگسٹن ہیوز کی ہے۔ کالےآدمی کی دریا کی کتھا نظم ہے یا سرشام مسی سپی کے روتے ہنستے پانی! سورج ڈھلتے نیواورلینز مین جاز کی ابھرتی ڈوبتی دُھنیں ہیں ایسی نظم۔
بیسویں صدی کے اس عظیم امریکی شاعر اور انیس سو بیس کی دہائی کی بلیک رینے سانسRenaissance یا کالی نشاط ثانیہ جو امریکہ کی ایک اہم ثقافتی، ادبی، سیاسی اور سماجی شعور کا اہم تاریخی سنگ میل تھی جس کی اٹھان نیویارک کے ہارلیم سے ہوئی۔ ہارلیم نیویارک میں ایسا تھا جیسے کراچی میں لیاری۔ دونوں اپنے اپنے بڑے شہروں کی رینےسانس کے مراکز۔ لیکن ہمیں صرف ہارلیم اور لیاری کی گینگز یاد رہ گئیں۔ لیاری کی ادبی اور تہذیبی نشاط ثانیہ میں ایک نام اردو زبان کی بہترین شاعری میں نون میم دانش کا بھی ہے۔
لیکن یہاں بات سنہ انیس سو دو کے امریکہ کی ریاست میزوری میں جنم لینے والے امریکی شاعری کے نون میم دانش یعنی لینگسٹن ہیوز اور اسکی شاعری کی ہو رہی ہے۔ وہ جو انیس سو سڑسٹھ میں فوت ہوا۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی کا امریکہ ایک اور انقلاب کا زمانہ تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی شہری حقوق کی تحریک اور جنگ ویتنام مخالف زبردست تحریک۔ ایلن گنسبرگ اور اسکے ساتھیوں کی امریکی ادب اور کلچر سب کلچر میں بیٹ جنریشن تحریک۔ ہپی ازم۔
ہم لوگ جو امریکہ اپنے اپنے تعصبات لیکر پہنچے ہیں نفرت کی حد تک تعصبات۔ سندھی سے، پنجابی سے، مہاجر سے، پختون سے، شیعہ سے، سنی سے، آزاد خیال عورت سے، آزاد خیال مرد سے، مذہبی شخص سے، دہریے سے، سیکولر لوگوں سے( کہ سیکولر کا مطلب ہم میں سے بہت سے لادین ہی لیتے ہیں)، بھٹو سے، بینظیر سے، امریکہ سے اگرچہ ہم سب امریکہ بھی آنا چاہتے ہیں، چاہتے تھے۔ بچپن سے پڑھایا گیا۔ حالانکہ ہم نے بمشکل ہندو بھی اپنے دیس کا دیکھا ہو۔ اگر یہ ہماری اپنی دھرتی اور دریائوں کا قدیم اور ہزاروں سال پرانا جم پل (ہندو) دیکھا بھی تو تعصب کی نظر سے، گویا یہ ہمارا ہم وطن ہندو بھائی نہ ہو ہندوستان کا ایٹم بم ہو!
پھر جب ہم ان موقعوں اور آزادیوں کے ملک کی سرزمین پر بالکل باعزت طریقے سے جہاز پر بلکہ ’’جہازاں والیا ماہیا‘‘ بن کر قانونی طریقے سے ویزہ لگوا کر پہنچے سوٹ بوٹ پہنے راجو بن گیا جنٹلمین کی طرح تو اب ان ہمارے پرانے تعصبات میں ایک نیا اضافہ اور ہوا امریکہ میں آ کر اور وہ ہوا کالے آدمی سے نفرت۔ ’’کیا آپ کے علاقے میں کالے ہیں؟‘‘ ’’نہیں۔ جی نہیں۔ سب گورے رہتے ہیں جہاں ہم رہتے ہیں۔‘‘ کیونکہ ہم تو اس دیس میں آئے ہی خود کو یا اپنی اولاد کو ’’سفید فام کا سفید فام تر‘‘ بنانے۔ یہ ہمارا غائبستان سے ٹرمپستان کا سفر ہے۔ کیونکہ ہم تو اس مملکت خداداد سے آئے ہیں (جس کو گویا حاصل کرنے میں ہماری اپنی کوئی صلاحیت نہیں تھی) تو ہم اس مملکت خداداد سے یہاں پہنچے جہاں ’’کالے نوں گورا کرے تے گورے نوں چن ورگا‘‘ اشتہار چھپتا تھا اور یہاں امریکہ کے اردو ہفت روزہ اخبارات میں اب بھی اپنے بچوں اور بچیوں کے ضرورت رشتہ میں ’’رنگت گوری‘‘ چاہتے ہیں۔
لیکن ان سب کو جلا ہارلیم اور امریکہ کے اس پوئٹ لارئٹ جیسوں نے بخشی۔
لینگسٹن ہیوز کی نظم۔ نائٹ فیونرل ان ہارلیم یا ’’شب ہارلیم میں جنازہ‘‘ کچھ اس طرح جاتی ہے جیسے میں نے کہا مِسّی سپی کے پانی رات میں روتے ہیں:
شب ہارلیم میں جنازہ
کس نے ان کو یہ دو عمدہ کاریں دلائیں
او بیمے والے، اس نے اپنی زندگی کا بیمہ ادا نہیں کیا جس کی آخری تاریخ اس دن گزر گئی
لیکن اس کے سر کو لٹا نے کو
انہوں نے اس کے لئے ساٹن والی صندوق خریدی
شب ہارلیم میں جنازہ
پھولوں کی چادر کس نے بھیجی؟
یہ پھول اس غریب لڑکے کے دوستوں نے بھیجے
انکو بھی پھول چاہئے ہوتے ہیں جب وہ اپنی اخیر سے ملتے ہیں
ہارلیم میں رات کو جنازہ
اس کالے لڑکے کی قبر میں اتارتے
اسکی بخشش کس نے پڑھی؟
بوڑھے مبلغ نے
جس کے
پانچ ڈالر اس کی گرل فرینڈ کو ادا کرنے پڑے
ہارلیم کی شب جنازہ
اور جب یہ سب ہو چکا
اور بکسے کے ڈھکنے سے اس کا سر بند کر دیا گیا
اور ساز بجا دیا گیا
اور چھ تابوت بردار اس کو قبرستان اٹھا کر چلے
تو لینوکس ایوینیو کی طرف
اور اس لمبی کالی گاڑی نے رفتار پکڑی
اس کی گلی کے نکڑ پر اسٹریٹ لائٹ
ایک آنسو کی طرح جگمگانے لگی
اور وہ لڑکا جس کے لئے ماتم کیا جا رہا تھا
وہ ان کو اتنا پیارا تھا
اتنا پیارا
کہ وہ لوگ جو پھول لائے
وہ لڑکی کہ جس نے مبلغ کو پیسے ادا کئے
یہ ان ہی لوگوں کے آنسو تو تھے
جنہوں نے اس غریب لڑکے کے جنازے کو عظیم الشان بنا دیا۔
شب ہارلیم میں جنازہ
(لینگسٹن ہیوز، ترجمہ:حسن مجتبیٰ)
تو پس عزیزو! زندگی کا مسرت آمیز یا غم انگیز اوپیرا اپولو تھیٹر پر چلتا رہے گا۔ مجھے شب ہارلیم میں جنازہ پر بھٹو اور نذیر عباسی کے جنازے یاد آئے۔ پاپرس فیونرلس۔ ہارلیم گیا اور لیاری یاد آیا۔ جہاٖں لوگ بھٹوئوں کی موت پر بھی روتے ہیں تو ورلڈ فٹبال میں ارجنٹینا کے ہارنے پر بھی۔ لیاری جہاں کے گینگسٹر عزیر بلوچ کا پاکستان کے قومی راز فاش کرنے کے الزام میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوتا ہے اور دہشت گرد طالبان کا ترجمان احسان اللہ احسان اعزاز کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔



.
تازہ ترین