• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نتائج کی پرواکئے بغیر آئینی اور قانونی نکات پر بے لاگ تبصرہ کرنے میں مشہور ہیں۔ عام طور پر ان کے خیالات شریفوں کے خلاف ہی رہے ہیں تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے دو ممبران جن پر شریف فیملی نے سخت اعتراضات کئے ہیں کو فوراً خود ہی اس تحقیقات سے الگ ہو جانا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی فریق کسی پراسیکیوٹر، جج یا تفتیش کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس مقدمے سے خود ہی علیحدہ ہو جاتا ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں اور یہی باعزت طریقہ ہے۔ عرفان قادر نے ایک اصول کی بات کی ہے جس پر عام طور پر عمل کیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی جج جس پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا جائے مقدمے سے الگ نہ ہونے کا فیصلہ کرے تو کوئی بھی فریق کچھ نہیں کرسکتا۔ تاہم کسی پراسیکیوٹر کو ہٹانا انتظامیہ کا کام ہوتا ہے جبکہ موجودہ جے آئی ٹی ایگزیکٹو کی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ نے اسے تشکیل دیا ہے اور وہی فیصلہ کرسکتی ہے کہ کس ممبر کو اس میں رہنا ہے اور کس کو نہیں مگر پھر بھی کوئی ممبر خود تو اسے چھوڑنے کا فیصلہ کرسکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ اسے ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ عامر عزیز اور بلال رسول ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ اس کمیٹی میں ہر صورت رہیں گے چاہے ان کے بارے میں جو بھی اعتراضات کئے جاتے رہیں۔ کچھ روز قبل عدالت عظمیٰ کے اسپیشل بنچ نے حسین نواز کی یہ درخواست مسترد کر دی کہ یہ دونوں افسران ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور وہ ان سے کسی غیر جانبدارانہ انکوائری کی توقع نہیں کرتے۔ ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وزیراعظم نوازشریف کے چچا زاد طارق شفیع کو بھی کمیٹی کے ایک ممبر نے سوال وجواب کے دوران دھمکی دی تھی کہ وہ اپنا حلف نامہ جو انہوں نے پہلے عدالت عظمیٰ میں جمع کرایا تھا واپس لے لیں اور اگر ایسا نہ کیا تو وزیراعظم تو شاید بچ جائیں گے مگر انہیں 14سال سزا ضرور ہو جائے گی۔
شریف فیملی کا کہنا ہے کہ چونکہ بلال رسول سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے بھتیجے ہیں اور ان کی بیوی 2013 میں قاف لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکی ہیں وہ ان سے توقع نہیں رکھتے کہ وہ کسی طرح بھی اس تفتیش میں غیر جانبدار ہیں بلکہ ان کی ہر کوشش ہوگی کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کو اس مقدمے میں پھنسایا جائے۔ ایک زمانے میں میاں اظہر کے شریف فیملی سےبہت ہی قریبی خاندانی تعلقات تھے مگر سیاسی اختلافات کی بناپر کافی عرصہ پہلے یہ تعلقات یہاں تک بگڑ گئے کہ ان کی راہیں جدا ہو گئیں۔ 1999 میں مارشل لا لگنے کے فوراً بعد میاں اظہر نے شریف فیملی کو خدا حافظ کہہ کر پرویز مشرف کے ساتھ ہینڈ شیک کر لیا اور پرویز مشرف کی مدد سے نون لیگ کو ختم کرنے کیلئے قاف لیگ بنالی۔ وہ اس کے صدر بنا دیئے گئے۔ میاں اظہر کے بیٹے پی ٹی آئی لاہور کی صدارت کے امیدوار ہیں اور آئندہ انتخابات میں اس کے ٹکٹ پر لاہور سے الیکشن لڑیں گے۔ ان سیاسی وجوہ کی بنا پر بلال رسول کے خلاف اعتراضات میں کافی وزن ہے۔ 17سال قبل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران عامر عزیز نوازشریف کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس میں تفتیشی تھے۔ انہوں نے ہی اسحاق ڈار (جو اس وقت ملٹری اتھارٹیز کی تحویل میں تھے) سے منی لانڈرنگ کے الزام میں حلفی بیان لیا تھا۔ اس وقت عامر عزیز نیب میں تعینات تھے۔ انہوں نے حدیبیہ پیپرز ملز کی تحقیقات بھی کی تھیں۔ بلال رسول اور عامر عزیز کے خلاف شریف فیملی کے دعوے صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ حضرات اس خاندان کے بارے میں مبینہ خاص قسم کا نقطہ نگاہ رکھتے ہیں۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ وہ خود دیکھے گی کہ آیا جے آئی ٹی کی رپورٹ صحیح طور پر تیار کی گئی ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ جے آئی ٹی کے ممبران کو سوال جواب کے دوران مناسب رویہ رکھنا چاہئے۔ اب رجسٹرار کی طرف سے وٹس ایپ/ فیس ٹائم کالز بھی سامنے آئی ہیں جن کے بارے میں کافی باتیں ہو رہی ہیں۔یہ بلال رسول اور عامر عزیز کی جے آئی ٹی میں نامزدگی کے بارے میں تھیں۔ سپریم کورٹ میں کئی ماہ تک پاناما کیس چلا جس کے دوران ججوں کے کافی سخت ریمارکس آتے رہے جو کہ شریف خاندان کیلئے کافی پریشان کن تھے اور نون لیگ کے ورکرز بہت پریشان تھے۔ تاہم انہوں نے عدالت کے فیصلے پر کچھ سکھ کا سانس لیا کہ تین ججوں نے ان کے حق میں اور دو نے ان کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔
اس کے بعد متفقہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ جوں جوں یہ کمیٹی شریف خاندان کے اہم ممبران کو سوال وجواب کیلئے بلا رہی ہے نون لیگ کے کارکنوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ نہال ہاشمی نے کراچی میں یوم تکبیر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ بھی اسی طیش کا اظہار تھا مگر ان کی احتساب اور تفتیش کرنے والوں کو دی گئی دھمکیاں ان کے اپنے گلے ہی پڑ گئیں۔ جونہی ان کی ویڈیو سامنے آئی تو ملک میں ایک طوفان مچ گیا۔ چند گھنٹوں بعد ہی وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیا۔ نہال ہاشمی سےکہا گیا کہ وہ سینیٹ سے فوراً مستعفی ہوں اور ساتھ ہی ان کی پارٹی رکنیت بھی معطل کر دی گئی۔ یہ کراچی سے پرانے نظریاتی لیگی کارکن ہیں جنہوں نے کبھی جماعت بھی نہیں چھوڑی اور سخت ترین دور میں بھی اس کے ساتھ ہی رہے۔ ان کی اسی وفاداری اور خدمات کی وجہ سے وزیراعظم نے انہیں پنجاب سے سینیٹر منتخب کروایا۔ وہ
سندھ سے ایسا الیکشن نہیں جیت سکتے تھے کیونکہ سندھ اسمبلی میں نون لیگ اس پوزیشن میں نہیں ہے۔ نہال ہاشمی نے جذبات میں آکر جو انتہائی نا مناسب باتیں کیں وہ انہیں نہیں کہنی چاہئے تھیں۔ ان کے بیان نے وزیراعظم کیلئے خاصی مشکلات پیدا کیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے فوراً مطالبہ کر دیا کہ حکومت نہال ہاشمی کے خلاف فوری ایکشن لے اور یہ الزام بھی لگایا کہ سینیٹر نے جو کچھ کہا وہ دراصل حکومتی پالیسی کا حصہ تھا جس کا مقصد متعلقہ اداروں کو پیغام دینا تھا جو دے دیا گیا۔ تاہم حکومتی وزراکا کہنا تھا کہ نہال ہاشمی نے غلط بات کہی جس کا وزیراعظم نے فوراً نوٹس لیا اور ان کے خلاف کارروائی کی۔ ان کی رائے تھی کہ اگر یہ حکومتی پالیسی ہوتی تو سینیٹر کے خلاف ایکشن نہ لیا جاتا۔ کچھ ماہ پہلے وفاقی وزیر مشاہد اللہ سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا تھا جب انہوں نے 2014 کے دھرنے کے دوران ٹیلی فون پر ہونے والی کچھ متنازع بات چیت جس میں جمہوری حکومت کے خلاف سازش ظاہر ہو رہی تھی کا ذکر کیا تھا۔ سینیٹر پرویز رشید جن کو ابھی تک ڈان لیکس میں اپنا جرم معلوم نہیںکو بھی گزشتہ سال وزارت چھوڑنا پڑی تاکہ وزیراعظم کیلئے مشکلات نہ ہوں اسی طرح طارق فاطمی کو بھی بطور اسپیشل اسسٹنٹ مستعفی ہونا پڑا۔



.
تازہ ترین