• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری بے نظیر کی بیٹیاں قلابازی سیکھ رہی ہیں۔ پاکستان میں رہنے کیلئے اپنی مدافعت کیلئے ایسے کام ضرور آنے چاہئیں۔ یہ بھی اچھاہے کہ انتہا پسندی چاہے مذہب کے حوالے سے ہو کہ عورتوں کے حوالے سے، ان موضوعات پر ٹویٹ بھی بھیج دیتی ہیں۔ مگر میری جیسی ان کی اماں کی دوستوں کی خواہش ہے کہ وہ ابھی پڑھیں خوب پڑھیں۔ اپنے خیالات کو ٹویٹ پر ہی بیان کرنے سے مطمئن نہ ہو جائیں بلکہ مضمون لکھیں۔ بلاگ لکھیں، اب رمضان میں جرمانے کرنے والے آرڈر پر تم نے بہت معقول جواب لکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ اسپتالوں میں مریض کے ساتھ آنے والے تیمار دار، پانی پینے کیلئے بھی مارے مارے پھرتے ہیں۔ شہر میں مسافر اور اجنبی بھی امان ڈھونڈتے ہیں کہ کہیں پینے کو پانی اور کھانے کو دو ٹکڑے مل جائیں۔ خدا نے مسافر اور مریض کو اجازت دی ہے۔ پتہ نہیں کیوں بہت سے معاملات میں خدا کے حکم سے بھی بڑھ کر حکم لگا کر اپنی چنگیزیت قائم کر کے خوش رہتے ہیں۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ ٹی وی پر ہرچیز کے اشتہار آتے ہیں۔ مائوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو طہارت اور پاک رہنے کے طریقے جو اسلام نے واجب کئے ہیں، ان کو سکھائیں۔
ہماری بی بی بے نظیر کی بیٹیو! تم اس ملک کے اندھے قوانین کو اپنی ماں کے قتل ہونے کے دیکھنے کے بعد، اچانک بچپنا بھول کر شعور کی ان منزلوں پر پہنچ گئی ہو جہاں سچ اور جھوٹ کی تہیں کسی شخص سے بات کرتے ہی کھل جاتی ہیں۔ تم دونوں نے غیر ملکی اخبارات میں پڑھا ہو گا کہ ہمارے یہ غیرت مند لوگ کس طرح لڑکیاں خرید کر دبئی اور دوسرے ملکوں میں بیچ آتے ہیں۔ ہمارے سارے جوانوں کو اپنا ملک اچھا نہیں لگتا۔ وہ ایک طرح سچے ہیں۔ ان کے پاس ڈگری ہے ان کو نوکری نہیں ملتی، البتہ وزیر کے بھانجے بھتیجے کو فوراً نوکری مل جاتی ہے۔ وہ غریب چوری چوری ماں کا زیور بیچ کر باہر بھیجنے والے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ کبھی گاڑی کی ڈگی میں بند ہو کر مر جاتے ہیں، کبھی کسی کشتی میں بیٹھ کر سمندر پار کرنے کی کوشش میں زیادہ لوگوں کو بٹھانے کے باعث کشتی اُلٹ جاتی ہے، نہ کہیں جنازہ ہوتاکے مصداق فنا ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ یرغمال ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں روپے یرغمال بنانے والے مانگتے ہیں۔ کبھی مار دیئے جاتے ہیں، کبھی جہازوں میں بھر کر وطن بھیج دیئے جاتے ہیں اور کبھی غیر ملکوں کی سڑکوں پر بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ کبھی کبھی نہیں ہوتا۔ اکثر ہوتا ہےکہ وہ اشتہار دیکھتے ہیں کہ لاکھوں روپے مفت کا قرض ملے گا آئو اور کاروبار کرو۔ یہ بات اشتہار تک محدود رہتی ہے کہ یہاں بھی پارٹی سپورٹرز کو یہ فائدہ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔
ہماری بی بی بے نظیر کی بیٹیو! اب ذرا جھانکو غربت میں لپٹے ان دیہات کی جانب جہاں بچے اچار یا چٹنی سے روٹی کھا کر مسلے ہوئے کپڑے پہن کر اسکول جاتے ہیں۔ جہاں ایک کمرے میں پانچوں کلاسوں کو پڑھانے والا بے چارہ ایک ٹیچر ہوتا ہے۔ کتاب، بچے، استاد کے ساتھ ساتھ طوطے کی طرح لفظوں کو بدلتے جاتے ہیں، کبھی پاس ہو جاتے کبھی فیل ہو کر ورکشاپ میں کام کرنے لگتے ہیں اور کبھی چھوٹا بن کر چائے کے کھوکھے پر ٹپ کے طور پر دوچار روپے کما کر گھر لے جاتے ہیں۔ اِدھر ماں گھر اور کھیت کا کام ختم کر کے گھر کے پلنگ پر بے سدھ سو رہی ہوتی ہے، بچہ بھی سارے دن کی مشقت کے بعد کبھی بھوکا اور کبھی سوکھی روٹی کھا کر سو جاتا ہے۔ معلوم ہے نا ہمارے ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اس لئے اسکول نہیں جاتے، تم ماشاء اللہ دونوں جوان ہو رہی ہو۔ تمہاری عمر کے جوان بچے، کوئی فنی تعلیم نہ ہونے کے باعث، سادہ بی اے کر کے نوکری تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اب نوجوانوں نے سی ایس ایس کے امتحانوں میں بھی دلچسپی لینی بند کر دی ہے۔ بھلا کیوں، جو اچھے پڑھے لکھے نوجوان لڑکے لڑکیاں ہیں ان کو ملٹی نیشنل سیکٹر میں اتنا اچھا ماحول اور اچھی تنخواہیں ملتی ہیں کہ وہ اس مشقت کی طرف نہیں آتے، کم تنخواہوں کے باعث، پھر یہ لوگ رشوت لیتے ہوئے کبھی پکڑے جاتے ہیں، کبھی مال بنا کر دوسرے ملک چلے جاتےہیں۔
میری بے نظیر کی بیٹیو! تم پھر پوچھو گی آخر اس ملک کے مسائل کا کیا حل ہے جو کر کے تم اور تمہارا بھائی، ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ پہلی بات تو ہے کہ پاکستان سے جاگیردارانہ نظام یکسر ختم کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جتنے جوان بی اے کر کے بیکار ہیں انہیں پانچویں کلاس تک پڑھانے کے عوض ماہانہ تنخواہ، بے نظیر فنڈ میں سے دی جائے یہ پابندی ہو کہ دو سال میں پانچوں کلاسوں کا کورس مکمل کر کے بچوں کو ہائی اسکول میں داخل کیا جائے۔ ان سارے بچوں کو یونیفارم، بستے اور کتابیں بھی بے نظیر فنڈز میں سے دی جائیں۔ دیکھئے بنیادی تبدیلی آتی ہے کہ نہیں اس میں جوان لڑکیوں کو بھی شامل کر لو۔
اچھا میں بڈھی دادی، یہ باتیں بتا کر ہی تھک گئی ہوں۔ اب کام اور اقدامات کے لئے تم ہر شہر میں گروپ بنائو، خوب پڑھو اور ساتھ یہ بھی دیکھو کہ کون لوگ ہمارے ملک کو بدنام کر رہے ہیں۔



.
تازہ ترین