• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانامہ کیس کے بارے میں ٹی وی چینلز کی بدولت عوام ہر طرح کی معلومات سے آگاہ رہتے ہیں۔ اب تو ہمارے محلوں کے بزرگ حضرات بھی آف شور اور آن شور کمپنی میں تفریق کرنا سیکھ گئے ہیں۔Beneficial owner اور ٹرسٹی کے درمیان قانونی فرق بھی تقریباََ سبھی کو ازبر یاد ہو گیا ہے۔ اس کیس میں اور کچھ ہوا یا نہیں، لوگوں کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ضرور ہوا ہے ۔یہ بھی پانامہ کیس کی بدولت ہی ممکن ہوا کہ شہرہ آفاق ناول گاڈ فادر کے مصنف ماریو پوزو کے بارے میں پاکستانی عوام اتنا کچھ جان پائے وگرنہ ہمارے ہاں تو کتابیں پڑھنے کی روایت اب ختم ہی ہو گئی ہے۔ معزز جج صاحبان کی بدولت عوام کم ازکم ایک مشہور زمانہ کتاب کی اس لائن سے واقف ضرور ہو گئے ہیں کہ ہر بڑے مال و دولت کے پیچھے ایک بڑا جرم چھپا ہوتا ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنمانہال ہاشمی اگر نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کسی بھی کارروائی کرنے والے کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کرنے کی بات نہ کرتے تو شاید سسلین مافیا کا ذکر ہمارے ہاں کبھی خبروں کی زینت نہ بنتا۔ لیکن نہال ہاشمی کی جانب سے کی گئی تقریر پر لئے گئے نوٹس کی سماعت کے دوران معزز جج صاحبان نے خود کو دی جانے والی دھمکیوں کو سسلی کے مافیا سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی دھمکیاں تو آمریت کے دور میں بھی کسی جج کو نہیں دی گئی تھیں۔
پانامہ کیس کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں جس مافیا کا حوالہ دیا گیا اس پر ناول بھی لکھے گئے اور فلمیں بھی بنیں۔ اس مافیا کے کردار اطالوی نسل کے تھے اور ان کاتعلق اٹلی کے ایک جزیرہ نما حصہ سسلی سے تھا۔ سسلی کا مافیا شاید دنیا کے طاقتور ترین جرائم پیشہ گروہوں میں سے تھا، اس گروہ نے کئی دہائیوں تک سسلی پر حکومت کی، اس عرصے میں سسلین مافیا نے اپنے راستے میں آنے والے ا فراد کو یا تو خرید لیا یا پھر انہیںڈرا دھمکا کر چپ کروا دیا۔ جو افراد ان دونوں طریقوں سے بھی قابو میں نہیں آئے انہیں اس دنیا سے ہی رخصت کر دیا گیا۔ سسلین مافیا اس قدر منظم تھا کہ برسوں تک اٹلی کے ریاستی ادارے اس کے خلاف کوئی بھی خاطر خواہ کارروائی نہ کر سکے۔ آخر کار جب انیس سو چھیاسی میں اٹلی کی حکومت نے مافیا کے خلاف ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا تو حالات اس قدر کشیدہ تھے کہ کیس کی تمام کارروائی ایک زیر زمین بنکر میں کی جاتی تھی، جو سسلی کے شہر پالیرمو کی ایک جیل کے نیچے بنایا گیا تھا۔ اسی بنکر میںسسلین مافیا کے چار سو سے زائد افراد پر کیس چلایا گیاجو ہرگز کوئی آسان عمل نہ تھا۔ دہائیوں تک سسلی پر حکمرانی کرنے والے خاندانوں پر جب حکومت کی جانب سے پریشر بڑھایا گیا تو انہوں نے اپنی دہشت قائم رکھنے کے لئے اپنے خلاف کارروائی کرنے والے افراد کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ سسلی کی تاریخ کا ایک بھیانک دور تھا، مافیا کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنے والے بہت سے افراد کو بم کے ذریعے اڑا دیا گیا۔ ان افراد کو شاید ویسے بھی قتل کیا جا سکتا تھا لیکن سسلی کے جرائم پیشہ خاندان اطالو ی حکومت کو یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ اگر ان کے خلاف جاری کارروائی کو نہ روکا گیا تو نہ صرف کارروائی کا حصہ بننے والے افراد بلکہ بہت سے غیر متعلقہ افراد بھی لقمہ اجل بن جائیں گے۔
مافیا کے سربراہان کے گرد جب گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا تو انہوں نے ان سیاستدانوں پر بھی پریشر ڈالنا شروع کر دیا جو مافیا کی پشت پناہی کی بدولت ہی اقتدار میں آئے تھے۔ جب یہ سیاستدان بھی مختلف خاندانوں کے سربراہوں کو اٹلی کے حکومتی اداروں سے بچانے میں ناکام ہو گئے تو انہیں اس پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لیکن بات صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں رہی، کارروائی کرنے والے پولیس افسران سے لے کر مقدموں کے گواہوں تک کو بھی نہیں بخشا گیا۔
سسلی کے مافیا کی جانب سے عدلیہ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ چونکہ مافیا کے سربراہوں کے خلاف مقدمات کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ ان کا بچ نکلنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں تھا اسی لئے مقدمات کے لئے مقرر کئے گئے جج بھی مافیا کے نشانے پر رہے۔ انیس سو اٹھاسی میں صرف ستمبر کے مہینے میں دو ججوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اسی سال سسلی کے شہر پالیرمو کے ایک سابقہ مئیر کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اس میئر کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے دور میں مافیا کے مالی مفادات کو نقصان پہنچایا تھا۔ انیس سو نوے میں بھی ایک جج کو قتل کر دیا گیا، جبکہ انیس سو اکانوے میں اٹلی کی سپریم کورٹ کے ایک اسپیشل پراسیکیوٹر کو بھی مافیا نے قتل کروا دیا۔ لیکن اس سب کے باوجود اٹلی میں مافیا کے سربراہان کو سزا دلوانے کے لئے جس ایکشن کا آغاز کیا گیا تھا اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی۔ شاید اسی لئے انیس سو بانوے میں سسلی کے مافیا نے اپنی قوت کا آخری مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سال دو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ مافیا کے خلاف کارروائی میں اہم کردار ادا کرنے والے ججز کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا لیکن اس کے باوجود اٹلی کی حکومت نے مافیا کے سربراہوں کو سزا دلوانے کے عمل کو مکمل کیا۔ آج اسی مافیا کے خلاف سرگرم رہنے والا ایک شخص سسلی کے شہر کا مئیر ہے، یہ سب قانون کی حکمرانی تسلیم کروانے کے فیصلے پر قائم رہنے کے باعث ممکن ہوا۔
اگرچہ میں ہر گز نہیں سمجھتا کہ نہال ہاشمی کسی مافیا کے سربراہ ہیں مگر ان کا بیان کسی ڈان کے بیان سے کم معلوم نہیں ہوتا۔ جس سے حکومت اور عدلیہ کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔1997 میں بھی جب مسلم لیگ ن کی قیادت کو عدلیہ میں توہین عدالت کے مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا، تو وہ واقعہ پاکستان کی تاریخ میں اس جماعت کے رویہ کے حوالے سے تلخ یادیں چھوڑ گیا۔ حکومتی ترجمان کی جانب سے یہ بیان کہ حکومت کو سسلین مافیا اوراٹارنی جنرل کو اس کا نمائندہ قرار دینا انتہائی افسوسناک ہے، ریمارکس جج صاحبان کے حلف اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں، ان تعلقات کو مزید خرابی کی جانب لے جاسکتا ہے۔ مگر یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بیان کا مقصد کہیں مخصوص ججز کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا آغاز کرنا تو نہیں ؟ جس سے پاناما کیس کا معاملہ ختم تو نہیں ،مگر التوا کا شکار ضرور ہو سکتا ہے۔



.
تازہ ترین