• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ممنون حسین کے خطاب کے دوران اپوزیشن کیجانب سے جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ نہایت افسوسناک ہے۔ اس دوران بدترین نعرے بازی کی گئی،تقریر کی کاپیاں پھاڑی گئیں، اور سیٹیاں بجائی گئیں۔ مختلف ممالک کے سفیر اور مسلح افواج کے سربراہان بھی صدر کا خطاب سننے کے لئے پارلیمنٹ میں موجود تھے، تاہم انکی موجودگی کو فراموش کر تے ہوئے یہ ہلڑ بازی جاری رہی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ملکی سیاست کا چلن دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر نوے کی دہائی کا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ وہی افراتفری، مخاصمت اور انتقامی سیاست کارفرما ہے جو اس وقت رائج تھی۔ اس زمانے میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی منتخب حکومتوںکیخلاف برسر پیکار رہیں۔ یہ کھینچا تانی تب اختتام پذیر ہوئی جب جنرل مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا اور ملک ایک بار پھر آمریت کی نذر ہو گیا۔ طویل جلا وطنی کے ایام میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے ماضی کے سیاسی طرز عمل کا جائزہ لیا۔اسی سوچ کے تحت، محترمہ بینظیر بھٹو جدہ تشریف لے گئیں اور میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ دونوں سیاسی رہنمائوں نے اپنے گزشتہ طرزسیاست پر نظر ثانی کا عہد کیا اور یوں میثاق جمہوریت طے پایا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ،آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے اس میثاق کو آگے بڑھایا اور کسی نہ کسی حد تک اس پر عمل پیرا بھی رہے۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ میثاق جمہوریت نے ملکی سیاست پر مثبت اثرات مرتب کیے۔یہی وجہ ہے کہ تمام تر سیاسی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایسے اقدامات سے گریزاں رہیں، جو ایک دوسرے کی حکومت گرانے اور جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کا باعث بنتے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ڈاکٹر طاہر القادری اپنے لائولشکر کے ہمراہ اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے تھے اوروفاقی حکومت کے درپے تھے۔ اس نازک وقت میں میاں نوازشریف نے رائے ونڈ میں سیاسی جماعتوں کا اجلا س بلایا اور اعلان کیا کہ کسی قسم کے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جو حکومت کو تقویت فراہم کرنے کا باعث بنا۔ مشکل ہی سے سہی، مگرپی پی پی نے اپنی پانچ سالہ مدت حکومت مکمل کی۔نگران حکومتیں قائم ہوئیں، انتخابات کا انعقاد ہوا اور اقتدار نئی منتخب حکومت کے حوالے ہوا۔ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں، آصف علی زرداری کے عہدہ صدارت کی آئینی میعادمکمل ہوئی ،تو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں عزت و احترام سے رخصت کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے خوشگوار مناظر ہماری سیاسی تاریخ میں کم کم ہی نظر آئے۔ کوئی کچھ بھی کہے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ دونوں جماعتوں نے ماضی کے بر عکس دانشمندانہ طرز عمل اختیار کیا اور جمہوریت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈالا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گزرے برسوں میں ناقص حکومتی کارکردگی کے باعث، پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ ضرور متاثر ہوئی، مگر اس نے اپنی جمہوری ساکھ قائم رکھی۔ پیپلز پارٹی کا یہ کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا جب اسلام آباد میں دھرنے کے ہنگام، جمہوریت کو خطرے میں دیکھ کر، پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کا رخ کیا اور اپنا وزن جمہوریت کے پلڑے میں ڈال دیا۔
تاہم قابل افسوس امر ہے کہ کل تک پیپلز پارٹی جس افراتفری اور فسادی سیاست کے خلا ف کھڑی تھی،آج ا سکا حصہ بنتی نظر آتی ہے۔صدر ممنون حسین کے خطاب کے دوران برپا ہنگامے میں، پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف سے بڑھ کر حصہ ڈالا۔اگرچہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) ایک دوسرے سے بڑھ کر پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کرتی رہیں۔ تاہم آخری ہنگامہ آرائی صدرمشرف کے خطاب کے دوران ہوئی۔ جو کسی حد تک قابل تائید تھی کہ وہ ایک آمر وقت کے خلاف جمہوری قوتوں کا احتجاج تھا۔ اسکے بعد ایسی ہنگامہ آرائی شاذ ہی دیکھنے میں آئی۔ بہت اچھا ہوتا کہ جو روایات ماضی کا حصہ بن چکی تھیں، انہیں ماضی کا حصہ ہی رہنے دیا جاتا۔صدر، جو کہ وفاق کی علامت ہوتا ہے، اس کی توہین کر کے وفاق کی توہین کا ارتکاب نہ کیا جاتا۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج نہ کیا جائے،یا اسے ہر قسم کی گرفت اور جوابدہی سے استثنیٰ حاصل ہو، ایساکرتے ہوئے مگر موقع محل، اخلاقی اورجمہوری تقاضے ضرور ملحوظ رہنے چاہئیں۔ حکومت کو ٹف ٹائم دینا بھی سیاسی جماعتوں کا حق سہی، مگر اس حق کو بھی ملکی اور عوامی مفاد کے تابع ہونا چاہیے۔ ہم نے مگر سیاست کو ذاتی اور شخصی مخالفت کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ دکھائی یہی دیتا ہے معاملات کی اصلاح ، اداروں کی تعمیر نو، اور قانون سازی جیسے اہم معاملات سیاستدانوں کی ترجیحات نہیں۔ نہ ہی سیاسی طرز عمل کسی اصول اور نظریے پر استوار ہیں۔ مثال کے طور پر، انتخابات 2013 کے بعد انتخابی دھاندلی کا نعرہ بلند ہوا۔ 126 دن کا دھرنا دیا گیا۔پارلیمنٹ پر حملہ اور پی ٹی وی پر قبضہ ہوا۔
ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ پھر جوڈیشل انکوائری کمیشن قائم ہوا۔ تحقیقات کے بعد حکومت کو انتخابی دھاندلی کے الزامات سے بریت حاصل ہوئی اور یوں یہ معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔ کئی ماہ کی اس مشق سے ملک و قوم کو مگرکیا حاصل ہوا؟ تاحال نہ کوئی ادارہ قائم ہوسکا۔نہ قانون سازی ہوئی، نہ انتخابات 2018 کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کی گئی۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی ،جس نے یہ سب کام کرنے تھے، اسے نظرانداز کیا گیا۔ ابھی تک اس کمیٹی کی مرتب کردہ سفارشات غالبا سیاسی جماعتوں میں زیر غور ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک اس معاملے پر کامل اتفاق رائے قائم ہو چکا ہوتا۔ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات سیاسی جماعتوں کی ترجیح اول تھیں ہی نہیں۔ اصل ترجیح حکومت کے لتے لینا تھا۔ دھاندلی کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنا تھا۔
دھاندلی کا شور تھما تو پانامہ لیکس کا ہنگامہ شروع ہوگیا۔ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، وزیر اعظم نواز شریف اور انکے خاندان کو احتساب کے لئے چن لیا گیا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شریف خاندان کا احتساب ہونا چاہیے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا کرپشن کا قلع قمع کرنے کیلئے صرف ایک خاندان کا احتساب درکار ہے؟ سینکڑوں نام جو پانامہ لیکس میں سامنے آئے ،انکا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟اسکا جواب یہ ہے کہ احتساب کاواویلا کرنے والوں کو کرپشن کے خاتمے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ منتہائے مقصود صرف نوازشریف کو نیچا دکھانا اور اپنے رستے سے ہٹانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سارے عرصے میں احتساب کا نظام قائم کرنے، اس ضمن میں قانون سازی کرنے اور نیب کی اصلاح احوال سے متعلق کاوش نہیں کی گئی۔ خود میڈیا بھی اپنی توجہ ان امور پر موکوز نہیں کر سکا۔ اس وقت جبکہ عام انتخابات میں ایک سال کا عرصہ باقی ہے۔ باہم دست و گریبان ہونے کے بجائے، تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ مفاد عامہ کے امور پر پرمرکوز ہونی چاہیے۔خاص طور پر رمضان المبارک کے احترام کا تقاضا ہے کہ کم از کم اس ماہ مقدس میں انتقامی اور فسادی سیاست سے گریز کیا جائے۔ میڈیا کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ سیاستدانوں کی توجہ ان کاموں کی جانب مبذول کروائیں، جن کیلئے انہیں عوام نے ووٹ دئیے تھے۔



.
تازہ ترین