• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک منتخب حکومت کے وزیرِ خزانہ کو پانچواں بجٹ پیش کرتے فقط دوسری بار دیکھا۔ آنکھوں پہ یقین کرنے کے سوا چارا نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ مروجہ روایت کے مطابق انتخابی سال کے بجٹ میں کوئی بھی حکومت خرچے بڑھانے اور رعایتیں دینے کے سوا کیا کر سکتی ہے، بھلے مستعار لے کر۔ لیکن گرمی میں بلکتی اور لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں بے حال جنتا کو کیا پڑی تھی کہ وہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے اس مژدہ پہ سر دُھنتی کہ پاکستان 2030ء میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے حساب سے دُنیا کی بیسویں بڑی معیشت کے مقام پر پہنچ جائے گا۔ خوش خیالی اور اُمید افزائی پہ کوئی نگوڑا ہی انگلی اُٹھائے۔ لیکن حقائق بھلا خوش گپیوں سے بدلنے والے ہیں؟ عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کے جائزے کے مطابق اس وقت پاکستان جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) کے پیمانے پہ دُنیا میں 43 ویں نمبر پر ہے اور گھسٹتے گھساتے بمشکل ایک درجہ بلند ہو کر 2022ء میں 42 ویں نمبر پر پہنچ جائے گا۔ جہاں مجموعی قومی آمدنی کے ناطے بچتوں کی شرح فقط 13.1 فیصد، محصولات کی شرح 15.3 فیصد اور سرمایہ کاری کی شرح 15.78 فیصد ہو اور جس ملک کی 60 فیصد آبادی (2 ڈالر یومیہ پر) خطِ غربت کے نیچے سسک رہی ہو، 40 فیصد بچے مناسب نشوونما سے محروم ہوں (Stunted) ، آدھی آبادی ناخواندہ اور ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہوں، بھلا وہ ملک کیسے وہ زقند بھر سکتا ہے جس کا خواب جناب اسحاق ڈار نے ہمیں دکھایا ہے۔ کاش ایسے ہی ہوتا، لیکن یقین آنے کو نہیں!
وزیرِ خزانہ نے ایک اور خوشخبری بھی دی ہے کہ پاکستان کو اگلے برس آئی ایم ایف کے سامنے دامن پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ٹوٹتے وعدوں کی طرح، کشکول توڑنے کا وعدہ بھی کہاں وفا ہونے کو ہے۔ جب تجارتی خسارہ برآمدات سے دگنا ہو جائے، تارکینِ وطن کی گھروں کو بھجوائی جانے والی پونجی (Remittances) کو نظر لگ جائے اور مجموعی جاری کھاتے کا خسارہ (Current Account Deficit) نو (9) ماہ میں آٹھ ارب ڈالرز تک بڑھ جائے تو قرضوں کی ادائیگی اور بڑھے ہوئے خسارے کہاں سے پورے ہوں گے؟ لے دے کے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں: ڈیفالٹ یعنی دیوالیہ یا پھر کشکول! اور پہلے سے کہیں بڑا!! اگلی حکومت جانے یا پھر جو بھی ہو خصموں کو کھائے۔ انتخابی سال میں مسلم لیگ ن کے پاس بڑے بڑے حلقۂ انتخاب کے لئے دینے کو بہت کچھ ہوگا۔ درمیانے اور خوشحال کسانوں کے لئے ایک ہزار ارب کے سستے قرضے، تاجروں کے لئے چھوٹیں ہی چھوٹیں، غریبوں کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 120 ارب روپے۔ نوجوانوں کے لئے لیپ ٹاپ، روزگار، وظیفے، امدادی رقوم، 20 ارب روپے کے استحقاقی پروگرامز اور ایک ہزار ارب سے زائد کا ترقیاتی پروگرام۔ موجیں ہی موجیں!! پھر بھلا کیوں کوئی جناب اسحاق ڈار پہ پھبتی کسے گا سوائے سیاسی رقابت کی آگ میں جلنے کے۔
وزیراعظم نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ جونہی حکومت میں آئے عالمی منڈی میں تیل سمیت اجناس کی قیمتیں گر گئیں اور ہمالہ سے چین کی دوستی (CPEC) کے چشمے اُبلنے لگے۔ چین کے صدر کا ایک بیلٹ ایک روڈ کا وژن اور نواز شریف کا ذرائع رسل و رسائل اور شاہراہوں کی ترقی کا ماڈل، کیا خوب حسنِ اتفاق ہے۔ ہمارا دوش اسحاق ڈار کے لئے ہے نہ پیپلز پارٹی کے پردۂ غیب سے نمودار ہونے والے وزرائے خزانہ سے یا پھر تحریکِ انصاف سے کوئی اُمید جس کا کوئی پروگرام ہے نہ نظریہ۔ اس بجٹ پہ یا کسی بھی سنجیدہ معاشی مُدے پہ کبھی آپ نے اُن کی زبانی کوئی کام کی بات سنی ہے؟ سوائے توتکار اور الزام تراشیوں یا پھر خالی خولی نعرے بازی اور سیاسی شعبدہ بازی کے اُن کے کنگال فکری خانوں سے کبھی کوئی کام کی بات برآمد ہوئی ہے؟ رٹ لگی ہے تو صادق و امین کی اور وہ کہیں دور دور تک نہیں۔ یا پھر سیاستدانوں کے پاس ایک دوسرے کے پیسے کی لکیر کا سراغ لگانے کا مشغلہ جس کا میڈیا نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ حکمران طبقوں (خواہ وہ زمیندار ہوں یا بڑے سرمایہ دار اور سول و ملٹری نوکر شاہی) کو تو بس اپنے اپنے حصہ بقدر جُسہ اور بھاڑے (Rent) سے غرض ہے اور اس کی تقسیم پہ ایسی چھینا جھپٹی کہ خدا کی پناہ۔ زمیندار ٹیکس دینے کو نہیں، تاجر کھاتے کھولنے کو نہیں، سرکاری افسر کام کرنے کو نہیں، سلامتی والے علاقائی جھگڑے کم کرنے کو نہیں، نوجوان پڑھنے کو نہیں، میڈیا سنجیدہ ہونے کو نہیں اور عدلیہ انصاف دینے کو نہیں۔ آوے کا آوا ہے کہ ٹھیک ہونے کو نہیں! اتفاق ہے تو عالمِ غیب سے مقدر بدلنے کی اُمید۔ پہلے یو ایس ایڈ اور اب چین پاکستان معاشی شاہراہ (CPEC)۔ بس بھائی چینیو آؤ، ہمارے کارخانے چلاؤ، کھیت سنوارو، شاہراہیں بناؤ، بجلی گھر چلاؤ، شہر محفوظ بناؤ، میٹرو دو اور بندرگاہیں چلاؤ اور ہم دیکھا کئیں۔ اور کسی کو یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کہ پاکستان کا چین سے تجارتی خسارہ 9.7 ۔ ارب ڈالرز ہو چکا ہے جو ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے زیادہ ہے۔معاملہ فقط لولی لنگڑی معیشت کا نہیں۔ بدقسمتی سے تمام جماعتیں ایک ہی طرح کی نیولبرل معیشت کی دلدادہ ہیں اور اُن کی قیادت پہ اُنہی لوگوں کا قبضہ ہے جن کے باعث معیشت مستقلاً مختلف عوارض میں مبتلا ہے۔ اصل سوال سیاسی معیشت کا ہے یعنی اقتدار کے ڈھانچے پہ جو لوگ قابض ہیں، وہی اُسے گھن کی طرح کھائے جا رہے ہیں اور اُن کا پیٹ ہے کہ بھرتے بھرتے بھی بھرتا نہیں۔ اُنہیں اور اُن کی پالیسیوں اور اولیتوں کو بدلے بنا کوئی کل سیدھی ہونے والی نہیں۔ سب سے پہلے تو اقتدار کے ڈھانچے (Power Structure) کو بدلنے اور معاشی و عوامی سلامتی کی پائیدار اور شمولیتی ترقی کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے جس میں محنت کشوں، کسانوں، ہنرمندوں، ماہروں، صنعتکاروں یا تخلیق کاروں اور درمیانے طبقے کے پیشہ وروں کا کلیدی کردار ہو۔ پاکستانی ریاست قومی سلامتی کی ریاست (National Security State) کی بجائے عوامی فلاح اور سلامتی کی جمہوریہ (Social Democratic Republic) بنے۔
ٹیکس امیروں سے براہِ راست وصول ہو اور غربت کے ماروں اور نوجوانوں کو کارآمد، خواندہ، صحت مند اور باروزگار بنانے پر خرچ ہو۔ چین نے یہی کیا ہے، ساری قوم کو پڑھا لکھا اور ہنرمند بنا کر کام پر لگا دیا ہے۔ نتیجتاً چین 2022ء تک دُنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ اگر بھارت 2022ء تک دُنیا کی چوتھی بڑی معیشت (چار کھرب ڈالرز کے جی ڈی پی کے ساتھ) بن سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں 2030ء تک بیسویں بڑی معیشت بن سکتے؟ ہمارا تو سارا زور اس بات پر ہے کہ ہم دُنیا کی پانچویں بڑی عسکری اور جوہری طاقت ہیں اور یہ بھولتے ہوئے کہ وفاق کے پاس جو نقد محاصل (Net Revenues) ہیں وہ قرض کی ادائیگی اور سلامتی کے کھاتوں پہ ختم ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً سماجی و انسانی پیمانوں پر ہمارا حال سب سہارہ افریقہ سے بھی بُرا ہے۔ پھر بھی ہم ہر محاذ پر حربی طور پر نبرد آزما ہونے کو تیار کھڑے ہیں۔ ہمیں ہر سو جاری جنگوں میں ٹانگیں پھنسانے کی بجائے، امن و آشتی کی راہ لینی ہوگی۔ چینی صدر نے وزیراعظم نواز شریف کو بیجنگ کی حالیہ کانفرنس کے دوران یہی کہا کہ آپ کی سرحدوں پہ یونہی کشیدگی رہی تو کوئی کیوں سرمایہ کاری کرے گا۔ ہمیں اس پر غور کرتے ہوئے اپنی سلامتی و خارجہ پالیسیوں کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا۔ ہم چین کے ساتھ مل کر کیوں نہیں جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیاکو تجارتی و معاشی تعاون کا خطہ بنانے کی کوشش کرتے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہوا جہاں عوام کا مقتدر ہونا تو دور کی بات، اُن کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ شفافیت، احتساب، جوابدہی اور اچھی حکومت جیسے قابلِ قدر تقاضوں کو بھی ہم نے بیہودہ مباحث کی نذر کر دیا ہے۔ پورے نظام کی اصلاح کیے بنا بُری حکومتیں ہی ہمارا مقدر ہیں گی اور کرپشن ختم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جائے گی اگر ہمسایوں کے تعاقب میں یونہی وقت ضائع کرتے رہیں گے۔ اصل سوال معاشی و انسانی سلامتی کا ہے اور ایسی معاشی ترقی جو پائیدار بھی ہو، عوامی اور شمولیتی بھی!
بیسیویں معاشی قوت کا مژدہ بہت سہانا ہے، مگر کیسے؟ اور کس کے لئے؟



.
تازہ ترین