• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ابھی تک عائشہ غوث صاحبہ کے بتائے ہوئے بجٹ کے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پھنسا ہوا ہوں۔ اورنج لائن ٹرین کے لئے مزید 93ارب رکھ دیئے گئے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے جن میں سے اکثر کے فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب صاحب نے خود کرنے ہیں کے لئے 635ارب روپے رکھے گئے ہیں، ان سے بھی ظاہر ہے کہ زیادہ تر انڈر پاس، اوور پاس اور میٹرو بسیں ہی بنیں گی اور اگر کہیں کمی آئی تو دوسرے شعبوں سے پیسے کھینچ کر اس منصوبے میں لگا دیئے جائیں گے۔ تعلیم کے لئے 345ارب رکھے گئے ہیں۔ اس بارے میں بھی کبھی بات کریں گے۔ اس لئے کہ اس وقت میرا دھیان صحت پر ہے جس کے لئے 263ارب 22کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ رقم اس رقم سے کم ہے جو صرف 28کلومیٹر کی اورنج لائن ٹرین میں جھونک دی جائے گی۔
میں صحت کے لئے مختص اس رقم کے بارے میں اور تفصیل حاصل کرنے کے لئے اخبار کے صفحات پلٹتا ہوں اور نظر صحت کے ہی حوالے سے شائع شدہ کچھ اشتہارا ت پر پڑتی ہے۔
1۔ دل کا بائی پاس مت کروائیں\۔عجوہ پیسٹ آزمائیں۔ 100فیصد رزلٹ پائیں۔
2۔14دن میں قد لمبا کریں۔ صرف 14دن کے استعمال سے لڑکے لڑکیاں ہمارے ہربل فارمولے سے 8سے 9انچ قد بڑھائیں۔ بغیر سائیڈ ایفیکٹ کے۔
3۔5دن میں چہرے کے ڈینٹ کمزور جسم سے نجات صرف 5دن کے استعمال سے پیلی رنگت ، پچکے گال، کمزور جسم کو تندرست و توانا بنائیں۔ آپ کی صحت آپ کے ہاتھ میں ہے۔
4۔ 3دن میں جوڑوں کے درد کا مکمل خاتمہ۔ صرف 3دن کے استعمال سے پرانے سے پرانا جوڑوں کا درد، گنٹھیا،پٹھوں کا درد، کمر کا درد وغیرہ سے مکمل نجات۔ ہربل دوا بغیر سائیڈ ایفیکٹ ۔
یہ اشتہارات مجھے بہت پرانا ایک واقعہ یاد دلاتے ہیں۔ میں اپنی نوکری کے آغاز میں کچھ عرصہ ڈیرہ نواب اور نارووال میں گزار چکا ہوں۔ یہ واقعہ نارووال کا ہے جہاں کی دیواریں بھی گوجرانوالہ شہر کے آس پاس دیواروں پر شرطیہ علاج اور 80سالہ سنیاسی بابا ایسے اشتہارات سے بھری ہوتی تھیں۔ انہی دنوں ایک گلی سے گزرتے میں نے ٹوٹی پھوٹی تحریر میں ایک اشتہار پڑھا کہ ایک حکیم موصوف کے پاس خارش، چنبل، مردانہ کمزوری، جوڑوں کے درد، بواسیر نیز دیگر امراض چشم کا علاج موجود ہے۔ جس چیز نے مجھے اس بورڈ کی طرف توجہ دلائی وہ یہ کہ موصوف کے پاس بواسیر اور دیگر امراض سمیت امراض چشم کا علاج بھی تھا۔ موصوف سے ملنے کی خواہش ہوئی مگر اکثر 80سالہ سنیاسی بابوں کے ڈیروں پر موجود سنیاسی بابوں کے جانشینوں کی طرح یہاں بھی ایک خارش زدہ نوجوان بیٹھا تھا۔
ایک واقعہ ڈیرہ نواب کے ایک جھگی نشین سنیاسی بابے کا بھی یاد آتا ہے جو دس دس روپے میں یہ کہہ کر ملٹی وٹامن کیپسول فروخت کرتے تھے کہ اس میں پانچ مرغوں کی طاقت ہے۔ یہ اشتہار جن کا میں نے اوپر ذکر کیا اس میں اگر دیکھاجائے تو اب بھی کچھ نہیں بدلا۔ 90کی دہائی سے میری نظر دیواروں پر ایسی وال چاکنگ پر پڑتی رہی ہے جن میں ایسی ایسی بیماریوں سے شفایابی کی نوید سنائی جاتی ہے جس کے معاملے میں ابھی یورپ بھی ریسرچ کر رہاہے۔ اب بھی ہمارے حکیم اور جعلی ڈاکٹر ہربل دوائیں بنانےوالے حتیٰ کہ ہومیوپیتھ اسی طرح کی غلط فہمیوں میںمبتلا کرکے لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ ان کے اس کاروبار کو کون روکے گا؟ ہر سال صحت کے بارے میں پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے یا نفاذ کرتے ہوئے اس طرح کے ننگے کاروباروں کو روکنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔
ایک اور واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں جس سے آپ کو بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے اس طرح کے کاروبار میں ملوث ہونےکےثبوت ملتے ہیں۔ میں نے اپنے پروگرام ’’پچاس منٹ‘‘ کا آغاز 93ء میں کیا تھا اس وقت NTM نے مجھے اس طرح کا پروگرام کرنے کی آفر دی۔ میں نے اسی پروگرام کے دوران ایک خبر پڑھی کہ آنکھ کے آپریشن کے دوران ڈراپس ڈالنے سے 3مریضوں کی بینائی چلی گئی۔ جعلی دوائیوں کی اس طرح کی کھیپ کس طرح اصلی دوائیوں میں شامل ہو کر اسپتالوں تک پہنچی؟ یہ ایک بڑا سوال تھا۔ جعلی دوائیاں کہاں سے آتی ہیں؟ اس گھنائونے کاروبار میں کون کون شامل ہیں کی تحقیق کرتے کرتے ہم شاہ عالمی کی بوتل مارکیٹ کے پیچھے بنی جعلی دوائیوں کی منی فیکٹریوں تک جا پہنچے۔ وہاں ڈھیروں کے حساب سے کیپسول کے خالی خول اور کیمیکل پڑے تھے۔ بتایا گیا کہ آپ آرڈر دیں آپ کو کتنی تعداد میں کتنے کیپسول چاہئیں۔ آپ کو ریپر اور پیکنگ سب ملے گی۔ ہم نے اپنے کیمرے نکال کر شوٹنگ شروع کی ہی تھی کہ دکان داروں نے دکانیں بند کرکے ہماری دھنائی شروع کردی۔ کیمرا چھین لیا گیا۔ ہمارے ساتھ موجود مجسٹریٹ کی بھی پٹائی ہوئی۔ تھانےدار بھاگ گیا۔ لیکن ہم ایک کیمرے پر کچھ ریکارڈنگ کرنےمیں کامیاب ہو ہی گئے۔ بڑی مشکل سے مجسٹریٹ کے ساتھ موجود کچھ عملے نے ہمیں باہر نکلنے میں مدد کی۔ کچھ دکانوں کو سیل کرکے دکانداروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ہمارے باہر نکلتے ہی دکانوں کے شٹر بند ہونا شروع ہوگئے۔
شام کو ہمیں کمشنر ہائوس سے فون آیا کہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوگئی ہے کہ پنجاب بھر کی تاجر تنظیموں نے گرفتار دکانداروں کی رہائی اور سیل شدہ دکانوں کی بحالی نہ کرنےکی صورت میں پنجاب بھر میں ہڑتال کااعلان کیا ہے۔ ہمارے کمشنر ہائوس پہنچنے پربتایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں کے تاجروں کے ونگ نے مشترکہ طور پر حکومت سے درخواست کی ہے کہ گرفتار اور جعلی دوائیاں بنانے والوں کو رہا کیاجائے اور دکانوں کی سیل ختم کردی جائے۔
وہ دن اور آج کا دن جعلی دوائیوںکا کاروبار اسی طرح جاری ہے۔ رانا عظیم کہتے ہیں کہ ملک میں جعلی ادویات کی 3ہزار فیکٹریاں ہیں۔ ان میں 35فیصد موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی کی ملکیت ہیں۔ لوہاری اب بھی جعلی ادویات کی بڑی مارکیٹ ہے۔ اس کالے دھندےمیں چوکیدار سے لے کر اسپتالوں کے ایم ایس تک سب ملوث ہیں۔ ان دوائیوں کو بنانے کے لئے بھارت، چین اور ایران سے سمگل ہو کر آنے والاخام مال استعمال ہو رہاہے۔ اس میں اینٹی بائیوٹک انجکشن سے لے کر جان بچانےوالے ٹیکے بھی شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صحت کے بجٹ تو بنتے رہیں گے یہ کاروبار بھی شاید یونہی چلتے رہیں گے لیکن تعلیم کا بیڑا غرق کرنے والے موجودہ حکمران کیا عوام کی جان سے بھی اسی طرح کھیلتے رہیں گے؟



.
تازہ ترین