• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے حالات جس طرف جا رہے ہیں ، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے ۔ سیاسی عدم استحکام کے ایسے عوامل پیدا ہو چکے ہیں ، جنہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے روکا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ عوامل بہت پیچیدہ ہیں اور ماضی کے برعکس اس مرتبہ ان عوامل کا ان قوتوں سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے ، جو ماضی میں اس طرح کے عوامل پیدا کرتی رہی ہیں ۔
پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی ) تیزی سے اپنا کام کر رہی ہے ۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے قریبی لوگوں کا جو ردعمل سامنے آ رہا ہے ، وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پہلی دفعہ کچھ خدشات محسوس کر رہی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف نااہلی کا کیس بھی اپنے منطقی انجام تک جا رہا ہے ۔ عمران خان بھی پہلی مرتبہ لندن میں اپنے فلیٹ کی خریداری کے لئے رقم کی ٹریل دینے کی غرض سے دستاویزات جمع کر رہے ہیں ۔ سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاریوں اور ان پر مقدمات کی وجہ سے ان کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہونے لگا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں میاں محمد نواز شریف ، عمران خان ، اور آصف علی زرداری کی پوزیشن کیا ہو گی اور ملک کے ان تینوں بڑے سیاست دانوں کا کردار کیا ہو گا ۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا کہنا یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے بعد سارا احتساب ان کا ہو رہا ہے ۔ اگرچہ حسین شہید سہروردی کے ساتھ پاکستان میں ہونے والے سلوک کا موازنہ میاں محمد نواز شریف یا ان کے بیٹے حسین نواز کے ساتھ ہونے والے سلوک سے نہیں کیا جا سکتا لیکن میرے خیال میں جن قوتوں نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ احتساب کے نام پر غلط سلوک کیا ، وہ قوتیں اب بھی احتساب کے نام پر بہت کچھ کرنے والی ہیں ۔ احتساب کا جال پرانا ہے ۔ شکاری نئے ہیں اور شکار بھی نئے ہیں ۔ آج کے سیاست دان حسین شہید سہروردی نہیں ہیں اور انہوں نے احتساب کے لئے بھی خود جواز فراہم کر دیا ہے ۔ حسین شہید سہروردی جیسے سیاست دانوں کے احتساب کا کوئی جواز نہیں تھا اور آج تک احتساب کرنے والے تاریخ کے مجرم ہیں ۔اب احتساب کرنے والوں کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔ عدالتوں میں شواہد کی بنیاد پر مقدمات چل رہے ہیں ۔ سیاست دان عدالتوں سے ٹکرائیں گے تو خود ہی قصور وار ٹھہریں گے ۔
پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ چین کے ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ وژن کی وجہ سے پوری دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کے لئے ترقی کے امکانات بھی بہت ہیں اور یہ خطرات بھی زیادہ ہیں کہ کہیں پاکستان عالمی مفادات کی جنگ کا ایک بار پھر میدان نہ بن جائے ۔ ان حالات میں مضبوط اور تدبر والی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ نواز شریف ، عمران خان اور آصف علی زرداری کی جائیدادوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہونی چاہئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تینوں منجھے ہوئے سیاست دان ہیں ۔ علاقائی اور عالمی سطح پر ان کے نہ صرف گہرے روابط ہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کا بھی اعتراف کیا جاتا ہے ۔ علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور دنیا میں نئی صف بندی کی وجہ سے ان تینوں سیاسی رہنماؤں کا کردار پہلے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر میاں محمد نواز شریف پاناما کیس سے نکل آتے ہیں ، عمران خان کے خلاف نااہلی کے کیس کا فیصلہ بھی ان کے حق میں ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ’’ احتساب کا شکنجہ ‘‘آصف علی زرداری تک نہیں پہنچ پاتا تو بھی ان تینوں سیاست دانوں کا اتنا زیادہ ٹرائل ہو چکا ہے کہ ان کی سیاسی پوزیشن وہ نہیں رہی جو چند سال پہلے تھی۔
ہم اس بات پر خوش تھے کہ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہونے جا رہا ہے کہ دوسری حکومت جمہوری عمل کے ذریعے تیسری منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی لیکن ہم نے یہ محسوس نہیں کیا کہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ احتساب کا عمل بھی مضبوط ہو رہا ہے اور احتساب کے شکنجے میں سیاست دان ہی آ رہے ہیں ۔ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ احتساب صرف غیر جمہوری حکومتیں کرتی ہیں اور جمہوری حکومتیں احتساب سے بھاگتی ہیں ، ان کی یہ بات غلط ثابت ہو گئی ۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اس وقت احتساب کے شکنجے میں ہے یا شکنجے میں آنے والی ہے ۔
یہ غیر متوقع اور حیران کن بات ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی کے ساتھ ’’ احتساب کا نظام ‘‘ بھی اس قدر مضبوط ہو گیا ہے ۔ ہم اس احتساب کے نظام کی جزیات میں پڑیں گے تو وہ حقائق بھی سامنے آ جائیں گے ، اب تک جو پوشیدہ ہیں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا گہرائی سے اور سائنسی و جدلیاتی بنیادوں پر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ماضی میں جن قوتوں نے حسین شہید سہروردی کا احتساب کیا ، وہ قوتیں اب بہت کمزور ہو چکی ہیں ۔ اس وقت بہت طاقتور تھیں اور انہوں نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ ساتھ اس وقت کے ان سیاست دانوں کو بھی ایبڈو اور پروڈا جیسے احتساب کے سیاہ قوانین کے ذریعے سیاست سے بے دخل کیا ، جنہوں نے اپنا تن ، من دھن تحریک پاکستان میں لگا دیا تھا اور جن کی دیانت داری پر کوئی شک نہیں کر سکتا تھا ۔ یہاں تک کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی اور مولانا عبیداللہ سندھی جیسے قلندر لوگوں کی بھی احتساب کے نام پر تضحیک کی گئی اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا ۔ اس وقت احتساب کرنے والے اپنی ریاستی طاقت کے ذریعے ان سیاست دانوں کا احتساب کر رہے تھے ، جو اخلاقی طور پر بہت طاقتور تھے ۔ اس کے باوجود حسین شہید سہروردی کو جلا وطنی اختیار کرنا پڑی اور بیروت ( لبنان ) میں ان کی پراسرار موت ہو گئی ۔ آج احتساب کرنے والے سامنے نہیں ہیں اور وہ بہت کمزور بھی ہو چکے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کے سیاست دان اخلاقی طور پر حسین شہید سہروردی کی طرح طاقتور نہیں ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک کہتے ہیں کہ پاکستان میں ارجنٹائن والی صورت حال پیدا ہو رہی ہے ۔ اداروں کے ٹکرائو کے خدشات نے دیگر خدشات کو بھی جنم دے دیا ہے لیکن یہ تو واضح نظر آرہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پاکستان کی سیاسی قیادت اس قدر مضبوط نہیں ہو گی ، جس قدر بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں مضبوط ہونی چاہئے اور پاکستان میں وہ سیاسی استحکام نظر نہیں آ رہا جس کی نئے حالات میں ضرورت ہے ۔



.
تازہ ترین