• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کی موجودہ مخدوش ترین صورت حال کو دیکھتے ہوئے بہت دُکھ ہوتا ہے ۔اس شہر کو سندھ حکومت نے لاچار ،مجبور سندھ کابینہ کے سپر د کردیا ہے جو پورے شہر کو اجاڑنے میں اہم کردار اداکررہی ہے ۔خاص طور پر جب ایم کیو ایم تقسیم در تقسیم ہوچکی ہے۔سند ھ اسمبلی میں اس شہر کی طرف سے ایک بھی اردو بولنے والا پی پی پی جماعت کا نمائندہ الیکشن میں کامیاب آج تک نہیں ہوسکا۔ جس کی سزا اس شہر کو مسلسل مل رہی ہے۔پہلے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA)سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا۔کراچی کی گاڑیوں کا ٹیکس سندھ وہیکل ایکٹ کی نذر ہوا۔اب رہی سہی کسر کراچی میونسپل کارپوریشن کا حشر نشر کرکے کی جارہی ہے ۔پہلے اس کے میئرکے انتخاب میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے ،اختیارات من پسند ایڈمنسٹریٹر کے حوالے کئے گئے۔ جس نے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی صورت میں سابق میئر مصطفی کمال کی 5سالہ بہترین کارکردگی کو خاک میں ملاکر اس شہر کو کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا ،سڑکوں کی مرمت کا بجٹ کہاں گیا کسی کو نہیں معلوم سٹرکیں جو بالکل نئے سرے سے بنوائی گئی تھیں، مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کو کوئی اٹھانے والا نہیں ہے، پھر میئر کے انتخاب کے بعد اُس کا پورا بجٹ بحال نہیں کیا گیا جبکہ کراچی کے شہریوں سے تمام ٹیکس ایک ایک کرکے وصول بھی کرلئے گئے۔ پانی کا ٹیکس ،صفائی ستھرائی کا ٹیکس وغیرہ وغیر ہ وصول کرکے، کے ایم سی کو دینے کے بجائے حکومت سندھ خود اس پر قابض ہے۔پورا شہر سراپا احتجاج بن چکا ہے۔ جگہ جگہ دھرنے دیئے جارہے ہیں مگر سند ھ حکومت کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی۔آئے دن سند ھ کے چیف منسٹر ہائوس کا گھیرائو بھی ہوتا ہے ،گٹروں کے ڈھکنوں کی وجہ سے سابق چیف منسٹر قائم علی شاہ کی کرسی گئی اور نئے چیف منسٹر مرادعلی شاہ آئے نوجوان ہیں ،عزم رکھتے ہیں ،صرف ایک ہفتہ صبح صبح دفتر تشریف لاکر سندھ بیوروکریسی کی کارکردگی بہتر بنانے کوشش کی مگر سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تو وہ بھی تھک ہارکر ہمت ہار بیٹھے اور فرمایا کہ میں اکیلا سب کچھ نہیں کرسکتا ،عوام کو خود سب ٹھیک کرنا پڑے گا ۔
قارئین کی اطلاع کے لئے تاریخ کا ایک صفحہ پلٹتا ہوں ،جب پاکستان بنا تو سند ھ کے 3صوبے تھے ایک کراچی جو دارالحکومت تھا ایک صوبہ ریاست رانی پور تھا ،یعنی 2چیف منسٹر اور تیسرا صوبہ اندرونی سندھ کہلاتا تھا جس کا مرکز میں چیف کمشنر ہوتا تھا ۔کراچی کی خوبصورتی کا پورے ملک میں چرچا تھا ۔اُس کی ایک خوبصورتی چمکتا دمکتا سمندر تھا جسے دیکھنے پورے پاکستان سے لوگ آتے تھے پھر اس کو نظر لگ گئی ۔خان لیاقت علی خان کی شہادت کے صرف 2سال بعدملک یک لخت ایک یونٹ کے نام پر تجربے کی نذر ہوگیا۔یعنی مشرقی پاکستان جو آبادی کے لحاظ سے بڑا تھا،مغربی پاکستان دونوں کو ملاکر ون یونٹ کا نام دیا گیا کہ ایک اکائی کی طرح دونوں برابر شمار ہونگے ۔کراچی کی اہمیت کو کم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔زبردستی سیاستدانوں نے بیوروکریٹس کی مدد سےجاگیرداروں ،خان زادوں ،نواب زادوں کو پوری طرح پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا اور عوام کو سب نے پس پشت ڈال کر دن رات سیاسی دائو پیچ کا ڈرامہ شروع کیا۔ آئے دن حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں کہ پورے ملک میں مارشل لا لگاکر ایوب خان نے پہلا فوجی انقلاب برپاکردیا ۔پھر چند ماہ بعد کراچی کو سیکورٹی رسک قراردے کر اپنے آبائی گائوں ریحانہ کی پشت پر ایک جنگل اور پہاڑی علاقے کو اسلام آباد کانام دے کر نیا دارالحکومت بناکر کراچی کو یتیم کردیا ۔یہاں کے رہنے والوں نے پاکستان کی خاطر یہ ظلم بھی سہہ لیا یعنی صوبہ بھی نہ رہا اور دارالحکومت بھی نہ رہا۔ پھر بھی کراچی کی اپنی شان وشوکت برقراررہی وہ اُسی طرح عروس البلاد یعنی روشنیوں کا شہر بنا رہا پھر جب تمام سرکاری محکمے ایک ایک کرکے اسلام آباد منتقل ہوتے رہے تو اُس کی مرکزی حیثیت آہستہ آہستہ کم ہوکر ختم ہوگئی۔حتی کہ نیوی کا ہیڈ کوارٹر بھی کراچی سے منتقل کردیا گیا جو دنیا کاعجیب فیصلہ تھا ۔پھر مارشل لا اختتام کو پہنچا تو ایوب خان نے عوامی تحریک کے سامنے مطالبات ماننے کے بجائے اپنے ہی ایک ساتھی یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کردیا ،پھر بنگالیوں کے شور مچانے پر ون یونٹ کو توڑ کر 4زبانوں کی بنیاد پر 4صوبے بناڈالے ،سندھی ،پنجابی ،بلوچی اور پشتواور سب سے بڑی سب سے زیادہ بولنے اور سمجھنے والی 95فیصد اردو کو یک لخت نظر انداز کردیا گیا تو دوسری طرف مشرقی پاکستان جو مغربی پاکستان سے بڑی آبادی والا صوبہ تھا صرف ایک صوبے میں تبدیل کردیا گیا .چاہئے تو یہ تھا کہ جب مغربی پاکستان کے 4صوبے بنے تو مشرقی پاکستان کے بھی کم ازکم 5صوبے بنتے مگر ایسا نہ ہوا جو آگے چل کر ملک کو دولخت کرنے کا سبب بنا ۔اب یہاں سے پھر کراچی پر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹنے کا سلسلہ شروع ہوا ، مرحوم بھٹو صاحب نے 2فیصد اُردو بولنے والوں کا کوٹہ مقررکرکے ایک اورضرب لگائی جو آج تک زک پہنچارہی ہے۔پھر بھٹو صاحب کا اقتدار ختم کرکے مارشل لالگا ۔اب ضیا الحق تشریف لائے جب وہ بھٹو صاحب کو پھانسی لگانے میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کا زور توڑ نے کیلئے ایم کیوایم یعنی مہاجر قومی موومنٹ بنواکر اُردو بولنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے 2زبانوں میں ٹکرائو کا پہلا تجربہ کیا اور اس طرح الطاف حسین اُردوبولنے والوں کے بے تاج بادشاہ بن گئے اور اُس کے بعد سندھ کا نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوا۔انہوں نے الطاف حسین کے ذریعے کراچی میں رہنے والے دیگر باشندوں کو ایک ایک کرکےلڑوایا اس طرح اُردو بولنے والوں کا زوال شروع ہوگیا ۔اور الطاف حسین ہر حکومت میں رہتے ہوئے مہاجروں کے حقوق فروخت کرکے اقتدار سے چمٹے رہے اور کراچی اپنی اصلی صورت کھو بیٹھا ۔سندھ حکو مت گزشتہ 25سالوں سے اس شہر کی آمدنی پر مضبوط سے مضبوط تر ہوچکی ہے۔اس کی زندہ مثال آج میئر کراچی کی کوئی حیثیت نہیںہے جبکہ اس 20ملین آبادی والے شہر کا بجٹ 20ارب روپے مرکزی حکومت نے منظور کرکے پورے شہر کی توہین کی ہے۔لاہور کا بجٹ 200ارب ،اسلام آباد جو کراچی کے ایک چھوٹے سے کونے کے مانند ہے 37ارب ہے۔بھارت کے ہم پلہ شہر بمبئی کا بجٹ 700ارب ہے جبکہ صرف کراچی 4200ارب کاحصہ مرکز کو دیتا ہے۔5310ارب روپے کے بجٹ میں 20ارب یعنی صرف 0.35فیصد آدھے فیصد سے بھی کم حصہ رکھا گیا جبکہ صرف سود پر 1400ارب اور دفاع کے لئے 920ارب اور خسارہ تقریبا 1400ارب کے سامنے 20ارب 200ملین افراد کے لئے یعنی 100روپے ہر شہری کی فلاح وبہبود ،تعلیم ،علاج ومعالجہ ،امداد وغیرہ وغیرہ کے لئے مختص کئے ہیں۔ کراچی کے شہریوں،تمہیں 20ارب مبارک ہوں۔جبکہ 100ارب روپے صرف وی وی آئی پی افراد کی سیکورٹی کے لئے مختص ہیں ۔یہ ہے متوازن بجٹ جو 5سال سے ہمارے موجودہ وزیر خزانہ پیش کررہے ہیں ۔



.
تازہ ترین