• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں موجودہ حکومت نے اپنے دور کا پانچواں انتخابی بجٹ پیش کیا۔ بجٹ سے ایک روز قبل وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے معاشی سروے 2016-17ء پیش کیا جس کی رو سے ملکی معیشت 300 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے، ملکی جی ڈی پی کی شرح 5.7 فیصد ہدف کے مقابلے میں 5.3 فیصد رہی، صنعتی شعبہ 7.7 فیصد ہدف کے مقابلے میں 5 فیصد گروتھ حاصل کرسکا جس میں بڑے درجے کی صنعتوں کی 4.9 فیصد گروتھ بھی شامل ہے، زرعی سیکٹر نے اپنے 3.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 3.4 فیصد گروتھ حاصل کی جبکہ سروس سیکٹر کی گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال 2 فیصد اضافی گروتھ دیکھنے میں آئی جو 6 فیصد ہدف کے مقابلے میں 5.7 فیصد رہا۔ سروس سیکٹر کے اہم شعبوں بینکنگ و انشورنش نے 11فیصد، حکومتی سروسز6.9فیصد، نجی سروسز6.3فیصد، کنسٹرکشن4فیصد، مواصلات و ٹرانسپورٹ 3.9فیصد اور ٹریڈ نے 6.8فیصد گروتھ حاصل کی۔
پاکستان کی معیشت میں صنعت کا حصہ 20.9 فیصد، زراعت 19.5 فیصد اور سروس سیکٹر کا 59.6 فیصد حصہ بنتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملکی معیشت کے زرعی اور صنعتی سیکٹرز سکڑ رہے ہیں جبکہ سروس سیکٹر فروغ پارہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی زرعی پیداوار صنعتوں کا خام مال ہے۔ کپاس، گنا اور دیگر زرعی پیداوار ٹیکسٹائل، شوگر وغیرہ ہماری صنعتوں کی کھپت ہیں۔ زرعی اور صنعتی شعبہ ملک میں نئی ملازمتیں اور ایکسپورٹس میں اضافہ کرتا ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالموں میں ان خدشات کا اظہار کرچکا ہوں کہ اگر ہم نے اپنے زرعی اور صنعتی شعبوں کو سپورٹ نہیں کیا تو سروس سیکٹر میں اضافے سے پاکستان مستقبل میں ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بن سکتا ہے۔ نئی ملازمتوں کے مواقع اور ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے ہمیں اپنے زرعی اور صنعتی سیکٹر کو فروغ دینا ہوگا۔ حکومت نے افراط زر کو کامیابی سے 4 فیصد کی حد پر رکھا ہے لیکن مستقبل میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر اس کا ہدف 6 فیصد کیا گیا ہے۔ اس سال بھی ملکی ایکسپورٹس میں 3 فیصد کمی ہوئی ہے اور ایکسپورٹس 9 مہینے میں 17.9 ارب ڈالر رہی ہیں۔
رواں مالی سال کے آخر تک توقع ہے کہ یہ 21.6 ارب ڈالر تک پہنچ جائے جبکہ چند سال پہلے ہماری ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے زائد تھیں جبکہ ملکی امپورٹس گزشتہ سال کے 33.44 ارب ڈالر کے مقابلے میں 18.7 فیصد اضافے سے 37.8 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جس میں 40 فیصد سی پیک اور ٹیکسٹائل مشینری کی امپورٹس شامل ہیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس کا اثر روپے کی قدر میں کمی کا باعث بنے گا۔ مجھے ملکی قرضوں اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں تیزی سے اضافے پر تشویش ہے جو گزشتہ 9 مہینوں میں 7.25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور 12 مہینے میں 9 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتا ہے جبکہ گزشتہ سال اِسی دورانئے میں یہ صرف 2.5 ارب ڈالر تھا جس کی ایک وجہ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر (15.6 ارب ڈالر) اور غیر ملکی سرمایہ کاری (1.7 ارب ڈالر) میں کمی ہے۔ ہمارے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو 24 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے، کم ہوکر اب 20.93 ارب ڈالر تک آگئے ہیں جس میں 16.15 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے ڈپازٹس ہیں۔ پاکستان کی فی کس آمدنی 6.4 فیصد اضافے سے 1,629 ڈالر پہنچ گئی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت 3500 ارب روپے کا ریونیو وصولی کا ہدف حاصل کرلے گی اور اس بنیاد پر حکومت نے 2016-17ء کا ریونیو ہدف 4000 ارب روپے رکھا ہے۔ لیکن ریونیو کا ہدف حاصل کرنے کے باوجود ہمارے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ نہیں ہورہا اور موجودہ ٹیکس کی جی ڈی پی کی شرح جمود کا شکار ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اضافی ٹیکس کیلئے موجودہ ٹیکس دہندگان پر ہی اضافی ٹیکسوں کا بوجھ بڑھارہی ہے جس سے اِن ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ٹیکسوں کی وصولی کیلئے حکومت کا انحصار ان ڈائریکٹ ٹیکسز مثلاً ودہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس، ٹرن اوور ٹیکس وغیرہ پر بڑھتا جارہا ہے اوریہ ڈائریکٹ ٹیکسز مجموعی ریونیو کا 60 فیصد سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ دنیا ان ڈائریکٹ ٹیکسز کو ختم کرکے ڈائریکٹ ٹیکسز کے نظام کو اپنارہی ہے۔
وزیر خزانہ کے مطابق بجٹ کا مالی خسارہ 4.2 فیصد ہے جبکہ اس کا ہدف 3.8 فیصد تھا لیکن اگر اس میں 250 ارب روپے ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈ اور 480 ارب روپے سرکولر ڈیٹ کی واجب الادا رقم شامل کرلی جائے تو بجٹ کا مالی خسارہ 5 فیصد کے قریب پہنچ جائے گا۔ بجٹ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک انتخابی بجٹ ہے جس میں حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کیلئے گزشتہ سال کے مقابلے میں 25فیصد اضا فہ کرکے ایک کھرب روپے مختص کئے ہیں جس میں 135 ارب روپے وزیراعظم کے خصوصی ترقیاتی اسکیموں کیلئے ہیں جو الیکشن مہم میں وزیراعظم کی صوابدید پر خرچ کئے جائیں گے۔ حکومت نے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور پنشن داروں کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا ہے جبکہ پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے ان سفید پوش ریٹائرڈ افراد جو اپنی جمع پونجی سے خریدے گئے مکان یا دکان کے کرائے یا بینک ڈپازٹس کے منافع پر اپنی گزراوقات کرتے ہیں، کے بینکوں کے منافع پر ودہولڈنگ ٹیکس 10فیصد سے بڑھاکر 15فیصد کردیا ہے جبکہ گزشتہ چند سالوں میں رینٹ پر 15 فیصد وفاقی اور 8 فیصد صوبائی ٹیکسز لگادیئے گئے تھے جس سے ایک غریب انسان کی ایک چوتھائی آمدنی ٹیکسوں میں چلی جاتی ہے۔ بجٹ میں سیمنٹ کی 50 کلو بوری پر 18 روپے اور سریا پر 3,000 روپے فی ٹن فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے جس سے تعمیراتی لاگت میں اضافہ ہوگا۔اس کے برخلاف بجٹ میں پولٹری فارمنگ سیکٹر کو پرکشش مراعات دینے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں 5 فیصد آرڈی کا خاتمہ اور کسٹم ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کرنا شامل ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم کی فیملی پاکستان میں بڑے پیمانے پر پولٹری بزنس سے منسلک ہے۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ دنیا میں پانچویں بڑی اسٹاک مارکیٹ قرار دی گئی ہے اور جلد ہی MSCI پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے موجودہ بجٹ میں ڈیویڈنٹ پر انکم ٹیکس 12.5 فیصد سے بڑھاکر 15 فیصد کردیا ہے جس کا منفی اثر اسٹاک ایکسچینج میں دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں ٹیکسٹائل صنعت کو دی گئی مراعات کو مزید ایک سال کیلئے بڑھادیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ایکسپورٹرز کے 250 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ جن کے آر پی اوز جاری کئے جاچکے ہیں، 14 اگست 2017ء تک ادا کردیئے جائیں گے۔ماضی میں بھی اس طرح کے کئی بار حکومتی وعدے کئے جاچکے ہیں اور ایکسپورٹرز کی 2 سال سے ریفنڈز کی عدم ادائیگی نے ٹیکسٹائل صنعت کو بٹھادیا ہے۔ اس بار بھی بجٹ میں سماجی شعبوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ حکومت کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں جی ڈی پی کا بالترتیب 4 فیصد اور 2 فیصد مختص کرنا ہوگا جو مجھے اس انتخابی بجٹ کی ترجیحات میں نظر نہیں آتا۔



.
تازہ ترین