• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماہ ِ رمضان میں قدرتی موسم تو گرم ہے ہی سیاسی فرنٹ پر بھی معاملات میں گرما گرمی پر عوامی اور کاروباری حلقوں میں دن بدن تشویش بڑھ رہی ہے اور حکومتی اراکین اور معتبر اداروںمیں اعلانیہ اور غیراعلانیہ کشیدگی بھی کسی لحاظ سے اچھی نہیں ہے جس سے نقصان یہ ہو رہاہےکہ ملک میں کوئی نیا مارشل لا لگے یا نہ لگے بہرحال عوام کی اکثریت، جس کا سیاست اور جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ دو وقت کی روٹی کے لئے تگ و دو میں مصروف ہیں۔ وہ اگر کوئی ایسا ویسا سوچناشروع کردیں تو پھر کیا ہوگا؟ اوپرسے رمضان المبارک کا مہینہ ہو جس میں ہمارا ایمان ہے کہ مشکلات سے گھرے ہوئے افراد سمیت سب کی دعائیں بڑی قبول ہوتی ہیں۔ کہیں ایسا ہی نہ ہوجائے۔ اس وقت سیاسی حالات میں کشیدگی کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک میں افہام و تفہیم اور برداشت کی سوچ کو رواج دیا جائے۔ اس سلسلہ میں پہل وزیراعظم نواز شریف کوکرنا چاہئے۔ انہیں اپنے 40سالہ تجربہ کی بنیاد پر سیاسی معاملات کی ہینڈلنگ کرنا بھی آتی ہے۔ وہ خود اپنے مخالفین آصف علی زرداری اورخاص کر عمران خان کو ملاقات کی دعوت دیں۔ اس لئے کہ آئندہ انتخابات میں میاں نواز شریف کے خاندان اور پوری مسلم لیگ (ن) کو PTI کی فکر ہے کہ ان سے ہر جگہ سیٹ ٹو سیٹ مقابلہ ہو گیا تو انہیں الیکشن اپنی مرضی کی سوچ کے تحت جیتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ حکومت کے لئے بہتر ہے کہ اعلیٰ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے لئے پارٹی کے اندر چند مخصوص افراد کے دبائو میں نہ آئیں وہ تو حالات بدلنے پر کسی اور جگہ بھی جاسکتے ہیں مگر وزیراعظم نواز شریف اور ان کا خاندان کہاں جائے گا؟ یہ سب سوالات ہیں جس کے حوالے سے ملکی سرمایہ کار اور بزنس مین پریشان ہیں کہ اگر ایسے ہی حالات رہے تو کاروباری سرگرمیوں میں تیزی تو نہیں آئے گی البتہ مندی کارجحان بڑھ سکتا ہے۔ جس سے کئی شعبوں میں حکومتی کارکردگی کے باوجودانہیں شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت تو حکومت بڑی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت نئے مالی کے بجٹ سے عوامی توجہ ہٹانےمیں کامیاب رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں رمضان المبارک میں صدر پاکستان کے خطاب کی کیا جلدی تھی۔ دوسری طرف پارلیمنٹ میں ایسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے تاکہ کسی نہ کسی ایوان میں کورم پورا نہ ہو اورزیادہ وقت ہنگامہ آرائی کی نذر ہو جائے جس سے نئے بجٹ کے کئی معاملات پر ممبران اسمبلی کی ایک قلیل تعداد بھی اپنے ردعمل کا اظہار نہ کرسکے۔ اس طرح کی سوچ سے تعمیری منصوبہ بندی ہمیشہ متاثر ہوتی ہے اور جب ایسا ہوتاہے تو پھر سب سے زیادہ معیشت اس سے متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کے بارے میں حکومتی موقف بڑا واضح ہے کہ پاکستان میں ترقی و خوشحالی پورے ریجن میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے اور پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کے خدشات بھی ختم ہوچکے ہیں بلکہ پاکستان دنیا کی بڑی معیشت 10سے 20ممالک میں یعنی G-20 میں شامل ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن اور خاص کر PTIاس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ عوام کے ساتھ دھوکہ ہورہا ہے۔ معیشت کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے بتائے جارہے ہیں۔ بجلی کا بحران بھی اسی طرح موجود ہے اور ملک میں نہ تو مہنگائی کم ہوئی ہےاور نہ غربت بلکہ حقیقی طور پر دیکھیں تو دونوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ان مسائل کا حل یہی ہے کہ ملکی حالات میں کسی طریقے سے استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ دوسرا امن و امان کی صورتحال، جو کسی بھی لحاظ سے اطمینا ن بخش نہیں ہے، اسے بہتر بنانے پر فوکس کیاجائے۔ ایک ماہ اگر وزیراعظم سے لے کر وزرائے اعلیٰ اور وزرا کی تقاریر کا سلسلہ بند کردیاجائے اور صرف فوکس ’’گورننس‘‘ کی بہتری کے لئے اقدامات کرلئے جائیں تو اس سے لاتعداد ملکی مشکلات حل کرنے میں بڑی مددمل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم مشکل ترین سیاسی حالات کے باوجود ملک بھر کے بزنس مینوں کا اجلاس بلائیں اور ان سے اس طرح مشاورت کریں جیسے وہ 1990 کی دہائی کے آغاز میں کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں وہ FPCCI کی موجودہ قیادت اور اس کے صدر زبیر طفیل وغیرہ سے تجاویز طلب کریں کہ پاکستان کے عوام کے معاشی مسائل حل کرنےکےلئے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ عوام اب حکمرانوںاور سیاستدانوں کی روز بروز کی تقاریر سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام اپنے مسائل کا کنکریٹ حل چاہتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں۔


.
تازہ ترین