• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی تقریر اسمبلی ہال میں سننے کا موقع ملا۔ توقع تھی کہ یہ بجٹ عوامی ہوگا اور 2018ء کے بجٹ کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ موجودہ حکومت کا آخری بجٹ تھا۔ اس سے پہلے چار بجٹ یہ حکومت پیش کر چکی ہے، وزیر خزانہ نے اِس بات کو بطور فخر پیش کیا کہ قرضے صرف ترقیاتی کاموں کے لئے حاصل کئے جارہے ہیں، اگرچہ قرضہ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم یہ اچھی بات ہے کہ روزمرہ کے معاملات پر خرچ نہیں کیاجائے گا۔ انہوں نے یہ نوید بھی سنائی کہ ملک میں انتہائی مشکل اساسی اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا گیا، اِس سے عالمی برادری کا ہمارے معاشی ایجنڈے پر اعتماد مضبوط ہوا۔ 16 اور 18 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جو اب گھٹ گئی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کئی اخبارات نے لکھا ہے کہ ہم نے کوئی مقبول عام بجٹ پیش نہیں کیا اور نہ ہی یہ الیکشن بجٹ کے طور پر پیش کیا جو درست تاثر ہے کیونکہ 2013ء میں ایک پالیسی وضع کرلی تھی اور راہ متعین کرلی تھی کہ کس طرف جانا ہے، اپنے معاشی وژن کا تعین کرلیا تھا۔ اسی وجہ سے بقول اُن کے چار سال پہلے کے مقابلے میں آج پاکستان زیادہ خوشحال ہے اور عوام اپنی آئندہ نسلوں کیلئے بہتر مستقبل کی اُمید رکھتے ہیں۔ مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عوام کی فلاح کے لئے مل جل کر کام کریں۔ بقول اُن کے ہم اسے فقط ایک آغاز سمجھتے ہیں اور ہمیں اپنی کوشش مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم 2030ء سے پہلے ہی دُنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائیں۔ یہ صرف تب ہی ممکن ہوگا اگر پوری پاکستانی قوم متفقہ معاشی ایجنڈے پر یکسوئی سے عمل پیرا ہو۔
وزارت خزانہ نے اپنی رپورٹ میں GDP شرح نمو 5.28 فیصد قرار دی اور آئندہ سال کیلئے 6فیصد کا ہدف مقرر کیا۔ زراعت کے میدان میں ہماری معیشت پچھلے سال منفی تھی اب اُس کی شرح نمو 3.46 ہوگئی ہے اور زراعت کے شعبے میں صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔ صنعتی پیداوار کی شرح پیداوار 5.02 فیصد قرار دی۔ سروس سیکٹر جس میں بینک، ہائوسنگ، ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہے، اُسکی شرح نمو 5.9 فیصد ظاہر کی گئی ہے ۔ اُن کا فرمانا تھا کہ 2013ء میں فی کس آمدنی 1.334 ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 1.629 ڈالر ہوگئی جس سے شخصی آمدنی میں کوئی بڑی تبدیلی کا اظہار نہیں ہوتا۔ بجٹ تقریر کے مطابق مہنگائی کی شرح جو 2013ء میں 12 فیصد تھی وہ اب گھٹ کر 4.7 فیصد ہوگئی ہے۔ اُن کا شرح سود میں کمی کا دعویٰ درست ہے کہ 45 سال کے دورانیہ میں اس وقت شرح سود 5.75 فیصد ہوگئی ہے جو پہلے 9 سے 10 فیصد تھی۔ مگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح صرف ایک فیصد اور آدھا فیصد ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ نے خصوصی رعایات دینے کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولٹری میں ڈیوٹی کو 11 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کردیا ہے اور 5 فیصد RDٹیکس بھی ختم کردیا ہے۔ انڈوں پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کردی ہے۔ جانوروں کی کھالوں کے چمڑے پر 3 فیصد کا استثنیٰ دے دیا ہے۔ شتر مرخ فارمنگ میں کوئی ڈیوٹی نہیں لگائی گئی۔ صحت کا شعبہ حکومت کی ترجیح رہا ہے۔ فارما اور بائیو ٹیکنالوجی اور لائف سائنسز میں استعمال کو فروغ دینے کے لئے Prefabricated Clean Rooms کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کردی گئی ہے۔ مقامی صنعت کی حفاظت کے لئے پولسٹر کپڑے پر 5 فیصد ڈیوٹی، المونیم مشروبات پر ڈیوٹی 11فیصد بڑھا کر 20فیصد کردی گئی ہے۔ زمینداروں کو زرعی قرضے دینے کیلئے رقم میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ زراعت کو فروغ ملے۔5 سال تک ہم اس پالیسی پر عمل کرتے رہے جس کی وجہ سے معاشی استحکام ملا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جو اہداف ہم نے مقرر کئے ہیں اگر آنے والی حکومت ان کی تقلید کرے تو ہم G-20 میں شامل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ملازمین کی تنخواہ بڑھا دی ہے، شہداء کے ورثاء کے لئے بھی امداد میں اضافہ کیاہے، معذور افراد کو بھی رعایت میں فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بیت المال کی امداد میں اضافہ کیا ہے۔ بیوائوں کی امداد کو بھی بڑھا دیا ہے۔ بلوچستان، فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی اضافہ کیا ہے جس سے 21لاکھ فیملی مستفید ہوں گی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ غیرممالک سے جو پاکستانیوں کی طرف سے زرمبادلہ آتا ہے وہ 13.9 ملین ڈالرز سے بڑھ کر 19.9 ملین ڈالرز ہوگیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی روپے اور غیرملکی کرنسیوں کے تبادلے کی شرح مستحکم ہوئی ہے تاہم انہوں نے 120 بلین روپے کے ٹیکس عائد کئے ہیں۔ عام اشیا اور ایسی اشیا جن کا عوام سے براہ راست تعلق ہے ان پر ٹیکس نہیں بڑھایا ہے۔
اگرچہ انہوں نے چھٹا بجٹ پیش کرنے کی خواہش کا اظہار برملا کیا جس سے ایک ریکارڈ قائم ہوجائے گا مگر انہوں یہ بھی کہا کہ اگر ایسا نہ بھی ہوا تو آنے والی حکومت پرہے اگر وہ ہماری طے شدہ پالیسی کو آگے بڑھائے گی تو ملک آگے بڑھے گا اور G-20کے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا۔ ٹیکس دینے والوں کی تعداد جوساڑھے دس لاکھ تھی ، وہ گھٹ کر ساڑھے سات لاکھ ہوگئی تھی اب ساڑھے بارہ لاکھ ہوگئی ہے، جو نہ بڑھنے کے مترادف ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد اس وقت کم سے کم بیس لاکھ ہونا چاہئے تھی جو حکومت کی کوتاہیوں کی وجہ سے نہیں ہوپائی۔ 2018ء تک اس تعداد کو بیس لاکھ کی سطح کو چھو لینا چاہئے، جو لوگ بھی ملک سے باہر جاتے ہیں اُن کو اپنا ٹیکس نمبر بنا دینا چاہئے ورنہ ان کو ایئرپورٹ پر ہی ٹیکس نمبر الاٹ کر دینا چاہئے تاکہ وہ ٹیکس ادا کرنے والا شہری بن جائیں۔ مزید برآں بہت سے امراکو ٹیکس ادا کرنا چاہئے جن کو ایف بی آر اچھی طرح جانتا ہے، بہت سے پیشے ایسے ہیں جو کماتے تو بہت ہیں مگر ٹیکس کم دیتے ہیں۔ جبکہ ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہی ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک معروف وکیل جو 1980ء کے عشرے میں 84 لاکھ ٹیکس ادا کرتے تھے جو کہ اُن کی آمدنی کا دس فیصد ہوتا ہے مگر ٹیکس افسران اُن سے بھی یہ کہنے سے نہیں چوکتے تھے کہ ایک آدھ لاکھ اور بڑھا دیں یعنی وہ ایماندار شخص یا ٹیکس ادا کرنے والے شخص کو ہی دباتے تھے۔ اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ تاہم یہ خواب اچھا ہے کہ ملک معاشی طاقت بنے اور G-20میں شامل ہو کر ایک مقام حاصل کرے۔ شاید چین پاکستان اقتصادی راہداری کے شروع ہونے پر یہ ممکن ہوسکے۔ بجٹ متوازن ہے اور اس کا رُخ درست سمت میں ہے مگر پھر بھی کئی شعبے اور گوشے ایسے ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو توجہ دلاتے ہیں کہ انقلابی اقدامات کئے جائیں اور جیسا کہ میاں نواز شریف کا وعدہ تھا کہ وہ معاشی دھماکہ کریں گے سو اِس سال ہوجانا چاہئے تھا۔ وہ انرجی سیکٹر میں بہت کچھ کرچکے ہیں اور شاید 2020ء میں یہ معاشی دھماکہ ہو ہی جائے۔ اگر موجودہ حکومت کو موقع ملا۔



.
تازہ ترین