• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو اس شرمناک حقیقت کا سامنا ہے کہ غیرمسلم معاشرے امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا وغیرہ جہاں مسلمانوں کی تعداد دو فیصد سے زیادہ نہیں وہاں مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی اور مقدس مہینے کے احترام میں کھانے پینے اور ضروریات کی دیگر اشیا کی قیمتیں 30سے50فیصد کم کردی جاتی ہیں۔لیکن پاکستان جیسے مسلمان ملکوں میں ماہ ِرمضان کے شروع ہوتے ہی اشیائے خورونوش کی قیمتیں 100فیصد سے 200 فیصد تک بڑھا دی جاتی ہیں مگر حکومت اور ریاست کے دیگر ادارے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ کوئی بھی برا ارادہ یا خیال جو انسان کے دل میں پیدا ہوتا یا دماغ میں اُبھرتاہے اس کے خلاف پہلی مزاحمت انسانی ضمیر کے اندر سے ابھرتی ہے۔ اسی طر ح انسانی جسم کے اندر پیدا ہونے والی کوئی بیماری ہو یا باہر سے لگنے والا کوئی زخم، خون کے اندر ہی اس کا علاج اور رفوگری کا نظام فوراً متحرک ہو جاتا ہے جوبہتے خون کو روکتا، زخم کو بھرتا اور ہڈیوں کو جوڑتاہے۔ وائرس اور دوسری بیماریوں کے خلاف بھی قدم اٹھاتا ہے۔ ہماری 70سالہ قومی زندگی میں آج پہلا موقع ہے کہ زہر گھولنے اورز خم دینےوالے سماج دشمنوں کے خلاف معاشرے کے اندر سے خودکار نظام متحرک ہوا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کے خلاف خودکار نظام نے موثر مزاحمت کی۔ یہ بڑی ہی خوش آئند پیش رفت ہے جو پاکستان کے بیمار معاشرے کو توانااور صحت مند بناسکتی ہے۔ ایک بڑے انقلاب کا چھوٹا سا آغاز قوم کو مبارک خصوصاً ان نوجوانوں کو جنہوں نے ’’مافیا‘‘ کے خلاف مزاحمت کا بیڑہ اٹھایا۔
رمضان المبارک میں مہنگائی کے خلاف پھل فروشوں کے بائیکاٹ کا مشورہ دینے والے اس مظلوم اور مایوس قوم کے محسن ہیں جنہوں نے جرائم پیشہ منافع خوروں کے مقابلے کے لئے پرامن اورباوقار رستہ سجھایا۔ اس راہ کو اختیار کرکے ہماری قوم طویل مسافت کو تھوڑے وقت میں طے کرسکتی ہے۔ یہ عتیق بیگ صاحب ہیں جن کی پوسٹ سوشل میڈیا پر دیکھی۔ وہ لکھتے ہیں ’’رمضان المبارک سے دو دن پہلے اپنی ’’وال‘‘ پر ایک پوسٹ لگائی۔ ’’تین روزصرف تین روز صبر کرلیں۔ رمضان المبارک میں کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرنے کی بجائے اپنی روٹین برقرار رکھیں تو آپ یقین کریں سارے بلیک میلر ذخیرہ اندوز آپ کے قدموں میں آن گریں گے۔ پھر 150والی کھجور 500کی بجائے صرف 100 روپے میں ملا کرے گی۔‘‘ کافی دوستوں نے اس سے اتفاق کیا۔ میں اٹل تھا کہ مجھے تو یہی کرنا ہے۔ پہلے تین دن صرف فروٹ ہی نہیں ساری بازاری چیزوں سے پرہیز کیا۔ اچانک کراچی کے ایک کونے سےسوشل میڈیا کے ذریعے 2،3اور 4جون کو مہنگے پھلوں کے خلاف بائیکاٹ مہم کا آغازہو گیا۔ پہلے تین روزبائیکاٹ کرچکا تھا۔ فوراً ہی اس مہم کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور دوستوں کو بھی اس کی حمایت پر آمادہ کیا کہ تین دن پھل نہ کھانےسے آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ ویسے بھی کروڑوں پاکستان جو خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کی زندگی میں پھل ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس بائیکاٹ کے خلاف لوگوں کا ردعمل آنا بھی شروع ہوگیا۔ ردعمل دینےوالے دوستوں کی نیت بھی غریب آدمی کو نقصان نہ پہنچانے کی ہے۔ ان دوستوں کے جذبہ ٔ خیر کو بھی سلام لیکن عرض ہے کہ ریڑھی والا اگلے دن وہ چیز ہرگز نہیں خریدے گا جس کا گاہک بازار میں نہ ہو لیکن ریڑھی کے پیچھے جو پھل مافیا ہے اس کی دُم پربھاری پائوں آجائے گا کیونکہ اس طرح کےاحتجاج کا ہمارے ہاںرواج نہیں ہے۔ اس لئے کچھ لوگ مخمصے کا شکار ہیں۔ اس احتجاج کو بارش کاپہلا قطرہ سمجھا جائے۔ اگر یہ کامیاب ہو گیا تو آنے والے دنوں میں ذخیرہ اندوزوں کی گردن پر پائوں رکھنا آسان ہو جائےگا۔
مائوزے تنگ نےکہا تھا ’’تبدیلی کے لئے آپ نے ایک طبقے کو مکمل طور پر کچلنا ہوتاہے اس لئے یہ کام انتہائی شائستہ اندا ز میں نہیں ہوسکتا‘‘ ہاں جو لوگ احتجاج کے خلاف مسلسل ردعمل دے رہے ہیں ان کے لئے ایک مشورہ مفت ہے آپ بائیکاٹ ناکام بنانے کےلئے اپنی ضرورت سے دس گنا خریدیں۔ اس کے بھی کئی فائدے ہوں گے۔ ایک توریڑھی والے کو فرق نہیں پڑے گا دوسرا یہ کہ جو پھل آپ زیادہ خریدیں گے اسے غربامیں تقسیم کریں یوں آپ کے ثواب میںبھی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
انجینئر افتخار چوہدری لکھتےہیں ’’1791کے برطانیہ کی بات ہے۔ اُس وقت وہاں غلامی کارواج تھا۔ غلاموں کی بڑی تعداد شکر کے کارخانوں میں کام کرتی تھی۔ وہاں کےشہریوں میں شعور پیدا ہوا تو انہوں نے غلامی کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی تو آواز اٹھانے والوں پر سختی شروع ہوگئی۔ لوگوں نے پرامن مگرزیادہ موثر طریقوں پر غور شروع کیا۔ اس زمانے میںسوشل میڈیا تو تھا نہیں لوگوں نے پمفلٹ لکھے، چھاپے، تقسیم کئے۔ پمفلٹ پر ایک ہی جملہ لکھا ہوتا No to sugar of slavery۔ اس زمانے کے مقتدر اہل دانش نے شور مچایا کہ بیچارے غلام تو روٹی ہی تب کماتے ہیں جب وہ چینی پیدا کرتے ہیں۔ اگر عوام چینی نہیں خریدیں گے تو یہ غریب لوگ بھوکوں مر جائیں گے۔ لوگوں کو ڈرایا بھی گیا، دھمکایا بھی، پمفلٹ ضبط کئے مگر عوام دُھن کے پکے تھے۔ وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ بائیکاٹ جاری رہا تو شکر کے تاجروں نے ہندوستان سے شکر درآمد کرنا شروع کردی۔ غلاموں کے استحصال پر قائم کارخانے بند کرنا پڑے۔ یہ مہم غلامی کے خاتمے کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی طرح پاکستانی کوشش کررہے ہیں کہ پھلوں کی قیمت پر ناجائز منافع نہ لیا جائے تو اس کے خلاف بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ یاد رکھئے جیسے ہی حقیقی بائیکاٹ شروع ہوا تو دکانوں میں پڑا پھل مناسب داموں ملنا شروع ہوجائے گا۔ اگر یہ مہم ناکام ہو جائے پھر بھی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اسے ہم اگلے بڑے قدم کی ریہرسل سمجھ لیںگے۔ اس لئے محض تین دن کے بائیکاٹ پر ہی ماڈل ٹائون لاہور کی بربریت کا دفاع کرنےوالے اچانک پھل فروشوں کی فکر میں دُبلے ہورہے ہیں۔ باقی جو لوگ پرخلوص نقاد ہیں وہ جلد ہی حقائق جان کر اس مہم کا ساتھ دیں گے۔یہی اصل اور حقیقی تبدیلی کا نقطۂ آغازہے۔ کراچی اوراسلام آباد سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پھل فروشوں کے بائیکاٹ کی عوامی مہم کے نتائج بڑے حوصلہ افزا ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز کی رپورٹ کے مطابق کیلا، خربوزہ، تربوز، آم، سیب، آڑو، آلوچے کی قیمتوںمیں حیرت انگیز کمی دیکھنے میں آئی اکثر جگہ پھل کی قیمت آدھی سے بھی کم سطح پر آگئی ہے۔
لاہور سے طارق محمود لکھتے ہیں ’’شاباش اہل پاکستان شاباش۔ یہ صرف پھلوں کی خریداری سے رُکنے کی بات نہیں یہ سماجی شعور کے ارتقا کامعاملہ ہے، ہم تحاریک دوسری قوموں کے لئے چلائیں یا برے حکمران کو زیادہ برے سے بدل دینے کے لئے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ اہل وطن کسی اور کے لئے نہیں اپنے لئے بیدار ہوئے ہیں۔ ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے تاجروں کی پیداکردہ سفاکانہ مہنگائی کے خلاف کوئی تشدد نہیں، توڑ پھوڑ نہیں، کوئی جلسہ جلوس نہیں، پرامن طریقے سے ظالم کو اس کے ظلم کا احساس دلانے اور حکمرانوں کو اپنے فرائض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ سماجی ارتقا کی بڑی نشانی ہے اور سوشل میڈیا اس شعور کو بیدارکرنے پر مبارکباد کا مستحق ہے۔ دوسری علامت یہ ہے کہ اپنی تقدیر بدلنے کے لئے ہمیشہ سے کسی لیڈر کی منتظر قوم، کسی لیڈر کا انتظار کئے بغیر اپنے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ہمارے قومی مزاج میں بہت بڑی اور مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ مزاج ترقی پا کر بدعنوانی، دہشت گردی سمیت ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا چلاجائے گا۔ ہر اچھے شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ان لوگوں کا ساتھ دے جنہوں نے قوم کے شعور کو ایک پرامن مگر انتہائی موثر راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ تین دن فروٹ نہ خریدنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہی انتظار کی نفسیات میں جینے سے نکل کر عمل کی دنیا میں قدم رکھنےکا معاملہ ہے۔ تحریک حسب ِ توقع کامیاب نہ ہو پھر بھی ایک نئے سنگ میل کا نقطہ ٔ آغاز ثابت ہوگی۔ جس میں قوم لیڈروںکا انتظار کرنے کی بجائے اپنے اوپر بھروسہ کرنا سیکھے گی۔ اس تحریک کا تصور ہی اہل پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔
شایداسی کو WIN WIN SITUATION کہتے ہیں یا بقول فیضؔ؎
گر جیت گئے تو کیا کہنا
ہارے بھی تو بازی مات نہیں



.
تازہ ترین