• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب کینتھ راتھ نے پچھلے ہفتے کے اوائل میں ایک ٹویٹ کے ذریعے بھارت کے موجودہ آرمی چیف جنرل بپن راوت کی طرف عالمی توجہ مبذول کرائی۔ آپ نے جناب راوت کی لیڈرشپ کو ’’مجرمانہ‘‘ قرار دیا۔ حق تو یہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف کو اس قسم کے القاب سے بہت پہلے نوازنا چاہئے تھا کیونکہ موصوف شاید اس لحاظ سے دنیا کے پہلے فوجی سربراہ ہیں جو اپنے فوجیوں کی طرف سے ہونے والے جنگی جرائم کو نہ صرف یہ کہ ہنر مندی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ کمال ڈھٹائی سے قواعد کی خلاف ورزیوں پر کھلے عام فخر کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ حالانکہ نظم و ضبط کی پابندی ہی پیشہ ورانہ سپاہیوں اور سخت گیر مجرموں جو کہ اپنی لاقانونیت اور خوف اور دہشت والی ساکھ پر فخر کرتے ہیں، میں ایک واضح تفاوت پیدا کرتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جنرل راوت کو ’’مجرمانہ لیڈر شپ‘‘ کا خطاب اس لئے بھی تقویض ہوا کہ وہ مسلسل پچھلے دو مہینے سے اپنے ایک فوجی افسر میجر لیتل گوگوی کا دفاع کر رہے ہیں جس نے ایک کشمیری نوجوان فاروق احمد ڈار کو اغوا کر کے فوجی گاڑی سے باندھ کر ایک انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ جنرل راوت نے اپنے فوجیوں کی جانب سے کئے جانے والے جنگی جرائم پر ندامت کے اظہار کے برعکس اپنے ہی ادارے کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر میجر گوگوی کو اس کی ’’حسن کارکردگی‘‘ کی بنا پر فوجی اعزاز سے نوازا حالانکہ اس کے خلاف ہونے والی ادارتی تفتیش ابھی تک جاری تھی۔ میجر گوگوی کو فوجی اعزاز دیئے جانے سے ایک طوفان بپا ہو گیا خاص کر مقبوضہ کشمیر میں لوگوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا مگر جنرل راوت نے اس کا کوئی اثر لینے سے انکار کرتے ہوئے کشمیریوں پر روا رکھے جانے والے سلوک کو نہ صرف یہ کہ واجب ٹھہرایا بلکہ اس کی تائید بھی کی۔
اس پر مستزاد یہ کہ میجر گوگوی کو فوجی اعزاز دینے کے لگ بھگ تین ہفتے بعد جنرل راوت نے نہایت ہی بھونڈے انداز میں قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر اپنی مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کی۔ موصوف نے بھارت کے ایک مؤقر انگریزی روزنامے ’’اکنامک ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’’موجودہ کورٹ آف انکوائری جلد اپنا کام مکمل کر لے گی۔ مجھے پتا چلا ہے کہ میجر گوگوی نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا ہے جس کی بنا پر اس کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی جا سکے۔ بالفرض اگر وہ کسی غلطی کا مرتکب بھی پایا گیا تو بھی اس کےخلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کے خلاف کسی کارروائی کی کوئی بنیاد ہے۔‘‘
اپنے فوجیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور ان کا مکمل دفاع کرنے کے باوجود جنرل راوت غیر مطمئن نظر آرہے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے انہوں نے بھارتی خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے کشمیریوں کو انسانی ڈھال بنائے جانے کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے اس کو ہنرمندی سے تعبیر کیا تھا اور کشمیر میں جاری آزادی پسند تحریک کو ایک ’’ناپاک جنگ‘‘ گردان کر کسی بھی قسم کی انسانی حقوق کی پامالیوں کو کھلے الفاظ میں جائز قرار دیا۔ موصوف نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ فوج کو کشمیریوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کیلئے مکمل آزادی ملنی چاہیئے حالانکہ فوج کو لگ بھگ آدھےدرجن کالے قوانین کی چھتر چھایا میں پہلے سے ہی قتل و غارت گری اور جبر و تشدد کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
حیرت انگیز طور پر آرمی چیف نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر کشمیری پتھروں کے بجائے بندوقوں سے لیس ہوتے تو وہ خوش ہوتے کیونکہ ایسی صورت میں وہ جو چاہتے کر سکتے تھے۔ اپنے انٹرویو کے دوران مافیا طرز کا اسلوب اپناتے ہوئے جنرل راوت نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شہریوں کو فوج سے خوفزدہ ہونا چاہیئے۔ ’’دشمن کو آپ سے خوف زدہ ہونا چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کا بھی فوج سے خوف زدہ ہونا ضروری ہے... جب ہمیں قانون کی عملداری اور امن امان کیلئے بلایا جاتا ہے تو یہ ضروری ہے کہ لوگ آپ سے خائف ہوں‘‘۔
31دسمبر 2016کو جب جنرل راوت کو آرمی چیف کے عہدے کا چارج دیا گیا تھا اس وقت بھارتی حکومت نے ان کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے بہترین امیدوار ہیں جن میں ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’پراکسی وار‘‘ بھی شامل ہیں- حکومت ہند نے یہ اصطلاحات عمومی طور پر تحریک آزادئ کشمیر کیلئے مختص کی ہوئی ہیں- مزید برآں سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق جنرل راوت مختلف علاقوں بشمول لائن آف کنٹرول اور چین کے ساتھ لگنے والی سرحد پر مختلف قسم کے انتظامی مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
ابھی جنرل راوت کو اپنے منصب پر صرف چھ ہفتے ہی ہوئے تھے کہ رواں سال فروری کے وسط میں انہوں نے ایک اخباری بیان کے ذریعے کشمیریوں کو نہایت سخت لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر انہوں نے جاری تحریک آزادی میں شرکت کرنے سے احتراز نہیں کیا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ موصوف نے کشمیریوں کی جانب سے پاکستانی پرچم لہرائے جانے کے عمل کو دہشت گردی سے تشبیہ دے کر ان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ کشمیر کے سنجیدہ حلقوں نے اس دھمکی کو مستقبل قریب میں بے تحاشا قتل عام ہونے کا عندیہ سمجھا۔ اس کے باوجود کشمیری نوجوانوں پر اس کا کوئی خاص اثر ہوتا دکھائی نہیں دیا اور وہ بار بار قتل و غارت گری کا نشانہ بننے کے باوجود احتجاجی تحریکوں میں شریک ہوتے رہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ نئے آرمی چیف کے بعد کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں کافی اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ تعلیمی اداروں پر فوج کے لگاتار حملوں کی ایک نئی روایت سامنے آئی۔
ایک فوجی کی حیثیت سے جنرل بپن راوت کا پیشہ ورانہ کردار نہایت ہی داغدار ہے۔ افریقی ملک کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں کام سے لے کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جہاں موصوف نے کئی سال گزارے، ہر جگہ ان کی کارکردگی بڑی افسوسناک رہی۔
ان کے امتیازات میں کانگو میں یو این مشن کے دوران مبینہ بداعمالی سے لے کر پاک بھارت امن معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کیلئے لائن آف کنٹرول پر عمداً خلاف ورزیاں شامل ہیں، جن سے دونوں جانب کافی اموات واقع ہوئیں۔ اس کے علاوہ ان کے کارناموں میں غیر مسلح اور عام شہریوں کو کھلے بندوں دھمکیاں دینا، انہیں زیادتی کا نشانہ بنانا اور اپنی پیشہ ورانہ عہد شکنیوں اور غیر قانونی حرکتوں پر دیوانوں کی طرح خوشی کا اظہار کرنا شامل ہیں۔ شاید جنرل راوت کی انہی خصوصیات کی بنا پر ان کو دو سینئر جنرلز پر ترجیح دے کر نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا جس کی نظیر بھارتی فوج میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔
پس نوشت:
جب جنرل راوت نے کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو دبانے کیلئے کھلی آزادی کا مطالبہ کیا اس سے قبل ان کی فوج نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول پر اوڑی کے مقام پر دو مجاہدین کو مار ڈالا جو کہ بقول ان کے پاکستانی فوج کی بارڈر ایکشن ٹیم کا حصہ تھے۔
پولیس جب رات کی تاریکی میں ان کو ایک مقامی قبرستان میں دفنانے کیلئے لے گئی تو لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ہلاک شدگان عمر رسیدہ تھے جو غالباً ساٹھ یا ستر کے پیٹے میں تھے۔ اخبارات میں چھپی ان کی تصاویر دیکھ کر بھی واضح ہو رہا تھا کہ وہ عمر رسیدہ تھے جو کسی بھی طرح سے کسی بارڈر ایکشن ٹیم کے ممبران نہیں ہوسکتے۔ مقامی لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ فوجیوں نے ان افراد کو کسی دور دراز علاقے سے اغوا کرکے سرحد کے قریب لے جا کر قتل کیا تاکہ ان کے جھوٹے دعؤئوں کو ایک معقول آڑ مل سکے۔ شاید یہ کارروائی بھارتی فوج کے سربراہ کی جانب سے عوام الناس میں خوف پیدا کرنے کیلئے کی گئی تاکہ کشمیری عوام کو ہمہ وقت دہشت میں مبتلا رکھا جائے۔
ضمیمہ:جنرل بپن راوت کے اس طرز عمل اور پیشہ ورانہ روّیے پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ آفیسر کرنل آلوک استانہ نے اپنے ایک اخباری مضمون میں یوں تبصرہ کیا:’’ایک پیشہ ور فوج کیلئے عزّت انتہائی ضروری ہے۔ مگر لگتا ہے کہ بھارتی دفاعی حلقے-وزارت اور فوج دونوں سطحوں پر-اس کو بھول گئے ہیں۔‘‘



.
تازہ ترین