• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین کے آرٹیکل 56 کے تحت پاکستان میں نئے پارلیمانی سال کا آغاز 17 مارچ کو ہوتا ہے اور صدر مملکت ہر سال پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ خطاب صدر کا صوابدیدی اختیار نہیں بلکہ آئینی تقاضا ہوتا ہے۔ صدر کی مشترکہ اجلاس کی تقریر جس میں گزشتہ ایک سال کی حکومتی کارکردگی، آئندہ کے عزائم اور اہم پالیسی معاملات کا ذکر ہوتا ہے، وزیراعظم ہائوس سے فراہم کی جاتی ہے جسے صدر مملکت پارلیمنٹ میں پڑھ کر سنادیتے ہیں۔ گزشتہ سال صدر ممنون حسین نے 4 جون کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا مگر اس سال انہوں نے یکم جون کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا جو آئینی تقاضے کا حصہ تھا۔ اجلاس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اجلاس میں وزیراعظم، مسلح افواج کے سربراہان، چاروں صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ مدعو ہوتے ہیں۔ اس بار صدر مملکت کا خطاب سننے کیلئے مہمانوں کی گیلری میں ان تمام شخصیات کے علاوہ غیر ملکی سفارتکار بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ صدر کے مشترکہ اجلاس کی تقریب میں، میں بھی وہاں موجود تھا، اس طرح مجھے صدر کا خطاب براہ راست سننے کا موقع ملا۔
اس بار اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی تقریر براہ راست نشر نہ کرنے پر صدر کے خطاب کے دوران شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کی حکمت عملی تیار کر رکھی تھی۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے مشترکہ اجلاس سے قبل اپوزیشن کو منانے اور ہنگامہ آرائی سے باز رکھنے کی بہت کوششیں کیں اور اس سلسلے میں خورشید شاہ، شاہ محمود قریشی، سراج الحق اور آفتاب شیرپائو سے ملاقاتیں بھی کیں مگر ان کی تمام کوششیں اُس وقت ناکام ثابت ہوگئیں جب صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف کی ایوان آمد کے موقع پر اپوزیشن اراکین نے اُن کا استقبال حکومت مخالف نعرے لگاکر کیا۔ بعد ازاں صدر مملکت نے جیسے ہی مشترکہ اجلاس سے اپنا خطاب شروع کیا، اپوزیشن اراکین اپنی نشست چھوڑ کر اسپیکر کے سامنے آکر حکومت مخالف نعرے بازی کرنے لگے جس سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا تاہم شور شرابے کے باوجود صدر مملکت نے اپنا خطاب جاری رکھا۔ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین نے صدر مملکت کی تقریر کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں اور نعرے لگاتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اجلاس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے شرکت کرنا مناسب نہ سمجھا،شاید یہ سیاسی شخصیات اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی پارلیمنٹ میں ہونے والی ہنگامہ آرائی سے لطف اندوز ہوتی رہیں۔
قومی اسمبلی کے ہال کی گنبد نما چھت پر اللہ کے 99 اسمائے گرامی کنندہ ہیں جو اِس بات کا مظہر ہے کہ قوم کے نمائندے اللہ کے نام کے سائے میں پوری دیانت داری سے قومی فیصلے کریں۔ میں پارلیمنٹ ہائوس میں مہمانوں کی گیلری میں بیٹھاہنگامہ آرائی اور شور شرابا دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کیا قوم نے اِن نمائندوں کو اِسی لئے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے؟ صدر مملکت کے خطاب کے دوران کچھ اپوزیشن اراکین شور شرابے کے ساتھ ساتھ سیٹیاں بھی بجارہے تھے جنہیں دیکھ کر مجھے سب سے زیادہ شرمندگی اس بات پر ہورہی تھی کہ قریب ہی بیٹھے غیر ملکی سفارتکار، پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں کیا تاثر لے رہے ہوں گے جبکہ پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت یہ سب کچھ دیکھ کر سوچ رہی ہوگی کہ اپوزیشن جتنی بھی میثاق جمہوریت کرلے، کبھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
میثاق جمہوریت جسے چارٹرڈ آف ڈیموکریسی بھی کہا جاتا ہے، پر پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے 2006 پر دستخط کئے تھے جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ دونوں جماعتیں منتخب حکومت کے خاتمے کیلئے کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کریں گی، نہ کسی فوجی حکومت میں شامل ہوں گی اور نہ ہی اقتدار کے حصول کیلئے فوج کی حمایت کریں گی مگر موجودہ صورتحال دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ (ن) لیگ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ جمہوری حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ میں وزیراعظم نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپوزیشن کے حکومت مخالف نعرے بازی اور احتجاج کے باوجود بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لیا جبکہ صدر ممنون حسین نے بھی اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے باوجود اپنی تقریر پوری کی۔
یہ پہلاموقع نہیں جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کیا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی ادوار حکومت میں اپوزیشن جماعتیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کرچکی ہیں۔ ماضی میں صدرمملکت اسحاق خان کو مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ’’گو بابا گو‘‘، صدر فاروق لغاری کو ’’گو لغاری گو‘‘ اور صدر پرویز مشرف کو ’’گو مشرف گو‘‘ جیسے نعروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2002ء میں صدر پرویز مشرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صرف ایک بار خطاب کیلئے تشریف لائے مگر انہوں نے اپوزیشن کے ہنگامے میں اپنی تقریر اس حالت میں مکمل کی کہ اُن کی پیشانی پر پسینے نمایاں تھے اور اپنی خفت مٹانے کیلئے وہ اپوزیشن کو دونوں مکے دکھاتے ہوئے رخصت ہوئے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سابق آمر پرویز مشرف کی پہلی اور آخری آمد تھی۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حصہ ہے، زیادہ اچھا ہوتا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے اجلاس کا بائیکاٹ کردیتیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کل جب اُن کی حکومت ہوگی تو شاید اُنہیں بھی اِسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں میثاق جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے اس طرح کے غیر جمہوری رویوں سے گریز کریں تاکہ جمہوریت کو پنپنے کا موقع مل سکے۔

تازہ ترین