• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈان لیکس کا معاملہ ہو یا پاناما لیکس کا، ہر ڈرامے میں کرداربے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہر وقت ایک بحرانی کیفیت طاری رہتی ہے جس میں ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار کے بارے میں نہ صرف یہ کہ حساس نظر آتا ہے بلکہ اپنی حدود کو و سیع تر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ویسے تو ہر ملک کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کے ادارے باہمی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں لیکن جمہوری معاشروں میں ایک مخصوص اداراتی توازن پیدا ہو جاتا ہے جس میں ہر ادارہ اپنی حدود کا تعین کر لیتا ہے ۔ زیادہ تر جمہوری معاشروں میں سیاسی اداروں کی بالا دستی ہوتی ہے ، سیکورٹی ادارے عوام کے منتخب نمائندوں کے تابع ہوتے ہیں اور عدلیہ ان سب سے آزاد معاشروں میں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو پاکستان میں اداروں کی ترتیب انتشار کا منظر پیش کرتی ہے۔ پاکستان میں یہ صورت حال ابتدا سے ہی توازن سے عاری نظر آتی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے سیاسی ارتقامیں کافی تغیرو تبدل نظر آتاہے لیکن کبھی بھی اداراتی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوئی۔
پاناما لیکس میں بظاہر وزیر اعظم نواز شریف کا احتساب ہو رہا ہے لیکن اگر غور کریں تو یہ ایک پورے عہد کی بے ظابطگیوں کا عکاس ہے۔ ستر کی دہائی سے لے کر اب تک ملک میں نئی دولت کے انبار لگ گئے ہیں۔ اس نئی دولت کی تقسیم کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھاچنانچہ ہر طرف لوٹ کھسوٹ اور مارا ماری کا نظام جاری رہا۔ لاکھوں کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کا نیا طبقہ وجود میں آگیا۔ ستر کی دہائی سے پہلے پاکستان میں بڑی دولت زمین کی ملکیت کی شکل میں تھی لیکن چار دہائیوں میں یہ صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے : اب شہری اشرافیہ زیادہ دولت مند ہے اور وہی معاشرے کے زیادہ تر وسائل پر قابض ہے۔ نئے امیر طبقے کے تقریباً ہر فرد کی دولت کی قانونی حیثیت مشکوک ہے۔ مثلاً اگر سب سے زیادہ دولت جائیدادوں کے کاروبار میں پیدا ہوئی ہے تو اس میں نوے فیصد سیاہ دھندے کی زمرے میں آتا ہے۔ غرضیکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کوئی بھی اپنی دولت کا باقاعدہ قانونی ثبوت نہیں دے سکتا۔ اس پہلو سے دیکھیں تو ہر نئے دولت مند کے پس منظر میں کوئی جرم نظر آئے گا اور ہر دولت مند کسی نہ کسی مافیا کا حصہ نظر آئے گا۔
ویسے تو ہر معاشرے میں جب نئی دولت پیداہوتی ہے تو نئے امیر طبقات کسی خاص ترتیب سے پیدا نہیں ہوتے لیکن پاکستان میں یہ سلسلہ ابتدا سے ہی لاقانونیت کی حدیں چھو رہا تھا۔ جب تقسیم ہوئی تو ہندو اور سکھ شہر خالی کرکے ہندوستان جانے پر مجبور ہو گئے۔ یاد رہے کہ یہی پاکستان کی شہری اشرافیہ تھی، یہی مختلف اداروں کو چلاتے تھے۔ جب شہر خالی ہوئے تو ہندوئوں سکھوں کی جائیدادوں کو جس طرح سے تقسیم کیا گیا اس میں ضابطوں اور قوانین کو غیر اہم سمجھا گیا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جس کا جہاں داؤ لگا اس نے لگا لیا۔ چنانچہ تقسیم کے بعد شہروں میں جو متمول طبقہ پیدا ہوا وہ اپنی کمائی ہوئی محنت کی بجائے جعلی کارروائیوں سے معرض وجود میں آیا۔ چنانچہ روز اول سے ہی بلا محنت امیر ہونے کا کلچر وجود میں آگیا۔ یہی کلچر پاکستان کی ستر سال کی تاریخ میں غالب رہا ہے۔
تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں جب شہروں کی آبادی (ہندو اور سکھ) نقل مکانی کر گئی تو پاکستان میں اداروں کی حیثیت بہت ہی کمزور ہو گئی۔ سیاسی ادارے جاگیرداروں کے قبضے میں آگئے جن کا ذہنی تناظر محدود تھا۔ سیاسی اداروں کی کمزوری کی وجہ سے پہلے نوکر شاہی نے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی : اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی اور غلام محمد جیسے نوکر شاہی کے نمائندوں نے کاروبار سلطنت چلانے کی کوشش کی ۔ لیکن پاکستان میں فوج کا ادارہ مضبوط تھا کیونکہ انگریز دور میں مسلمان فوج اور پولیس میں اکثریت کی حیثیت رکھتے تھے۔ آخر کار سیاسی خلا کو مضبوط ترین ادارے یعنی فوج نے پر کیا اور ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ فوج اور سیکورٹی اداروں کے غلبے میں ریاست کے دوسرے اداروں کا ارتقا سست روی کا شکار رہا۔ سیاسی اداروں کی بنیاد مزید کمزور ہو گئی جس کے نتیجے میں عدلیہ اور دوسرے سماجی ادارے اپنا اپنا مقام حاصل نہیں کر سکے۔ اس سلسلے میں پہلی بڑی تبدیلی 1970کے انتخابات میں آئی جب پاکستان میں پہلی مرتبہ سیاسی پارٹیاں درمیانے طبقے کی بنیاد پر جیت کر سامنے آئیں۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی درمیانے طبقوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کامیاب ہوئی تھیں۔ قطع نظر پاکستان کی تقسیم کے نئے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی رہنمائی میں سیاسی اور سماجی اداروں کی ترتیب نو شروع ہوئی۔ اداروں میں طاقت کے توازن کی نئی صورت حال میں سیاسی اداروں کی برتری مضبوط ترین ادارے کو قابل قبول نہیں تھی جس کے نتیجے میں ضیا الحق کا مارشل لا لگا۔ پاکستان کی باقیماندہ تاریخ بھی اداروں کی باہمی کشمکش سے ترتیب پائی ہے۔ کئی پہلوئوں سے پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اداروں میں وہ ہم آہنگی پیدا نہیں ہوئی جو کہ جمہوری معاشروں کی بنیاد بنتی ہے۔
پاکستان میں اسی کی دہائی سے ایک معاشی انقلاب بھی برپا ہوا ہے۔ صنعتی اور تجارتی انقلاب کے نتیجے میں ملک میں بہت سی نئی دولت پیدا ہوئی ہے اور طبقات کی نئی ترتیب معرض وجود میں آئی ہے۔ اس معاشی انقلاب کے نتیجے میں پرانے جاگیرداروں کا سیاسی حلقہ اثر محدود ہو گیا ہے اور نئے قسم کے کاروباری طبقات نے سیاسی برتری حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کا جائزہ لیں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ یہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں پر مشتمل نہیں ہے۔ معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں کچھ دوسرے ادارے بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی اسی نئے منظر نامے کا حصہ ہے۔ لیکن ڈان لیکس اور پاناما لیکس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اداروں کی آپسی کشمکش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ سیاسی ادارہ اب بھی بہت کمزور نظر آتا ہے اور عنوان بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس کی بحالی کے امکانات بہت کم ہیں۔

تازہ ترین