• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسے جیسے حراستی مرکز قریب آرہا تھا میر ی خود اعتمادی میں کمی ہورہی تھی، میں زندگی میں پہلی دفعہ کسی قیدی سے ملاقات کے لئے جارہا تھا ۔ جاپان میں کئی پاکستانی ہر سال رمضان المبارک میں اپنی زکوٰۃ میں سے کچھ رقم امیگریشن کے حراستی مراکز میں قید ان پاکستانیوں اور غیر ملکیوں میں تقسیم کرتے ہیں جو غم روزگار کے سلسلے میں غیر قانونی طریقے سے ایجنٹوں کے ذریعے جاپان پہنچے اور امیگریشن کے وقت ان کی جعلسازی بے نقاب ہوئی اور انھوں نے جاپانی حکومت کی واپس پاکستان بھجوانے کی پیشکش کو ٹھکرایا اور جاپان میں ہی رہنے کو ترجیح دی ، ایسے لوگوں کو جاپانی حکومت نہ صرف وکیل کی خدمات فراہم کرتی ہے بلکہ انھیں حراستی مراکز میں بطور قیدی منتقل بھی کردیتی ہے ،اب نہ معلوم ایسے مظلوم پاکستانیوں کو کیا کہا جائے جو جاپان میںدولت کمانے کے لالچ میں پاکستان میں اپنی تمام دولت ایجنٹوں کے سپرد کرکے جاپان میں قید ہونے پر بھی رضا مند ہوجاتے ہیں، جاپان میں مقیم کئی سینئر پاکستانی سماجی شخصیات حافظ شمس ، رئیس صدیقی ودیگر کئی سالوں سے حراستی مراکز میں قید ہم وطنوں کی قانونی ،اخلاقی اور مالی مدد کرتے چلے آرہے ہیں ۔ جاپان میں اس وقت پاکستانی و مسلم برادری رمضان المبارک کی عبادتوں میں مصروف ہے جبکہ کچھ مسلمان رمضان المبارک میں نیکیوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ کسی طرح مستحق لوگوں کی مدد ہوسکے اسی حوالے سے گزشتہ دنوں جاپان کی معروف صحافتی و سماجی شخصیات ناصر ناکاگاوا اور طیب خان کی جانب سے پہلی دفعہ مجھے بھی جاپان امیگریشن کے حراستی مرکز چلنے کی پیشکش کی گئی تاکہ وہاں مقیم ضرورتمند افراد کی کچھ مالی معاونت کی جاسکے۔ زندگی میں کبھی جیل اور حراستی مراکز جانے کا اتفاق نہیں ہوا لہٰذا بہت زیادہ پر اعتماد نہیں تھا تاہم اس روز میرے ہمنوا دوست کئی گھنٹے کا سفر کرکے میری رہائش گاہ پہنچ گئےجہاں سے اوشیکو حراستی مرکز کا فاصلہ بائیس کلومیٹر تھا ، ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم وہاں پہنچے ، ارادہ یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ افراد سے ملاقات ہو تاکہ ان کی مدد کی جاسکے ۔ایک ایرانی قیدی نے بتایا کہ اگر ان کو پانچ سو ڈالر ادا کردیئے جائیں تو وہ جرمانہ ادا کرکے رہا بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا ان کے لئے بھی رقم کا بندوبست کرلیا گیا ،کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد میری جس پاکستانی سے ملاقات ہوئی وہ چند ماہ پہلے ہی گرفتار ہوکر حراستی مرکز پہنچا تھا ،مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا جہاں سامنے ایک شیشہ موجود تھا جس کے دوسری جانب ایک کرسی رکھی تھی کچھ ہی دیر بعد امیگریشن حکام کے ساتھ ایک پاکستانی کمرے میں داخل ہوا اس نے ٹرائوزر اور ٹی شرٹ پہن رکھی تھی ، اس نے آتے ہی شیشے پر اپنا ہاتھ ایسے رکھا جیسے مجھ سے ہاتھ ملانا چاہ رہا ہو میں نے بھی جواباً اپنا ہاتھ شیشے کی اپنی جانب اس کے ہاتھ پر رکھ دیا ، اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، شاید وہ گزشتہ چار ماہ میں پہلی بار اپنے کسی ہم وطن سے ملا تھا، ہم دونوں ایک دوسرے کی آواز بآسانی سن سکتے تھے میں نے اسے اپنے آنے کا مقصد بتایا اور اس کی خیریت دریافت کی ،لیکن وہ خالی آنکھوں سے مجھے دیکھے جارہا تھا ۔ سرخ و سفید رنگت ، سلیقے سے بنے بال ، چہرے پر تازگی مجھے اندازہ ہوگیاکہ اسے جاپانی حکام کی جانب سے کوئی تکلیف نہیں ہے، میں نےایک بار پھر اس سے یہاں پہنچنے کی روداد جاننا چاہی ، اس بار اس نے اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ اس کی عمر تیس سال تھی ، صرف دو سا ل قبل اس کی شادی ہوئی اور اس کا دس ماہ کا ایک بیٹا ہے، پنجاب کے ایک گائوں سے اس کا تعلق تھا جبکہ اس کے گائوں کے کئی لوگ یورپ اور جاپان جاچکے تھے جنھوں نے بہت دولت کمائی اور اب وہ بھی باہر جاکر دولت کمانا چاہتا تھا تاہم کوئی پڑوسی اور رشتہ دار اس کی مدد کو تیار نہیں تھا جس کے بعد تنگ آکر اس نے ایجنٹوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی اور بالآخر لاہور میں اس کی ایک ایجنٹ سے ملاقات ہوگئی جس نے دس لاکھ روپے کاتقاضا کیا ،اس نے گھر والوں کے مشورے سے کل جائیداد جو چار ایکڑ زمین پر مشتمل تھی ، میں سے ایک ایکڑ زمین بیس لاکھ روپے میں فروخت کردی ،جس میں کچھ رقم تو پرانے ادھاروں میں خرچ ہوگئی جبکہ دس لاکھ روپے اس نے ایجنٹ کے حوالے کردیئے، ، ایجنٹ نے اسے پہلے ہی بتادیا تھا کہ جاپان کا اصل ویزہ لگوانا اس کے بس کی بات نہیں ہے تاہم وہ اس کا جاپان کا جعلی ویزہ لگوادے گا اس ویزے پر وہ جاپان تو پہنچ جائے گا لیکن وہاں اگر پکڑا جائے تو ایجنٹ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں لے گا، پاکستان سے باہر جانے کے شوق میں وہ ایجنٹ کی اس بات پر بھی راضی ہوگیا ،ایجنٹ نے ا س کے پاسپورٹ پر جاپان کا جعلی ویزہ لگوایا جبکہ ایک اور ویزہ دبئی کا لگوایا جو اصلی ویزہ تھا پھر اسے پہلے دبئی بھجوایا جہاں سے اس کی اگلی فلائٹ جاپان کی تھی دبئی میں ائیر لائن انتظامیہ نے اس کا پاسپورٹ سرسری طورپر چیک کیا اور اسے جہاز میں بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی ، تاہم دس گھنٹے بعد جب وہ جاپان پہنچا اور امیگریشن حکام کو اپنا پاسپورٹ پیش کیا تو باوجو د معلوم ہونے کے اس کا جاپان کا ویزہ جعلی ہے وہ دل ہی دل میں دعا کررہا تھا کہ کسی طرح وہ جاپان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجائے تاہم اس کی آدھی دعا تو قبول ہوگئی کہ و ہ جاپان میں داخل ہوگیا لیکن امیگریشن حکام نے چند لمحوں میں اس کا ویزہ جعلی ہونے کا بھانڈا پھوڑ دیا ، اسے پیشکش کی گئی وہ رضاکارانہ طور پر ڈی پورٹ ہوکر واپس پاکستان چلا جائے لیکن وہ ساری کشتیاں جلا کر جاپان آیاتھا وہ کسی بھی صورت میں پاکستان جانے کو تیار نہیں تھا ۔جس پر اسے گرفتار کرکے حراستی مرکز میںمنتقل کردیا گیا یہاں وہ گزشتہ چار ماہ سے قید تھا اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ وکیل کی مدد سے رہا ہونے کی تگ و دو میں مصروف تھا ، حراستی مرکز کا احوال بتاتے ہوئے اس کا کہنا تھاکہ جس کمرے میں اسے رکھا گیا ہے وہ مکمل ائیرکنڈیشنڈ ہے ، اس کے کمرے میں چار بیڈ ہیں جہاں چار افراد رہتے ہیں ،تین وقت کا کھانا دیا جاتا ہے ،کھیلنے کے لئے ٹیبل ٹینس ، تاش اور ورزش کا سامان میسر ہے ، ضروریات زندگی خریدنے کے لئے سپر اسٹور بھی ہے ، پاکستان فون کرنے کے لئے فون کارڈ بھی خریدا جاسکتا ہے، سونے اور اٹھنے کے لئے وقت کی کوئی پابندی بھی نہیں ہے ،ٹی وی بھی موجود ہے ، نہانے دھونے کے لئے بہترین باتھ روم بھی دستیاب ہے ،یعنی معیار زندگی پاکستان سے بہت بہتر ہے صرف قید کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ، صبح دس بجے شروع ہونے والا سفر شام چار بجے تک جاری رہا بیس افراد سے ملاقات کے ذریعے اور اٹھارہ کو حکام کے ذریعے رقم فراہم کی گئی اور دلی سکون کے ساتھ واپس روانہ ہوئے تاکہ وقت مقررہ پر روزہ افطار کیا جاسکے۔

تازہ ترین