• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوورسیز فاؤنڈیشن پاکستان ’’او پی ایف‘‘ گلف، یورپ، امریکا، کینیڈا اور جنوبی ایشیائی ممالک میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کے حقوق اور اُن کے مسائل کو فوری حل کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے۔ موجودہ دور حکومت سے پہلے تک او پی ایف کی چیئرمین شپ سیاست کی بھینٹ چڑھتی رہی جس کے تحت حکومتی جماعتوں کے نمائندے ہی اِس ادارے کے چیئرمین بنتے رہے ہیں، اِن میں شیخ رشید، فاروق ستار، اعجازالحق وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ چونکہ یہ ادارہ تارکین وطن کی سہولت کے لئے بنایا گیا تھا لہٰذا اِس بار او پی ایف کا چیئرمین بھی ایک تارک وطن کو ہی بنایا گیا، یوکے سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر امجد ملک نے بطور چیئرمین اِس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی اور پہلی بار گلف سمیت یورپی ممالک کا دورہ کیاتاکہ تارکین وطن پاکستانیوں کے درمیان بیٹھ کر اُن کے مسائل سنے جائیں اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا سکے، اِن دوروں میں او پی ایف نے دوسرے ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانوں اور قونصلیٹ دفاتر میں پاکستانی کمیونٹی سے ملاقاتیں کیں اور اُن کو یقین دلایا کہ ہم صدق دِل سے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کریں گے۔ او پی ایف کے پلیٹ فارم سے دُنیا بھر میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں میں سے پاکستانی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کا کام کرنے والے سماجی کارکنوں کو او پی ایف ایڈوائزری کونسل کا ممبر بنایا جس کے تحت 137ایسے افراد کو منتخب کیا گیا جو کسی نہ کسی پلیٹ فارم سے پاکستانی کمیونٹی کی خدمت میں پیش پیش ہیں، اِس چناؤکا مقصد یہ تھا کہ او پی ایف ایڈوائزری کونسل کے ممبران جن ممالک میں مقیم ہیں وہاں کی پاکستانی کمیونٹی کو درپیش مسائل کو فوری طور پر او پی ایف کے ہیڈ کوارٹر پہنچا ئیں، یہ ایک اچھا اقدام تھا جسے تارکین وطن پاکستانیوں نے بہت سراہا، او پی ایف کے چیئرمین کے بقول اُن کی کوئی تنخواہ نہیں دوسرے ممالک کے دوروں پر ہونے والے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرتے ہیں۔ دوسری جانب دیار غیر میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کی تعداد کا بیشتر حصہ چونکہ صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے 2014 میں ’’اوورسیز کمیشن پنجاب‘‘ کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا جس کے چیئرمین وہ خود ہیں جبکہ وائس چیئرمین کے فرائض کیپٹن خالد شاہین ادا کر رہے ہیں اِس ادارے میں بطور کمشنر یو کے سے تعلق رکھنے والے افضال بھٹی ہیں جن کے کزن عمران خان انگلینڈ میں تب میاں نواز شریف کے سیکرٹری تھے جب وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، اور شاید اِسی خدمت کو مدنظر رکھتے ہوئے افضال بھٹی کو ’’او سی پی‘‘ کا کمشنر بنایا گیا اور اُن کی باقاعدہ تنخواہ بھی تعین کی گئی۔ اوسی پی ’’اوورسیز کمیشن پنجاب‘‘ کے چھ رکنی وفد نے بھی ’’او پی ایف‘‘ کی نقالی کرتے ہوئے جہاں یورپی ممالک کا دورہ کیا وہیں او سی پی ایڈوائزری کونسل کے ممبران کا انتخاب بھیکیا، اٹلی، اسپین، بلجیم، فرانس، انگلینڈ اور ناروے کا دورہ کرنے والے وفد کا اعلان تو یہ تھا کہ وہ سرکاری دورہ پر ہیں لیکن یہ صاحبان جب ایک ملک سے دوسرے ملک کی جانب محو سفر ہوتے تووہاں وفد کا میزبان اُن کے ہوائی ٹکٹوں، فائیو اسٹار ہوٹلز، تحائف اور دوسرے اخراجات کا ذمہ دار پایا جاتا، وہی میزبان ایک ہال میں پروگرام کا اہتمام کرتا اور وہاں پاکستانی کمیونٹی کو اکھٹا کرکے اسٹیج لگاتا تاکہ اوورسیز کمیشن پنجاب کے وفد کے ارکان کمیونٹی سے خطاب کر سکیں، جس ملک میں پروگرام ترتیب دیا جاتا وہاں اخراجات کرنے والا پاکستانی ہی اُس پروگرام کا مہمان خصوصی بنتا، پاکستانی کمیونٹی کے اِن پروگرامز میں لوگوں نے او سی پی کے سامنے شکایات اور مسائل کے انبار لگا دیئے، مسائل پیش کرنے والوں کو کہا گیا کہ وفد پاکستان واپس جا کر جلد ہی اِن مسائل کو حل کرے گا لہٰذا تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل کی فائلیں اکھٹی کر لی گئیں، تارکین وطن پاکستانیوں نے اپنے مسائل اُن ہاتھوں میں دے دیئے تھے جہاں مسائل کی فائل پہنچانا اُن کے بس کی بات نہیں تھی، کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ایک اُمید پیدا ہو گئی کہ اب تو ہمارے مسائل یقیناً حل ہوں گے لیکن پاکستانی حکومت اور اُن کے بنائے اداروں سے لگائی گئی یہ اُمید بھی وہ خواب ہی ثابت ہوئی جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ اوورسیز کمیشن پنجاب کی جانب سے یورپی ممالک میں اخراجات کرنے اور پروگرامز کا اہتمام کرنے والے میزبانوں کو بلاوا آیا کہ اُن کی ملاقات وزیر اعلیٰ پنجاب سے کرائی جا رہی ہے، مختلف ممالک سے تمام میزبان لاہور پہنچ گئے جہاں انہیں او سی پی کی جانب سے تارکین وطن پاکستانیوں کی خدمت کرنے کے صلہ میں اعزازی شیلڈز اور اسناد پیش کی گئیں۔ اگلے روز میزبانوں کی ملاقات وزیر اعلیٰ سے کرائی گئی جہاں فوٹو سیشن ہوا کھانا دیا گیاجس کے بعد تمام میزبان اپنے اپنے ممالک کو واپس لوٹ آئے ۔اوورسیز کمیشن پنجاب نے یورپی ممالک میں اپنے میزبان بننے والے افراد کو شیلڈز اور اسناد سے نواز دیا لیکن اِس نوازش سے تارکین وطن پاکستانیوں کے کون سے مسائل حل ہوں گے؟ اعزازی شیلڈز اور اسناد کی بجائے’’او سی پی‘‘ کے کمشنر کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے میزبانوں کو تارکین وطن پاکستانیوں کے اُن مسائل کی حل شدہ فائلیں پیش کرتا جو یورپ میں پاکستانی کمیونٹی پروگرامز میں پیش کی گئی تھیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جس حکومت نے اوورسیز کمیشن پنجاب کو عہدوں سے نوازا ہے وہ عہدیداریورپی ممالک میں اپنی سیاسی پارٹی مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو کچھ ممالک میں اپنا میزبان بناتے، لیکن’’او سی پی‘‘ کے عہدیدار اپنی ہی جماعت کے کارکنان کو بھول گئے جو ناانصافی ہے ،کچھ تارکین وطن پاکستانی یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ یورپی ممالک سے اوورسیز کمیشن پنجاب کے میزبانوں کو لاہور بلاکر وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کرانے کا مقصد 2018 کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی مالی امداد اور فنڈنگ کے لئے’’یورپی وڈیروں‘‘ کو ذہنی طور پر تیار کرنا تھا، کیونکہ یورپ سےلائے تمام مہمانوں کا شمار بڑے کاروباری حضرات میں ہوتا ہے، خیر جتنے منہ اتنی باتیں۔ آپ بتائیں کہ جب ’’پاکستان اوورسیز کمیشن‘‘ تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پاکستانیوں کے لئے کام کررہا ہے تو پھرایسے مزید ادارے کی کیا ضرورت کہ جس کے کمشنر کو قومی خزانے سے تنخواہ بھی دینی پڑے۔

تازہ ترین