• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں جے آئی ٹی کے سامنے بیٹھے ہوئے حسین نواز کی تصویر منظر عام پر لانے والوں نے تحقیقی عمل کی شفافیت سے متعلق کچھ ناگزیر شک و شبہات پیدا کردئیے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے کسی بھی شخص کے لئے اس تصویر کی غیر معمولی تشہیر کے بعد تحقیقات سے جڑی کسی بھی کارروائی پر مکمل طور پر بھروسہ کرنا اب ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
فی الحال یہ قیاس کرنا قبل از وقت ہے کہ تحقیقاتی عمل میں یہ مداخلت کس فریق کے خلاف کی گئی تھی۔ البتہ نواز شریف اور ان کے خاندان کی تضحیک کا سبب بننے والی کوئی بھی بات اِن کے مخالفین کے لئے اچھی خبر ہو سکتی ہے۔ اِن کے سیاسی مخالفین بارہا اس بات پرمسرت کا اظہار کر چکے ہیں کہ اب وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو معمولی تفتیشی افسروں کے سامنے پیش ہونا پڑے گا! گویا مذکورہ تصویر میں دکھائی دینے والا منظر نون لیگ کے مخالفین کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاید یہ تصویر خود وزیراعظم سمیت ان کے خاندان کے بڑوں کو در حقیقت ایک پیغام ہو کہ ’’دیکھو! جے آئی ٹی کے سامنے کس طرح بیٹھنا پڑتا ہے!‘‘ لہٰذا معاملہ تضحیک کا ہو یا دھمکانے کا، دونوں صورتوں میں نواز شریف اور ان کا خاندان ہی ہدف بنتے نظر آرہے ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ واقعہ کے ذمہ دار شخص کا سراغ لگالیا گیا ہے لیکن خبر کی تصدیق اور صحیح تفصیلات کا اب تک انتظار ہے۔
دنیا کے کسی بھی خطے میں اِس وقت مروجّہ کرمنل جسٹس سسٹم (Criminal Justice System)سے منسلک ہر پیشہ ور شخص تفتیش اور تحقیقات کی نزاکتوں سے واقف ہوتا ہے۔ ایسے کسی بھی پیشہ ور کے لئے یہ اخذ کرنا نہایت آسان ہے کہ حسین نواز کی تصویر کو منظر عام پر لانے والا ذہن کسی بھی صورت مثبت نہیں ہو سکتا۔ جہاں تصویر لیک کرنے کا منصوبہ نیّت میں کسی خلل کے بغیر ممکن نہیں، وہیں یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی ممبران تصویر کی تشہیر کرنے والوں کے زیر اثرکام کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ یہ عناصر براہ راست تحقیقات کے نتائج پر اثر انداز ہوں۔ دوسری جانب یہ بھی ممکن ہے کہ جے آئی ٹی ممبران کو تصویر لیک کرنے کے کسی منصوبے کی کوئی خبر ہی نہ ہو! ایسی صورت میں معاملہ یقیناً زیادہ تشویشناک ہے کیوں کہ جے آئی ٹی ممبران کی لاعلمی سے یہ پہلو اُجاگر ہوتا ہے کہ تحقیقات کے مجموعی ماحول پر کچھ با اَثر عناصر پہلے سے سرگرم ہیں۔
مذکورہ تصویر میں حسین نواز ایک کرسی پر بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ لگتا ہے جیسے وہ سامنے بیٹھے کسی شخص سے مخاطب ہیں۔ اُن کے بائیں طرف انتہائی نزدیک ایک میز ہے جس پر کچھ کاغذات پڑے نظر آرہے ہیں:لباس بظاہر وہی ہے جو انہوں نے 28مئی کے دن جے آئی ٹی کے سامنے پہلی پیشی کے دن پہنا ہوا تھا۔ پہلی پیشی پر تصویر کے لیک ہونے کا مطلب ہے کہ تصویر کے حصول کی منصوبہ بندی پہلے سے کی جا چکی تھی اور مقصد پورا ہو جانے پر اگلی پیشیوں پر ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تفتیش کرنے والے افراد اس معاملے میں اپنے طور پر سو فیصد ایمانداری اور پیشہ ورانہ رویہ کا مظاہرہ کر رہے ہوں لیکن اس لیکیج کے بعد دنیا کے لئے اس بات پر یقین کرنا فی الحال بہت آسان دکھائی نہیں دیتا! یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ اگر جے آئی ٹی ممبران کو اس معاملے کا علم نہیں تھا تو یہ واقعہ خود ان کے لئے فکر کا باعث ہونا چاہئے۔
ملک میں جرائم کی روک تھام سے منسلک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار، تفتیشی اور تحقیقاتی ماہرین، صفائی اور استغاثہ کے وکلا، ججز، کورٹ ریڈرز اور استغاثہ کے اسٹاف سمیت کسی بھی تجربہ کار فرد کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس قسم کی مداخلت کے پیچھے بدنیتی کا عنصر تحقیقات کے نتائج پر سب سے بُرا اثر ڈالتا ہے۔ اُدھر قانونی نقطۂ نگاہ سے بھی جے آئی ٹی کی تحقیقات سے متعلق کسی تصویر، ویڈیو اور دستاویزات کو جزوی یا مکمل طور پر متعلقہ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر عدالتی فیصلے سے پہلے عام نہیں کیا جا سکتا لیکن زیر تفتیش افراد یا سزائے موت کے منتظر قیدیوں کے معاملے میں قانون کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ ملک میں کوئی نئی بات نہیں۔ حسین نواز کی تصویر سے متعلق اس واقعہ سے پہلے بلوچستان کی مچھ جیل میں ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کے اعترافات کی ویڈیو ریکارڈنگ اور پھر اس کے منظر عام پر آنے کے واقعات آج تک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ بنتا ہے کہ کیا قانون نافذکرنے والے اہلکاروں کے سوا اس طرح کے کام کسی اور کے بس میں ہو سکتے ہیں؟
پاکستان میں سرکاری اداروں کا روز اوّل سے جو حال رہا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن ان اداروں سے تعلق رکھنے والے ’’اہلکار‘‘ کے سوچنے اور جینے کا انداز اپنے طور پر ایک غور طلب معاملہ ہے۔ اپنے فرائض منصبی سے ناآگہی اور لاعلمی، نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور خاص طور پر اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کے رجحانات نوکری کے پہلے ہی دن سے اکثر ’افسران‘ اور ’اہل کاروں‘ کا طرز زندگی بن جاتا ہے۔ المیہ یہ کہ ایسے رجحانات انتہائی اعلیٰ سطح تک پائے جاتے رہے ہیں۔
ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کی تحلیل، اسکندر مرزا اور پھر ایوب خان کا اقتدار پر اوپر تلے قبضہ، سابق مشرقی پاکستان میں عام شہریوں کا کھلا استحصال، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ، افغان جنگ میں پاکستان کا غیر ضروری کردار اور انتہا پسند گروہوں کی بے لگام پیداوار ملک میں انتہائی اعلیٰ سطح پر مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کی انوکھی تاریخ میں درج چند معروف ترین مثالیں ہیں۔ ستم یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن رجحانات میں کمی واقع ہونے کے بجائے صورتحال بدستور بدتر ہی ہوتی چلی گئی۔ شاید اسی لئے قوم نے وہ وقت بھی دیکھ لیا جب چیف جسٹس چوہدری افتخار کی سربراہی میں عدالتی فعالیت (Judicial Activism)کے نام پر مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے اعلیٰ عہدیداران، افسران اور اہلکار کسی بھی سطح پر مساوات کے قائل نہیں۔ زیر تفتیش افراد یا سزا یافتہ قیدیوں کی تصاویر، ویڈیوز اور اعترافات کو یوں پُراسرار طریقوں سے منظر عام پر لانے کی اِس نئی روایت کی بنیاد پڑ جانے کے باوجود کسی زیر حراست، زیر تفتیش یا سزا یافتہ شدت پسند کی کوئی وڈیو، تصویر یا اعترافات اب تک منظر عام پر آتے نہیں دیکھے گئے۔ یہ حقیقت حسین نواز کی تصویر کی حالیہ تشہیر کے بعد یقیناً کچھ غور طلب ہے!

تازہ ترین