• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ وفاقی بجٹ میں سندھ کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا ہے اس کے بارے میں ضرور کچھ نہ کچھ لکھا گیا ہے مگر میں چاہوں گا کہ اس ایشو کے بارے میں کوشش کرکے سارے حقائق ’’جنگ‘‘ کے قارئین کے سامنے پیش کروں کہ دیکھیں سندھ کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ میں سب سے پہلے سندھ کے ممتاز اقتصادی ماہر فضل اللہ قریشی‘ سے ہونے والی بات چیت کے کچھ اہم نکات پیش کروں گا۔ سب سے پہلے میں فضل اللہ قریشی کا تعارف کرانا چاہوں گا کہ وہ ریٹائر ہونے سے پہلے سندھ کے محکمہ منصوبہ بندی اور ترقیات کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری رہ چکے ہیں‘ بعد ازاں وہ وفاقی حکومت کے بھی کچھ محکموں کے وفاقی سیکرٹری رہے اگر میں غلط نہیں تو وہ اس دوران وفاقی محکمہ منصوبہ بندی اور ترقیات کے بھی سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ میری طرف سے قریشی صاحب کے ساتھ ناانصافی ہوگی اگر میں آج کے کالم میں اپنےپچھلے کئی کالموں میں این ایف سی کے بارے میں جو میں ایک نکتہ بیان کرتا رہا ہوں اس کے بارے میں انہوں نے جو تصحیح کی ہے اس کا ذکر نہ کروں جن دوستوں نے میرے پچھلے کالم پڑھے ہیں ان کو پتہ ہوگا کہ میں گزشتہ چار سال سے اس حکومت کی طرف سے این ایف سی ایوارڈ نہ دینے والے عمل پر نہ فقط سخت تنقید کرتا آرہا ہوں مگر خاص طور پر اس نکتے کو بار بار دہراتا رہا ہوں کہ ہر سال نیا این ایف سی ایوارڈ نہ دینا آئین کی صریح خلاف ورزی ہوگی‘ تقریباً ایک آدھ ماہ پہلے ان سے بات چیت کے دوران انہوں نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ ہر سال نیا این ایف سی ایوارڈ نہ دینا غلط ضرور ہے مگر اسے آئین کی خلاف ورزی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نیشنل فنانس کمیشن سے متعلق آئینی شق میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہوئی‘ آج جب میری ان سے بات ہوئی تو انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کو دہرایا۔ مجھے اپنی اس غلطی کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ واقعی این ایف سی کی متعلقہ شق میں ایسی کوئی سب کلاس نہیں لہٰذا میں اس بات سے تو اتفاق کرتا ہوں کہ ہر سال نیا این ایف سی ایوارڈ نہ دینا آئین کی خلاف ورزی نہیں مگر کیا ’’اخلاقی‘‘ طور پر ایسے اقدام کا کوئی جواز ہے‘ میں نے اپنے پچھلے کالم میں این ایف سی کی متعلقہ آئینی شق کے اکثر نکات من و عن انگریزی میں شامل کیے تھے اگر یہ بات حکومت وقت کے اختیار میں ہے کہ وہ اس شق پر عمل کرے یا نہیں تو پھر آئین میں یہ شق شامل کیوں کی گئی ہے اگر اس شق کو درست نہیں سمجھتے تو آپ یہ شق آئین سے نکال کیوں نہیں دیتے۔ کیا آئین کی اس شق میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ حکومت وقت کے اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہے تب اس شق پر عمل کرے مگر ایسا بھی نہیں تو پھر آئین کی اتنی بڑی اور وفاقیت اور صوبوں کے حقوق کے حوالے سے اتنی حساس شق کو مسلسل چار سالوں تک اس طرح مسلسل نظر انداز کرتے رہیں گے؟‘ کیا اس شق کو صوبوں کے حقوق اور وفاقیت کے اصول کے مطابق ترتیب دینے کے لئے یہ ایک آدھ سطر اس آئین کی متعلقہ شق میں شامل نہیں کرسکتے؟۔ میں اس مرحلے پر سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا کہ وہ اس سلسلے میں سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت میں اپنی رولنگ دیں‘ میں تو یہ توقع رضا ربانی سے اس وجہ سے کررہا ہوں کہ آئین کی 18 ویں ترمیم منظور کرانے میں کافی حد تک کردار ان کا تھا‘ وقت کا تقاضا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اس طرح چھوٹے صوبوں کے ساتھ شدید زیادتی ہورہی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کے پی اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ کبھی کبھار پی ایم ایل (ن) حکومت کے اس کردار کے خلاف شکایات کرتے رہے ہیں‘ سندھ کے وزیر اعلیٰ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے این ایف سی کا اجلاس نہ بلانے کے خلاف احتجاج کرتے رہے، اب بھی سندھ کے بجٹ میں اور بجٹ کے بعد پریس کانفرنس میں حکومت کے اس رویے کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے مگر سندھ میں اور شاید کے پی میں بھی ایک یہ رائے ہے کہ دونوں صوبوں کی حکومتیں فقط بیان جاری کرنے پر اکتفا کیوں کررہی ہیں‘ وہ اس سے بڑھ کر یا اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں میں ان ایشوز پر بحث کرانے یا یہ ایشو ان پارٹیوں کے ایم این ایز اور سینیٹر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کیوں نہیں اٹھاتے بلکہ اگر ضروری ہو تو عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتے‘ اس سے پہلے کہ میں اس بجٹ کے بارے میں مرکزی حکومت کی طرف سے خاص طور پر سندھ کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کا ذکر کروں‘ کیا مناسب نہیں ہوگا کہ تین دن پہلے لاہور میں پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں ہونے والے اجلاس کی خاص طور پر اسلام آباد سے لاہور آکر وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے صدارت کرنے اور پنجاب کے ایک اے ڈی پی کے بارے میں ہدایات دینے کا ذکر کروں۔ کیا آج تک پاکستان کے کسی وزیر اعظم نے ایسا کیا؟ سندھ کے محققین سوال کررہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف فقط کیاپنجاب کے وزیر اعظم ہیں؟ اگر وہ پنجاب کے اے ڈی پی کے اجلاس کی صدارت کرسکتے تھے تو انہوں نے باقی تین چھوٹے صوبوں میں جاکر وہاں کے اے ڈی پی کے بارے میں ہونے والے اجلاسوں کی صدارت کیوں نہیں کی؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میں ابھی بجٹ میں سندھ سے ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں سندھ کے ممتاز اقتصادی ماہر کی طرف سے پیش کیے گئے نکات کالم میں پیش کروں‘ اس کالم کی Space ختم ہورہی ہے لہٰذا اب مجھے نہ فقط آئندہ کالم تک جناب فضل اللہ قریشی کی طرف سے وفاقی بجٹ پر کیے گئے اعتراضات پیش کرنے پڑیں گے مگر ساتھ ہی خود وفاقی وزیر خزانہ‘ سندھ کے وزیر خزانہ اور کچھ دیگر سندھ کے اقتصادی ماہرین کے خیالات ظاہر کروں گا۔

تازہ ترین