• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب اشفاق احمد اور بانو قدسیہ اُردو ادب کے دو بڑے نام ہیں۔ ان کی ماڈل ٹائون میں واقع رہائش گاہ ’’داستان سرائے‘‘ ایک لمبے عرصے تک اُردو ادب کے مشاہیر اور پرستاروں کی مرکز ِ توجہ رہی ہے۔ جناب اشفاق احمد کی رہائشگاہ ماڈل ٹائون کے سی بلاک میں واقع ہے جبکہ اُردو کے عہدِ حاضر کے عظیم ترین شاعر فیض احمد فیض کا گھر ماڈل ٹائون میں ہی ایف بلاک میں ہے جسے آجکل ’’فیض گھر‘‘ کا نام دے کر عوامی ادبی تقریبات کے لئے مختص کر دیا گیا ہے۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے بعد انکی رہائش گاہ میں ادبی اجتماع نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے ۔ لیکن ان کے صاحبزادے اثیر احمد نے ’’داستان سرائے‘‘ کو ادبی شخصیات اور ادبی تقریبات سے دوبارہ آبادکرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی سلسلے میں سنگِ میل پبلیکیشنزکے ساتھ مل کر معروف صحافی اور دانشور تنویر ظہور کی حالیہ شائع ہونے والی کتاب’’میرا عہد جو میں نے لمحہ لمحہ جیا‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا۔ جس میں مصنف سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ جناب تنویر ظہور پاکستان کے معروف صحافی اور ادیب ہیں۔ انہوں نے اپنی صحافی زندگی کا زیادہ وقت روزنامہ جنگ میں گزارا اور وہاں مختلف حیثیتوں سے 28سال کام کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ مختلف موضوعات پر تقریباََ 27کتابوں کے مصنف ہیں اور انکی پنجابی زبان میں خدمات کے پیشِ نظر پنجاب یونیورسٹی میں اُن کی شخصیت اور کام پر ایم فل بھی کیا گیا ہے۔ آجکل وہ ایک اُرود روزنامے میں ’’ یادیں‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھتے ہیں اور ایک روزنامے کے ایڈیٹر انچیف بھی ہیں۔ اپنی صحافتی زندگی کے دوران انہوں نے بے شمار اہم شخصیات کے انٹرویو کئے اور کئی ایسے عجیب و غریب واقعات کے چشم دید گواہ رہے جو ہماری سوسائٹی میں خال خال وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ان کا کالم ’’ یادیں‘‘ اور انکی زیر نظر کتاب انکی انہی یادداشتوں پر مشتمل آپ بیتی ہے جو نہ صرف بہت دلچسپ بلکہ انتہائی معلوماتی بھی ہے۔ چونکہ اس کتاب میں بیان کئے گئے واقعات اور شخصیات کا تعلق گزشتہ 45برسوں کیساتھ ہے اسلئے یہ ایک طرح سے ہماری نصف صدی کی ادبی ، سماجی ، ثقافتی اور صحافتی زندگی کی تاریخ بھی ہے۔ تنویر ظہور صاحب نے 1981ءمیں اس وقت روزنامہ جنگ میں شمولیت اختیار کی جب وہ لاہور سے پہلے پہل نکلا تھا اور اس کا دفتر علامہ اقبال روڈ پر ریلوے اسپتال کے سامنے واقع تھا۔ اس کتاب میںتاریخ ادب اور صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بہت کچھ ہے۔ انہوں نے اندرون لاہور اور مضافات میں ہونے والے میلوں ، ٹھیلوں اور سماجی تقریبات کا ذکر بھی کیا ہے اور کچھ ایسے واقعات بیان کئے ہیں جو غیر معمولی ہیں مثلاََ انہوں نے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی قبریں کھدوالی تھیں ان میں ایک اہم نام میاں محمد منشی کا ہے جنہوں نے اپنے خرچے سے بند روڈ پر ایک بڑا اسپتال تعمیر کر کے اسے حکومت ِ پاکستان کے حوالے کردیا اسی اسپتال میں مین گیٹ کے قریب انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر تیار کروالی اور اس میں گندم کی ایک بوری رکھ دی اور وصیت کی کہ انہیں اس قبر میں دفن کیا جائے اس کیساتھ ہی انکی والدہ کی قبر بھی ہے۔ اسی طرح معروف مزدور لیڈر بشیر احمد بختیار نے بھی اپنی زندگی میں ہی لیبر ہال کے قریب اپنی قبر کھدوالی تھی۔ اسی طرح انہوں نے ’’بابوں‘‘ یعنی درویشوں اور قلندروں کے بارے میں بھی اپنی کتاب میں ایک باب مختص کیا ہے، روحانی معالج ، عامل اور جنّات کے بارے میں بھی ان کی تحقیق و جستجو اس کتاب میں شامل ہے۔ جہاں اس کتاب میں صوفی تبسم، صادقین، اشفاق احمد ، جون ایلیا، بانو قدسیہ ، ڈاکٹر سید نذیر احمداور کئی نامور فلمی ، ادبی ور سیاسی شخصیتوں کے حوالے سے بہت کچھ نیا ملتا ہے۔ اسی طرح کچھ مذہبی شخصیات مثلاً علامہ غلام احمد پرویز ، مولانا کوثر نیازی اور مولانا غلام مرشد کا ذکر بھی ان کی کسی چونکا دینے والی خصوصیات کیساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بادشاہی مسجد کے ایک مشہور خطیب مولانا غلام مرشد کا ذکرکچھ حوالوں سے بہت نمایاں ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ مشہور شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی صاحب کے خالہ زاد بھائی تھے۔ آپ 1935ءسے لیکر 1965ءتک بادشاہی مسجد کے خطیب رہے۔ آپکی تعیناتی علامہ اقبال کی سفارش پر ہوئی لیکن اُن کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے مافی ضمیر کو بیان کرنے میں کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے تھ۔ بہت سے واقعات سے بھر پور یہ کتاب ہماری تاریخ کا دلچسپ حوالہ ہے۔

تازہ ترین