• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت اپنے آخری سال میں داخل ہو گئی ہے۔ ان چار برسوں میں حکومت کو مختلف چیلنجز درپیش رہے۔کبھی اسے دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا ، کبھی دھاندلی سے متعلق عدالتی انکوائری کمیشن کا، کبھی سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن کا، کبھی ڈان لیکس اور کبھی پانامہ لیکس۔ ان مسائل کے باوجود چار سال مکمل کرنا حکومت کی کامیابی ہے۔ یہ بھی حکومت کی کامیابی ہے کہ سیاسی مخالفین کی کڑی تنقید کے باوجود مسلم لیگ (ن) اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پلڈاٹ اور دیگر معتبر تحقیقی اداروں کے جائزے کم از کم یہی بتاتے ہیں۔ گزرے برسوں میں کسی ـ" غیبی امداد" کی مدد سے نواز حکومت کا تختہ الٹنے کی بھرپور کاوشیں ہوتی رہیں۔تاہم مخالفین کامیاب نہ ہو سکے۔ البتہ اپوزیشن خاص طور پر تحریک انصاف حکومت کو دبائو کا شکار کرنے میں ضرور کامیاب رہی۔ عمران خان صاحب مسلسل متحرک رہے اور حکومت کے لتے لیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کامل اعتماد اور آزادی کیساتھ کاروبار مملکت چلانے سے قاصر رہی۔ اسی دبائو کی حکمت عملی کے تحت ،خان صاحب نے 126 دن کا دھرنا دیا۔دھرنے کے ہنگام ،وطن عزیز کا جوتاثر عالمی سطح پر ابھرا ،وہ ایک الگ داستان ہے۔اسکے بعد قوم کو جوڈیشل انکوائری کمیشن کا معاملہ درپیش رہا۔ پھر ڈان لیکس اور پانامہ لیکس کا قضیہ سامنے آیا۔ اس پر تحقیق ہونی چاہئے کہ کتنے ہی قومی اہمیت کے حامل معاملات اس ہیجانی اور انتقامی سیاست کی نذر ہو گئے۔
اب گزشتہ ڈیڑھ برس سے پانامہ لیکس کے معاملہ نے ہیجان بپا کر رکھا ہے۔کہنے کو یہ کرپشن کے خاتمے کی مہم ہے۔ تاہم زیر عتاب فقط ایک خاندان ہے۔چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دہائی دی کہ صرف ایک خاندان کا احتساب کہاں کا انصاف ہے؟ انہوں نے حوالہ دیا کہ 60 ملین ڈالر لوٹ کر سوئس بنکوں میں رکھنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔انہوں نے پنجاب بنک، این آئی سی ایل، اوورسیز فائونڈیشن اور اوگرا میں کی جانے والی کھربوں روپے کی لوٹ مار کا تذکرہ بھی کیا۔شہباز شریف صاحب کاایسا کہنا بالکل درست ہے۔ انصاف کا تقاضاتو یہ ہے کہ بلا تخصیص سب کا احتساب کیا جائے۔اگر سیاسی حساب چکانے کا نام احتساب ہے، تو یہ سراسر نا انصافی ہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ گزرے برسوں میں موجودہ حکومت احتساب کے ضمن میں کوئی عملی اقدام اٹھانے سے گریزاں رہی۔ حالانکہ میثاق جمہوریت میں شفاف نظام احتساب قائم کرنے کا تہیہ کیا گیا تھا۔ اس اہم معاملے کو مگر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے نظرانداز کیا ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بد عنوانی کے ریکارڈ قائم ہوئے۔ اس زمانے میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو دنیا کے کرپٹ ترین ملک کا درجہ دے رکھا تھا۔آج اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بڑھ چڑھ کر نواز شریف کے احتساب کانعرہ بلند کرتے نظر آتے ہیں ۔ کاش وہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت کو بھی ذہن میں رکھیں، جب سیلاب زدگان کو ملنے والی غیر ملکی امداد تک محفوظ نہ تھی۔ عہد زرداری میں شہباز شریف صاحب ، وفاق میں بر سر اقتدار آنے کی صورت، پیٹ چیر کر لوٹی گئی دولت واپس لانے کے بلند آہنگ دعوے کیا کرتے تھے۔ لہٰذا آج پوچھا جانا چاہئے کہ ان چار برسوں میں کتنے کیسز نیب یا عدالتوں میں بھیجے گئے؟ کتنی دولت لٹیروں سے واپس لی گئی؟سچ یہ ہے کہ حکومت کی سیاسی مصلحتیںاحتساب کی راہ میںحائل رہیں۔ حالانکہ ان معاملات کو انجام تک پہنچانا ، لوٹی دولت کو قومی خزانے میں واپس لاناموجودہ حکومت کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔تاہم تغافل برتا گیا۔ گزرے برسوں میں اگر احتساب کا کوئی موثر نظام قائم کر لیا جاتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی جو آج درپیش ہے۔
آج پوری قوم کی توجہ ایک خاندان کے احتساب پر مرکوز کر دی گئی ہے۔ شریف خاندان کو ملک کا کرپٹ ترین خاندان بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسے ایسے لوگ احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کا اپنا ماضی داغدار ہے۔اور احتساب بھی ایسا جس میں شریف خاندان مجرم ٹھہرے۔اس سے کم کو " انصاف" ماننے پر وہ آمادہ نہیں۔ اس ہیجانی سیاست نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ریاستی ادارے بھی اسکی زد سے محفوظ نہیں۔اس ساری صورتحال میں عمران خان سب سے زیادہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اول روز سے انکی حکمت عملی یہی تھی کہ دبائو کے ذریعے اپنا موقف تسلیم کروایا جائے۔ اسلام آباد لاک ڈائون کے ہنگام میںبھی وہ اور انکے حواری کھلے عام ٹی وی پروگراموں میں کہتے رہے کہ ہم اداروں کو دبائو میں لانا چاہتے ہیں کیونکہ اسکے بغیر ادارے کام نہیں کرتے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انکی حکمت عملی آخرکار کامیاب ہو گئی ہے۔
پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اسکا جو بھی نتیجہ ہو گا، وہ ملکی سیاست کا رخ متعین کرے گا۔اسکافیصلہ نواز شریف کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ پر بھی اثر انداز ہو گا۔ تشویش کی بات مگر یہ ہے کہ نواز شریف کے مستقبل اور ساکھ کا فیصلہ کرنے والی جے آئی ٹی کی ساکھ خود سوالات کی زد میں ہے۔ خفیہ کالوں کے ذریعے اداروں سے مخصوص افراد کے نام طلب کرنا اور انہیں جے آئی ٹی میں شامل کرنے کا معاملہ کافی حساس نوعیت کا ہے۔
اعتزاز احسن اور عرفان قادر جیسے ماہرین قانون اور مسلم لیگ (ن) کے سخت ترین نقاد بھی ان کالز کے حوالے سے شریف خاندان کے خدشات کو درست قرار دے چکے۔ پھر حسین نواز شریف کی فوٹو لیک کا قضیہ بھی زیر بحث ہے۔ تحقیقات کے لئے پیش ہونے والوں کو، جے آئی ٹی کی طرف سے وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے دبائو ڈالنے کے الزامات بھی تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو ان معاملات کا نوٹس لینا چاہئے۔ جے آئی ٹی کی ساکھ ہی اسکی اصل قوت ہے۔اسکے بغیر تحقیقات لاحاصل ہونگی۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ شریف خاندان نے خود کو قانون کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے تمام اثاثوں کا حساب دینے پر آمادہ ہے۔ یہاں تو لوگ اپنے پارٹی فنڈ تک کا حساب دینے سے گریزاں ہیں۔ غداری کے مقدمے کے مجرم تک، عدالت کے بارہا بلاوے کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ دھرنے میں پولیس آفیسر کوزخمی کرنے اور تھانے سے کارکنوں کو رہا کروانے والوں کو عدالت اشتہاری قرار دے چکی، مگر وہ دندناتے پھرتے ہیں۔
مقام حیرت ہے کہ آج ایسے لوگ عدالتوں کے احترام کی بات کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حکمران خاندان ہو یا عام آدمی، قانونی اور عدالتی فورمز کا احترام سب پر لازم ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات بھی ہر ملزم کا قابل تائید حق ہے، کہ قانون و انصاف کا تقاضا یہی ہے ۔جے آئی ٹی کا احترام ہونا چاہئے تاہم اس حوالے سے اگرجائز خدشات ہیں تو انہیں فوری طور پر دور کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین