• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوال تھا سیدھی اور سچی بات میں کیا فرق ہے۔ قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن چل رہا تھا۔ حسب روایت قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بجٹ کو نظر انداز کرکے ہماری ہر دل عزیز مسلم لیگ نواز کی تعریف اور تنقید میں مصروف تھے۔ خواجہ آصف کو نہ جانے کیا سوجھی انہوں نے مداخلت کی۔ ایوان میں شور میں اضافہ ہوگیا۔ بے چارے اسپیکر بے بسی کے عالم میں معزز ایوان سے خاموش ہونے کی درخواست کرنے لگے۔ مگر ہنگامہ جاری رہا۔ ہماری اس جمہوری اسمبلی میں ہنگامہ ہی زندگی کی علامت ہے۔ شکر ہے اب تک ہنگامہ کی وجہ سے ہنگامی صورت حال نہیں بنی۔ خواجہ آصف دو وزارتوں کے اکیلے وزیر اور صاحب ذوق مقرر ہیں۔ ان کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جمہوری نظام کے دلدادہ بھی ہیں۔ اگرچہ پارٹی میں جمہوری رواج کو قبل ازوقت خیال کرتے ہیں۔ ان پر جملہ بازی ختم ہے اور اس ہی وجہ سے ایوان میں ان کی تقریر رونق پرور ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کی کڑوی کسیلی باتیں بڑی بے کیف لگ رہی تھیں۔ خواجہ صاحب کے ایک جملہ نے ایوان کا ماحول ہی بدل دیا۔ خواجہ آصف نے فرمایا ’’محترم قائد حزب اختلاف رنگ بازی نہیں چلے گی‘‘ ابھی اس جملے کی آواز گونج ہی رہی تھی کہ جناب اسپیکر نے مداخلت کی اور خواجہ صاحب کو ٹوکا۔ کہنے لگے، خواجہ صاحب قائد حزب اختلاف معزز ہیں ان کیلئے یہ لفظ مناسب نہیں۔ خواجہ آصف ایوان کے دبنگ رکن ہیں فوراً ہی جواب داغ دیا۔ ’’اکیلے قائد حزب اختلاف ہی نہیں ہم بھی قابل احترام ہیں‘‘ پھر گویا ہوئے اور مزید کہا ۔ محترم قائد حزب اختلاف رنگ بازی نہیں چلے گی، رنگ بازی معصوم سا لفظ ہے اگر رنگ بازی مناسب لفظ نہیں تو رولنگ دے دیں۔ ان لوگوں کو رنگ باز ہی کہوں گا۔ آپ رولنگ تو دیں الفاظ واپس لے لوں گا۔ یہ مرحلہ جناب اسپیکر صاحب بہادر کیلئے خاصا مشکل سا تھا۔ اسپیکر صاحب نے معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے سوچا ہوگا اور پھر انہوں نے فرمایا۔ رنگ بازی کا مطلب تو ڈکشنری میں دیکھنا پڑے گا۔ انکی یہ بات دونوں فریقوں کیلئے مناسب اور قابل قبول لگی اور یوں ایوان کی بے چینی یک دم مروت اور سنجیدگی میں بدل گئی۔ اس دفعہ بھی بجٹ سیشن بجٹ کے علاوہ دیگر معاملات پر زیادہ توجہ دیتا نظر آیا۔ پریس گیلری میں لوگ منتشر ہونا شروع ہوگئے۔ ہمارے ایک ساتھی اس صورت حال پر اپنے دوسرے دوست سے تبصرہ کر رہے تھے اور ایک شعر سنایا۔
مخلص مخلص، پاگل پاگل جیسے ہم دونوں
مل جاتے تو پورے ہوتے، ادھے ادھے ہم دونوں
ہمارے ہاں جمہوریت کا پودا بڑے سخت موسم کا مقابلہ کر رہا ہے اور ابھی تک گنتی پر اعتبار بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 10ووٹ ہیں تو ان کا جمہوری رویہ یہ ہوتا ہے۔ صفر کی حیثیت نہیں اور دس سے بات منوائی جاسکتی ہے اور نو پر بالکل اعتبار نہیں کرنا۔ خاموش اکثریت جو اسمبلی کی کارروائی دیکھتی ہے۔ مگر اس کا حصہ نہیںبنتی۔ وہ لاچار نہیں ہے۔ مگر وہ کچھ بھی نہیں منواتی۔ ابھی تک کارِ سرکار کے تمام اہم فیصلے اسمبلی کو اعتماد میں لئے بغیر ہوتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے چینی دوستوں کے ساتھ معاہدے کبھی بھی اسمبلی میں زیر غور نہیں آئے۔ ان معاہدوں کے بارے میں حتمی اطلاع صرف اور صرف پروفیسر احسن اقبال کی طرف سے ملتی رہی ہے۔ ان کی گفتگو اور زوربیان رنگ بازی سا ہی نظر آتا ہے ۔قومی اسمبلی اور سینٹ کی خواتین ممبران اس دفعہ کافی زیادہ متحرک نظر آ رہی ہیں اور اجلاس کے بعد ان کی گفتگو بڑی پرمغز ہوتی ہے اور سوشل میڈیا پر ان کا ایک لطیفہ آج کل خاصا مقبول ہے۔ حزب اختلاف کی خاتون رکن ایک حاضر خاتون وزیر سے بات کررہی تھیں کہ اچانک ایک آم آ گرا۔
وزیر خاتون بولی۔ موسم سے پہلے یہ آم کہاں سے آگیا۔
کہ اس سے پہلے حزب اختلاف کی خاتون مداخلت کرتی، آم خود ہی بولا۔ ’’پک گیا تھا تمہاری باتیں سن سن کر۔‘‘ یہ بات سن کر حزب اختلاف کی رکن اسمبلی بولی۔ اتنا زیادہ ہی پکا دیا تو جل بھی سکتا ہے اور دوسری ہنڈیا کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔ خاتون وزیر کہاں خاموش رہنے والی تھیں فوراً بولی تمہاری بات مجھے زہر لگی اور میں نے پی لی۔ مگر تکلیف لوگوں کو تب ہوئی جب میں جی گئی۔ شکر ہے تمہارے زہر میں کھوٹ ہے اور عوام کو تمہاری نیتوں کا اندازہ ہے۔ شکر ہے بتی چلی گئی ورنہ مقابلہ خوب تھا۔
ہمارے اکثر قابل عزت و احترام ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹ کسی اجلاس میں کبھی بھی نہیں بولتے اس ہی رمضان میں ایک دن ایک افطاری پر چند ممبران کے ساتھ افطار کا موقع ملا۔ ابھی روزہ کھلنے میں وقت تھا۔ میں نے ایک ممبر سینیٹ سے پوچھا۔ سرکار آپ نے تازہ کسی کتاب کا مطالعہ کیا اور آپ کو سمجھ لگی۔ انہوں نے میری بات سن کر حاضرین محفل کی طرف دیکھا اور مسکرائے اور سب خاموش تھے۔ پھر انہوں نے گلا صاف کیا۔ ماتھے پر رومال پھیرا اور بولے ’’اچھی کتابیں اور سچے لوگ ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آتے۔‘‘ اور قہقہہ لگا دیا اور مجھے سمجھ آگئی۔ یہ بات کچھ عرصہ پہلے ہی فیس بک پر گردش کر رہی تھی اور موصوف نے خوب استعمال کیا۔ ایک دوسرے ممبر نے بھی اشارہ دیا تو بولے۔ بات سمجھ کی ہے۔ اس پر سب خاموش ہوگئے ایک اور ممبر کہنے لگے۔ مجھے بھی اس طرح کی ایک بات یاد ہے۔ سینیٹ پر پڑھی تھی۔ شاید اقبال کی شاعری ہے یا علامہ سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ پھر انہوں نے وہ شعر بڑے لہک لہک کر سنائے۔
ہوئی شادی تو پائوں میں پڑی اتنی زنجیریں
کبھی بیگم کے نخرے ہیں، کبھی بیگم کی تقریریں
سمجھ آنے لگی اقبال کے مصروں کی تفسیریں
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
پھر جو ہا ہا ہا ہاں مچی کہ رہے اللہ کا نام۔ ادھر اذان ہوئی اور خلقت خدا جو مفلوج تھی حملہ آور بنی۔ اور افطاری بھی ایک عسکری مشق نظر آ رہی تھی۔ شاید کھانا ہی ہماری زندگی کا حاصل ہے۔ بات خواجہ آصف کی بات رنگ بازی سے شروع ہوئی تھی۔ آج کل رنگ بازی سارے معاشرے میں نظر آ رہی ہے۔ مگر یہ رنگ زندگی اور امنگ کے رنگ نہیں۔ یہ رنگ ہماری تشنہ خواہشوں کے نظر آتے ہیں ان کو حکومتی دعوے رنگ دار ضرور کرتے ہیں مگر وہ رنگ بھی کچا ہی ہوتا ہے اور جلد ہی اتر جاتا ہے۔ ہماری سرکار آج کل بڑی بے رنگ اور پھیکی سی نظر آ رہی ہے۔ پاناما پرتبصرے رنگ بازی کے زمرے میں آتے ہیں۔ عوام بھی قابل احترام ہیں۔ ان سے تو رنگ بازی نہ کریں۔ ویسے ہی روزے سخت جا رہے ہیں کسی کی بات سچی اور کسی کی سیدھی ہے۔

تازہ ترین