• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق وسطیٰ میں کسی بھی نوعیت کی بے چینی سے مسلمان اپنے عقیدے کی بنا پر اور بالعموم دنیا اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کی خاطر لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ جہاں پورا مشرق وسطیٰ ملت اسلامیہ سے جڑا ہوا ہے وہیں پر داخلی تنازعات کے وجہ سے بکھرا ہوا بھی محسوس ہوتا ہے۔ اس بکھرنے پر مسرت اور اس کی وجہ سے اپنے آپکو محفوظ سمجھنے کے حوالے سے علی الاعلان گفتگو اسرائیل کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے لکھی پڑھی حکمت عملی ہے۔ الفریم ہلیوی اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد میں ملازمت کرتے رہے یہاں تک کہ موساد کے سربراہ کے طور پر بھی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ یورپی یونین میں اسرائیل کے سفیر بھی رہے۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو سمجھنے کی غرض سے ان کی کتاب Inside the Middle East Crises کا مطالعہ بہت مفید ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ، عرب ممالک سے تعلقات کن جہتوں پر اپنے منصوبوں کو عملی شکل پہناتا ہے۔ اس کتاب میں اسرائیل کے لئے انتہائی خوشی و مسرت عالمِ اسلام کے دیرینہ ترین مسئلہ کے ساتھ جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور وہ تحریر کرتا ہے کہ ’’ہم شیعہ سنی لڑائی کا خوب مزہ لیتے رہے‘‘۔ اس ایک فقرے سے واضح ہوتا ہے کہ فرقہ ورانہ تعصبات کی نشوونما درحقیقت کس کے مفاد میں ہے۔ صدر ٹرمپ اسرائیل پہنچ گئے اور اس سے پہلے ریاض کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صدر بش کے زمانے کی اصطلاح بدی کے محور کو ایک نئے نام نیکی اور بدی کے درمیان جنگ کو قرار دیا ہے۔ اگر آپ ان کے خطاب کو اول تا آخر پڑھ جائیں اور پھر اسرائیل میں ان کی گفتگو کا موازنہ ان کی تقریر سے کریں تو با آسانی یہ محسوس کر پائیں گے کہ وہ اسرائیل کے قائم رہنے اور خطے میں اس کے کردار کے تحفظ کو اہم ترین گردانتے ہیںاور اس کا سبب بھی بالکل واضح ہے کہ عالم عرب ایک دنیا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اب تو پھر نت نئے توانائی کے ذرائع پر کام ہو رہا ہے مگر جب دوسری جنگ عظیم سے قبل، اس کے دوران اور فوراً بعد کا زمانہ تھا تو توانائی کی بنیادی ضروریات کے لئے عرب دنیا کے ذخائر پر توجہ جاتی تھی۔ عرب دنیا کو مستقلاً اپنے زیر اثر رکھنا اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رکھنا وہ کارگر ہتھیار ہے کہ جس کے نتیجے کے طور پر امریکہ اور اس کے حلیف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے تھے اور کرتے ہیں اور ہتھیار کا نام اسرائیل ہے۔ اسرائیل کا حوا دکھا کے عرب دنیا سے وسائل خرید لئے جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں حماس کا تذکرہ بڑے زور و شور سے کیا۔ حماس کے خلاف تندوتیز لہجہ بھی استعمال کیا کیونکہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی مخالفت کے حوالے سے حماس سب سے موثر تنظیم ہے اور اسرائیل کے لئے مستقل دردِ سر ہے۔ خیال رہے کہ حماس کو صرف ایک مسلح عسکریت پسند تنظیم کے طور پر ہی نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ وہ فلسطینی عوام کے مضبوط دھڑے کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ حماس فلسطین کے عام انتخابات میں اتری، آئی اور چھا گئی، کامیاب ہو گئی۔ مسلمہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر اقتدار کی حقدار بن گئی مگر اسرائیل نے امریکہ کی سرپرستی اور مشرق وسطیٰ میں حماس سے خائف طبقات کے ساتھ ساز باز کر کے حماس کی حکومت چلنے نہیں دی۔ حالانکہ انہوں نے جمہوری راستہ اختیار کیا تھا مگر ان کو اس راستے پر چلنے نہیں دیا گیا اور یہ تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہی اور ان حقوق مانگنے والی تنظیموں کو زبردستی دہشت گرد تنظیمیں قرار دے دیا گیا تا کہ اسرائیل کی سلامتی اور اس کے ذریعے مفادات کو مستقل بنیادوں پر حاصل کیا جا سکے۔ اس ضمن میں اخوان المسلمین کی مثال بھی بہت مناسب ہو گی۔ اخوان المسلمین جب سے قائم ہوئی سخت ابتلاءکا مقابلہ کرتی رہی۔ جمال عبدالناصر کا دور ہو کہ اس کے بعد اخوان المسلمین کو زور زبردستی سے دھونس دھاندلی سے ہر طرح روکا گیا۔ لیکن جب حسنی مبارک کے خلاف زبردست عوامی ردِ عمل سامنے آیا اور اسکے لئے اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہا بات آزادانہ انتخابات تک چلی گئی تو تمام جمہوری اصولوں، ضابطوں کے اعتبار سے انتخابات میں اخوان المسلمین کامیاب ہو گئی۔ مرسی کی حکومت کامیاب ہو گئی مگر معاملہ پھر اپنے مفادات کو ڈولتے ہوئے دیکھنا اور ان کو ڈوبنے سے بچانے کا تھا۔ امریکہ کو اسرائیل کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ مصر کے اند ربے چینی سے قبل ہی عالم عرب میں اخوان المسلمین کی مخالفت میں برج کھڑے کر دیئے گئے۔ اس مسئلہ پر خود عربوں میں بھی اختلافات بڑھ گئے۔ خلیج تعاون کونسل کے اراکین سفارتی تعلقات میں کشیدگی کی انتہائوں کو چھوتے رہے۔ مگر ہوا اسی نوعیت کا واقعہ جو حماس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ مرسی کی حکومت جو اسرائیل کے لئے مسائل کا سبب بن سکتی تھی جنرل السیسی کی فوجی بغاوت سے ختم کروا دی گئی اور عرب کے کچھ علاقوں میں اس پر خوشی کے ڈھول بھی پیٹے گئے۔ بشارالاسد کی حکومت بھی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کی سلامتی کو ہمہ وقت مشکلات کا شکار رکھتی تھی۔ لہٰذا موقع ملتے ہی بشارالاسد کو بھی معمرقذافی کے انجام سے دوچار کرنے کیلئے تمام کوششیں بروئے کار لائی گئیں۔ مگر ہر جگہ ہر وقت ہر دائو تو کامیاب نہیں ہوا کرتا۔ بشارالاسد کی حکومت کی چولیں ہلا دینے کے باوجود حکومت گری نہیں۔ مگر سردست اس قابل بھی نہیں رہی کہ اسرائیل کیلئے کوئی خطرہ پیدا کر پائے۔ مقصد تو حاصل ہو گیا۔ ان تینوں مثالوں کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اب نہایت کامیابی سے عالم اسلام میں ریاستوں کے مابین فرقہ ورانہ تصادم کے جذبات کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور مفادات پر اختلافات کو مسلکی تصادم میں تبدیل کئے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ عالم اسلام میں جگہ جگہ تصادم پھیل جائے۔ حالانکہ اگر ہم حماس، اخوان المسلمین اور حزب اللہ پر نظر ڈالیں تو واضح ہو گا کہ یہ اسرائیل کی مخالفت کے نکتے پر متفق ہیں اور ان کی سرپرست ریاستیں بھی قدرِ مشترک اسرائیل کی مخالفت ہی رکھتی ہیں۔ اسکے علاوہ یہ عالم اسلام کے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے گروہ ہیں۔ ان کو بدی کے ذیل میں لانا درحقیقت یہ تسلیم کر لینا ہے کہ اسرائیل نیکی ہے۔ کتنا بھونڈا مذاق ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ٹرمپ کے داماد اپنے آپ کو نیکی قرار دینے پر مسکرا رہے ہونگے۔

تازہ ترین