• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف حکومت کے پہلے دو برس تو مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف عمران خان کی دھرنا سیاست کی نذر ہوئے، بعد ازاں گلے آن پڑی ڈان لیکس اور اب چار سال مکمل ہوئے اور آخری برس میں داخل ہوتے ہوئے پانامہ لیکس کے پھندے سے جان چھٹتی نظر نہیں آتی۔ اب جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیشیاں ہیں اور پھر عدالتِ عظمیٰ کی جلد احتساب کی لٹکتی تلوار!! بے یقینی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ فقط وزارتِ عظمیٰ دائو پہ نہیں، مسلم لیگ نواز کے مستقبل پہ سوال اُٹھ رہے ہیں اور ہمارا نحیف جمہوری عبور بھی پُلِ صراط کی تیز دھار پہ ڈگمگاتا دکھائی پڑتا ہے۔ خود میاں نواز شریف نے بھی اپنی وزارتِ عظمیٰ کی حالتِ زار پہ بڑا ہی برمحل تبصرہ یوں کیا ہے:
عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
گزشتہ دو ادھورے ادوار میں بھی وزیراعظم نواز شریف کی جسٹس سجاد علی شاہ، مقتدرہ کے بڑے ستون صدر غلام اسحاق خان اور متعدد آرمی چیفس کیساتھ خوب پھڈے پڑے تھے اور جنرل مشرف کیساتھ تو وہ یُدھ پڑا تھا کہ بمشکل تمام جان بچ پائی تھی۔ اور اگر صدر کلنٹن اور شاہ عبداللہ جان بخشی کیلئے میدان میں نہ کودتے تو شاید پنجاب کے وزیراعظم کا انجام بھی بھٹو سے مختلف نہ ہوتا۔ جبری جلاوطنی سے دوسری زندگی ملی اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی سمجھداری کے طفیل سیاست میں پھر واپسی ممکن ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے جو خلا پیدا ہوا وہ آصف علی زرداری اپنی تمام تر پھرتیوں کے باوجود بھر نہ پائے اور میاں نواز شریف پھر سے ایک بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے تو اُن کا نعم البدل تو سامنے آنا ہی تھا۔ بھلا جمہوری افہام کی مؤدب حزبِ اختلاف ہمارے قومی مزاج کو کیوں بھاتی۔ جب تک سیاسی دنگا فساد نہ ہو ہماری بے چین روح کو کہاں چین آنے والا۔ اور طوفانی انتخابی مہم سے نکل کر سامنے آئے نہائے دھوئے خوبرو کپتان، کرکٹ کی واحد چیمپئن شپ کا تمغہ سجائے اور شوکت خانم اسپتال کی خدمتِ خلق کی دستارِ فضیلت اُٹھائے۔ ’’دھاندلی-دھاندلی‘‘ کا ایسا شور مچایا گیا کہ اچھی بھلی جمہوری اکثریت کی چیخیں نکل گئیں۔ دو سال یہی شور و غوغا رہا اور طویل ترین عمران/ قادری دھرنے سے سڑکوں کا انقلاب (Street Coup) بس آتے آتے ٹل گیا۔ باوجودیکہ کچھ ریٹائر ہونے والے غازی ایک بار پھر اپنا ہی دارالحکومت فتح کرنے کو بیقرار تھے۔ نئے نئے ایمپائر نے اُنگلی تو نہ اُٹھائی، البتہ وہ قوت حاصل کر لی جسکے سامنے پرچی کے مینڈیٹ کی کیا وقعت! معاملہ کہیں جا کر عدالتِ عالیہ میں طے ہو سکا۔
ابتدائی تین برس میں دہشت گردی نے وہ حشر بپا کیا کہ پوری جمہوری سلطنت کی چولیں ہل کے رہ گئیں اور معاشرے کے تمام اعضاء خون میں نہا گئے۔ ایسے میں اُترے میدان میں ہمارے مردِ آہن جنرل راحیل شریف کہ جمہوری اشرافیہ کب فنِ حرب سے واقف تھی۔ دہشت گردوں سے جرگے کرنے سے بھلا وحشی عفریت کب سدھرنے والا تھا اور ضربِ عضب کا ایسا ڈنکا بجا کہ جمہوریہ کونے میں دُبک کر بیٹھ گئی۔ ہر طرف اگر کوئی تصویر تھی تو جنرل راحیل کی اور آئی ایس پی آر بھی 24/7 مصروف رہا۔ اس سے پہلے کہ چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ آتا خود جرنیل نے واشگاف انداز میں اسے اپنے پیشے کی حرمت کے منافی قرار دے کر ردّ کر دیا۔ لیکن بیچ جنگ میں سپہ سالار کا رخصت ہونا بھی ایسا مسئلہ تھا کہ اندر ہی اندر مدتِ ملازمت میں توسیع کی بات زور پکڑتی گئی اور یہاں تک کہ حقِ حکمرانی پہ سوال اُٹھائے جانے لگے اور تان جا کے ٹوٹی بھی تو ’’اسلامی سپاہ‘‘ کی سپہ سالاری اور ڈان لیکس کے ہاتھوں حکومت کی خجالی پر۔ ایک برس سے اوپر ہونے کو ہے کہ پانامہ لیکس نے ایسا بھانڈا پھوڑا کہ شریف خاندان رائے عامہ کی عدالت میں کھڑا صفائیاں دیئے جا رہا ہے اور کوئی مطمئن ہونے کو نہیں۔ معاملہ پھر بالآخر عدالتِ عظمیٰ میں پہنچا اور دونوں بڑے فریق اپنی اپنی چھپی ہوئی رقموں کی لکیروں کی گتھیاں سلجھانے میں بے دم ہو کے رہ گئے ہیں۔ شریف خاندان کی کہانی قطری شہزادے سے ہوتی ہوئی میاں شریف کی قبر پہ جا کے لندن کے فلیٹ پہ ختم ہو کر ختم ہونے کو نہیں۔ اور عمران خان کی بنی گالہ کی جائیداد اور پارٹی فنڈز کی گتھیاں بھی جلد سلجھنے کو نہیں۔ بس اسی مارا ماری میں چار برس گزر گئے اور چین ہے کہ شریف وزارتِ عظمیٰ کے آخری برس کو بھی نصیب نہیں۔
شریفوں کی تفتیش پہ مامور تفتیشی ٹیم (JIT) کچھ نہ کچھ مالِ مسروقہ برآمد کرنے پہ تُلی نظر آتی ہے، بھلے اسے قطر کے صحرائوں میں کوئی نقشِ پا ملے نہ ملے اور سمندر پار کھاتوں تک پہنچ ہو نہ ہو۔ کسی وعدہ معاف گواہ کا سہارا پوری تفتیش کو بدنام کر دے گا۔ دو ماہ مکمل ہونے پر عدالتِ عالیہ کے سامنے دو ہی راستے ہیں: یا تو وہ خود آئین کی 184(3) کی شق کو پھیلاتے ہوئے خود کیس سننا شروع کر دے یا پھر بظاہر بددیانتی پہ تبرا بھیجتے ہوئے مقدمہ متعلقہ احتساب عدالت کو بھیج دے۔ مقدمہ چلائے بنا تبرا بھیجنا قرینِ انصاف تو نہیں لیکن چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جو ’’انصاف‘‘ کی بے مثال روایات چھوڑی ہیں، اُس میں اس کی بہت گنجائش موجود ہے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی رخصتی ہمیں یاد ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ’’صادق و امین‘‘ کا ایسا شور مچے گا کہ شریفوں سے پگڑی سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔ حسن اور حسین تو پیشیاں بھگت چکے۔ وہ بس بیچ میں ایسے ہی پھنس گئے ہیں جبکہ وہ تارکینِ وطن ہیں اور ان پر ہمارے ٹیکس قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے۔ باری تو ابھی میاں نواز شریف کی آنی ہے۔ وزیراعظم کے پاس بھی دو ہی راستے بچے ہیں۔ اس سے پہلے کہ تفتیشی افسران انتظامیہ کے چیف ایگزیکٹو کو طلب کریں یہ وزیراعظم کے منصب کے شانِ شایان نہیں کہ وہ اپنے ماتحتوں کے سامنے پیش ہو کر اپنے رائے دہندگان کی توہین کریں۔ یا پھر وزارتِ عظمیٰ پہ بیٹھے ہوئے اقتدار کی اس کشمکش میں آخری حد تک لڑیں، گو کہ اس کا اخلاقی جواز اور بھی محال ہو جائے گا۔ بس ہفتے دس دن میں یہ بیل منڈھے چڑھ جائے گی۔ لیکن ایک بات پکی ہے پانامہ لیکس کے قضیے سے جلد جان چھوٹنے والی نہیں اور اپوزیشن کو اور کیا چاہیے کہ وہ شریف خاندان کا ڈگا لگاتے رہیں اور اسے خوار کرتے رہیں۔ بہتر ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہو کر بہتر اخلاقی پوزیشن میں آ جائیں، اپنا وزیراعظم نامزد کریں اور ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے کے مخالفوں ہاتھوں سے چھین لیں۔ لیکن اقتدار کا کمبل چھوٹے کہاں چھٹتا ہے۔
نواز شریف کی تیسری حکومت کے چار سال مکمل ہونے پر اس کی کارکردگی کے جائزے کی ضرورت ہے۔ اس محدود جگہ پر فقط اُن پانچ بڑے چیلنجوں پہ اس کی کارکردگی دیکھ لینا مناسب رہے گا۔ اوّل:ـ سیاسی استحکام- پورے چار برس سیاسی عدم استحکام اس حکومت کو درپیش رہا۔ کبھی عمران خان کی ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کی زبردست دھماچوکڑی، کبھی مقتدر عسکری حلقوں کی ناراضی اور کبھی اسکینڈلوں کی آلودگی۔ میاں نواز شریف نے اقتدار میں سب کو اُن کا حصہ دیا اور خود بھی مخلوط حکومت بنائی۔ اگر پیپلز پارٹی و دیگر جماعتیں اُن کا ساتھ نہ دیتیں اور پارلیمنٹ متحد ہو کر دُم پر کھڑی نہ ہوتی تو حکومت کبھی کی جا چکی ہوتی سول ملٹری تعلقات میں پے در پے گڑ بڑ کا سامنا وزیراعظم نے کیا تو لیکن کچھ ساتھی اور کچھ اختیارات کو گنوا کر۔ صوبوں اور مرکز کے تعلقات میں تشنج رہا اور بلوچستان کی بیگانگی کا سیاسی حل نہ نکل سکا۔ پھر وزیراعظم نے بھی مقننہ کو زیادہ اہمیت نہ دے کر جمہوری نظام کو مضبوط نہیں کیا اور وہ طاقتور مقتدرہ کے سامنے کمزور پڑتے گئے لیکن دم نہیں ہارے۔ دوم: معاشی بحالی وزیراعظم کا سب سے بڑا مضبوط پہلو رہا۔ وہ تجارتی خسارہ کافی کم کر پائے اور اب مجموعی قومی پیداوار بھی 5.3 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ اُن کی خوش قسمتی تھی کہ اُن کے آتے ہی تیل و دیگر اجناس کی عالمی قیمتیں دھڑام سے نیچے آ رہیں جس سے درآمدات کا خرچہ کم ہوا، تیل سستا اور افراطِ زر کم ترین سطح پر آ گئی۔ اوپر سے وزیراعظم کے شاہراہوں اور پُلوں کے ترقی کے ماڈل کو چین کے صدر ژی کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ سے زبردست مہمیز ملی۔ اور چین پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) سامنے آیا۔ پھر کیا تھا توانائی اور رسل و رسائل کے منصوبوں میں دھڑا دھڑ سرمایہ کاری ہونے لگی اور یہ ایک طرح سے گیم چینجر بن کر سامنے آیا۔ لیکن اس سب کے باوجود معیشت خودانحصاری، پائیداری اور شمولیتی اعتبار سے کمزور ہی رہی۔ سوم: بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا مُدا میاں صاحب کی کامیابی کی بڑی وجہ تھی۔ پہلے تو وہ کوئلے کے چکر میں پھنس گئے اور پھر گیس سے بجلی پیدا کرنے کی طرف راغب ہوئے۔ بجلی تو بہت پیدا ہونے جا رہی ہے لیکن بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے منصوبے اگر بروقت مکمل نہ ہوئے تو بس اُن کی اگلے انتخابات میں خیر نہیں۔ چہارم: دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ ایک وجودی ضرورت بن کے سامنے آیا۔ لیکن وزیراعظم بے نتیجہ اور بے مقصد بات چیت کے چکر میں پھنس گئے۔ پشاور پبلک اسکول میں بچوں کے قتلِ عام نے افواج کو مجبور کیا کہ وہ جنرل راحیل سے قبل کے دو چیفس کی دہشت گردوں بارے دوغلی پالیسی کو ترک کریں اور میدانِ کارزار میں اُتریں اور وہ ایسے لڑے کہ دہشت گرد بھاگنے پہ مجبور ہو گئے۔ سیاسی جماعتوں کا بڑا کارنامہ نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاقِ رائے تھا۔ لیکن حکومت دہشت گردی کی تعلیم، نظریات اور سماجی بنیاد کو ختم نہیں کر پائی اور یہ دہشت گردی کا بھوت زخمی تو ہوا ہے ختم نہیں۔ پنجم: وزیراعظم چاہتے تھے کہ ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہوں، تنازعات کا پُرامن حل ہو اور پاکستان جنوبی اور وسطی و مغربی ایشیا کے مابین معاشی پُل بنے۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ سابقہ پالیسیاں بدلی جائیں۔ وزیراعظم کا خطے کے بارے میں امن و تعاون کا وژن بہت ہی جاندار ہے لیکن اُن کی سنتا کوئی نہیں۔ جب بھی اُنھوں نے پیش رفت کرنے کی کوشش کی، کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو گئی۔ نوازشریف کا یہ تیسرا دور بھی غیرمکمل اور تشنہ سا رہا۔ یہ تھے وزیراعظم نواز شریف کی تیسری حکومت کے چار آزمائشی سال اور پانچویں کی خبر نہیں!

تازہ ترین