• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ مہم جوئی، سینہ زوری اور رسہ کشی سے عبارت ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے دو لخت اورباقی ماندہ میں عوام کی زندگی اجیرن ہونے کے باوجودتکبر پسند رجوع کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی 60فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے یعنی یومیہ دو سو روپے ہی کما پاتی ہے,40فیصد بچے خوراک سے محروم ہیں،آدھی آبادی ناخواندہ اور ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔مقام افسوس ہے کہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن افغانستان اور پاکستان سے اس کا خاتمہ نہیں ہوسکا ۔ظاہر ہے کہ اختیار کے مختلف مناصب پر فائز زورآوراس طرف توجہ دیں گے تو بات بنی گی،مگربے رحمانہ طور پر ان کی ساری توجہ اختیار کی لونڈی ہتھیانے پر مرکوز ہے۔ان دنوں بھی ایسی ہی افواہیںزیر گردش ہیں ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دیوار سے لگانے کی صورت میں اس مرتبہ مسلم لیگ بھی کسی مہم جوئی کیلئے کمر کس رہی ہے۔اسی سبب مخالفین کہتے ہیں کہ ن لیگ کو سیاسی شہید نہیں بننے دینگے۔ سیاسی حکومتوں کی البتہ اس طرح کی کوششیں ماضی میں بارآورثابت نہیں ہوسکی ہیں، اور اس کے عبرت آموز پہلو گردش دوراںکے پیچ و خم نہیں، برادران یوسف کا کردار ہے۔ دوسری بنیادی وجہ خلقِ خدا کی وہ تھکاوٹ ہے جو ایسے مہم جوئوں کی جانب سے قبل از مسائل کے انبار کے لادے جانے کے طفیل در آئی ہوتی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب ترکی میں عوام نے جمہوری حکومت کیخلاف بغاوت ناکام بنا دی تھی ، تو ہمارے ہاں حکمرانوں اور ان کے حلیف صحافیوں نے اسے بہت زیادہ اُجاگر کیا تھا،ظاہر یہ کرنا تھا کہ پاکستان میں اس قسم کی بغاوت کا انجام بھی اسی طرح ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ نہ سوچا گیا کہ پاکستان میں آمریت کیخلاف اگرکبھی ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملےتو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمران جب اقتدار میں آتے ہیں تو وہ عوام کو بھول جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب کسی چیز کی مانگ ہوتی ہے تو اس کو پورا کرنے والے بھی کہیں نہ کہیں سے پیدا ہوجاتے ہیں۔ وطن عزیز میں ہمیشہ سے آمریت کی مانگ رہی ہے اور اس مانگ کو کوئی اور نہیں وہ نام نہادسیاستدان پورا کرتے ہیں جو صبح دوپہر شام اس آمریت سے بیزاری کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔فی زمانہ آمریت سےصرف مراد یہ نہیں کہ براہ راست وردی پوش حکومت کریں بلکہ یہ بھی ہے کہ اپناکام سیاست کا لبادہ اوڑھے لے پالک نمائندوں سے لیا جائے۔ان دنوں بھی یہ تاثر عام ہے کہ آئندہ کیلئے کسی نئی ق لیگ کے خدوخال سنوارے جارہے ہیں۔ ہم جیسے لوگ مسلم لیگ (ن) کے طرز حکمرانی سے کل کی طرح آج بھی بیزار ہیں۔ لیکن کیا کسی ’کو دتا‘ یا اس حکومت کی رخصتی کی صورت میں دور دورتک بہتری کی کوئی آس یا امنگ موجود ہے؟ تاریخ کا سبق بلاشبہ یہ ہے کہ ہم سبق نہیں سیکھتے۔کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ان دنوں پیپلز پارٹی آمریت کی مانگ اسی طرح پوری کرنے کے لئے مستعد اور سراپا تیار سر بازار ہے جس طرح مسلم لیگ میمو گیٹ کے موقع پر بن ٹھن کر نکل آئی تھی۔ اپوزیشن لیڈر کا فرمان ہے کہ سارا اہتمام میاں صاحب نے خود کرلیا ہے کل کو کوئی ہم پر راہ آمریت کی استرکاری کا الزام نہ لگائے۔ خو ب بہت خوب! یہ دلیل نہایت کم سطح کی ہے کہ چونکہ کل میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کی حکومت کو زچ کرنے کی خاطر میدان میں آگئےتھے۔ لہٰذا آج سید خورشید شاہ بھی حساب بے باق کرنے کی خاطر میدان کا رزار میں کود پڑے ہیں۔ نہیں صاحب نہیں! یہ قبائلی مناقشے نہیں ہیں۔ اقتدار کی سنگھاسن سے ہم آغوش ہونے کے تقاضے ہیں۔ کل میاں نواز شریف صرف اس خاطر کالا کوٹ پہن کر آئے تھے کہ خاکی پوشوںکو اپنی وفاداری کا بین ثبوت پیش کرسکیں اور سید خورشید شاہ بھی کسی کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے آگ پر تیل ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا۔
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ ہیں
جب تک دن کو سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
یہ نام نہاد جمہوریت پسند ایسے مواقع کو نظام کے استحکام کی خاطر نہیں، اپنے استحکام کے لئے ہی بروئے کار لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں سات عشروں سے جمہوریت آبلہ پا ہے، اور تخت ہے اور کہانی ہے وہی یوں تو مسلم لیگ کے برسر اقتدار آتے ہی کھیل کا آغاز ہوگیا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح 2008میں  پیپلز پارٹی اقتدار میں آتے ہی پابہ جولاں ہوچلی تھی۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ سیاسی حکومتیں مقبول عام فیصلے نہ کرپائیں، اسی سبب لوٹ مار سے چشم پوشی کی جاتی ہے، ظاہر ہے اس سے عوام میں بدنامی کا دوسرا مقصد جو حاصل ہوتا ہے۔ یہ ڈرامہ اسٹیج کرنے کے لئے آئندہ کے امیدوارسیاسی اداکار روز اول سے ہی دستیاب ہوجاتے ہیں۔ یوں سیاسی حکومت الجھ کر رہ جاتی ہے۔ اب ایک قابل عمل راستہ پھر بھی موجود ہوتا ہےوہ یہ کہ دستیاب مواقع میں عوام کی ایسی خدمت کی جائے کہ کل کلاں اگر سیاسی حکومت کو  نکال باہر کیا جائے، تو اگر عوام مزاحمت کی خاطر میدان نہ بھی گرم کر پائیں تو کم از کم وہ یہ تو نہ کہیں کہ اچھا ہوا کہ فلاں کی حکومت سے جان چھوٹ گئی۔
اب کے یہ ہوا کہ جیسے ہی جناب آصف زرداری کو الہام ہوا کہ ایک خلیجی ملک جو کہ ’شکار‘ کے حوالے سے معروف ہے، مسلم لیگ (ن) سے خفا خفا ہے، تو جناب سابق صدر پاکستان وارد ہوئے، وجوہات دیگر بھی تھیں، لیکن چونکہ مملکت خداداد پاکستان میں اتارنے اور بٹھانے میں اس ملک کا کردار بھی کم یا زیادہ مگر بتایا جاتا ہے، اس لئے محترمہ بی بی شہید سے اس ملک کے معقول تعلقات کے باوصف شریک چیئرمین کچھ امیدوں کے ساتھ پاکستان آئے۔ تاہم بعض رعایتیں سمیٹنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ مزید ممکن نہیں، سو وہ بڑھکیں کہ ہر صوبے اور وفاق میں ہم حکومت بنائیں گے، کہیںخلا میں گم ہوگئیں۔ اب تو عمران خان سمیت انتظار گاہ میں برا جمان تمام موقع پرست عناصر کی رال اس لئے بھی ٹپکنے لگی ہےکہ ایک اور مگر بڑے برادرملک کی ناراضی کی بھی قیاس آرائیاں ہیںاور اس کی وجہ ایران کے حوالے سے مسلم لیگی حکومت کی معتدل پالیسی ہے۔ بنابریں یہ سارا منظر نامہ ان کے لئے مرعوب ٹھہرا، جو مسلم لیگ کو کب کا سیاسی تابوت میں لانا چاہتے تھے ۔سو باتوں کی مگر ایک بات کہ خورشید شاہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی کو روایتی بے اعتباری کے باوصف کسی ’ق لیگ‘کے شایانِ شان نہیں سمجھا جائیگا۔عمران خان کی خوشی البتہ بے جا نہیں، پے در پے لوٹوں کی ان کی جماعت میں آمد کی بھی کوئی وجہ ہوگی، ہاںخان صاحب سے بھی زیادہ تحریک انصاف کے کسی اور کے وارے نیار ے ہوسکتے ہیں!اس سارے کھیل کا المناک پہلو یہ ہے کہ وطن عزیز میں غربت، جہالت اور بیماریوں کے ڈیرے مزید مستحکم ہوجائیں گے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ’ دوران جنگ گھوڑے فربہ نہیں رہ سکتے‘ اس کہاوت کے مصداق سات عشروں سے جاری اس کشمکش نے عوام کو زندہ در گور کردیا ہے، پھر بھی اختیار مند مگر باز نہیں آتے!حمایت علی شاعر نےکہا ہے۔
کھل کر برس ہی جائے کہ ٹھنڈی ہو دل کی آگ
کب تک خلا میں پائوں جمائے رہیں گے ہم

تازہ ترین