• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج آپ کی خدمت میں دو اعلیٰ کتابوں کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پاناما لیکس کے بارے میں تقریریں اور بحث سُن سُن کر کان پک گئے ہیں۔ آئیے ان جواہر پاروں کے بارے میں کچھ پڑھتے ہیں۔
پہلی بہت ہی اعلیٰ معلوماتی کتاب ’’تذکرۂ شخصیات ِبھوپال ‘‘ ہے۔ آپ نے اکثر میرے کالموں میں اس جنت مقام ریاست کی خوبصورتی اور بیگمات کے اعلیٰ نظام حکومت کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھوپال سے روانہ ہوئے تقریباً 65 سال ہوگئے ہیں مگر دل میں اس کی یاد اس طرح نقش ہے جس طرح چٹان پر کوئی تصویر۔ اس قدر خوبصورت علاقہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ ہرے بھرے جنگلات، کثرت سے جنگلی جانور، پرندے، لاتعداد جھیلیں اور ان میں باکثرت نہایت لذیذ مچھلیاں۔ چار سو سے زیادہ مساجد ، شہر میں ایک ایک فرلانگ کے قریب فاصلوں پر میٹھے پانی کے نل جو 24 گھنٹہ پانی دیتے تھے، سڑکوں پر بجلی، اعلیٰ عمارتیں ، یاد آتی ہیں تو دل غمگین ہوجاتا ہے۔ بھوپال کی آب و ہوا کی خوبصورتی کے بارے میں کہاوت تھی کہ یہاں صبح بنارس ہوتی ہے اور شام اودھ ہوتی ہے۔یہ کتاب ہمارے بھوپال کی ہونہار شخصیت شگفتہ فرحت نے تحریر کی ہے اور اس پر بہت محنت کی ہے۔ یہ محبان بھوپال فورم کی سرپرست ہیں اور ان کے شوہر اویس ادیب انصاری ان کے دست راست ہیں۔ یہ کتاب 920 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں بھوپال کی تمام نامی گرامی شخصیات کے فوٹو بھی ہیں۔ آپ اس کتاب کی قدر و قیمت ‘دیکھ کر اور پڑھ کر ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ اب آپ کی خدمت میں ہمارے ملک کے چند نامی گرامی شخصیات کے تاثرات پیش کررہا ہوں:۔
(1) بھوپال سے وابستہ مزاح نگار مصطفی تاج نے اپنے مضمون میں ان کو نقیب بھوپال قرار دیامیں اس کی تائید کرتا ہوں، کوئی تو ہے جو پاکستان میں رہ کر اپنے پرکھوں کی زمین کو یاد رکھتا ہے اور عملی طور پر بھوپال کی شناخت کو زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ بھوپال سے میری بڑی یادیں وابستہ ہیں اور جب یہ کتاب میرے سامنے آئی تو میں ان عظیم شخصیات کو جن میں کچھ سے میں مل بھی چکا ہوں، اور کچھ میرے حافظے میں موجود ہیں تو وہ یادیں دوبارہ زندہ ہوگئیں۔تذکرہ شخصیات بھوپال‘‘ نام کی کتاب پاکستان میں پہلی بار منظر عام پر آئی ہے، جہاں تک میرے علم میں ہے اس طرح کی کوئی اور کتاب اب تک پاکستان میں شائع نہیں ہوئی ۔
(2) ریاست بھوپال کی معروف شخصیات پر ایک خوبصورت ضخیم کتاب ’’تذکرۂ شخصیات ِ بھوپال‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔ اس میں ایک مضمون ہمارے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر بھی ہے۔ ریاست بھوپال پورے بھارت میں اپنے مشاہیر کے حوالے سے ایک خاص حیثیت رکھتی تھی۔ خصوصاً ادب و دانش میں اس نے واقعی بڑے بڑے آدمی پیدا کئے۔ تاحال ان سب کے نام اور کارنامے کسی ایک بڑی کتاب میں جمع نہیں ہوسکے ہیں لیکن اس نے بڑی حد تک کمی پوری کردی۔ میں محترمہ شگفتہ فرحت سے ذاتی طور پر واقف ہوں اور ان کی سرگرمیوں اور کام سے آگاہ ہوں۔ ان سطروں کے ذریعے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور انھیں مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں۔ اہم اور بڑے آدمیوں کا ذکر خود صاحبِ تصنیف کو بڑا بنا دیتا ہے۔ (جمیل الدین عالیؔ)
(3)اس وقت شگفتہ فرحت کا مرتبہ ’’تذکرۂ شخصیاتِ بھوپال‘‘ میرے سامنے ہے اور میں بھوپال کی پوری تاریخ کی سیر کررہا ہوں۔ زیر نظر کتاب محض بھوپال کا تذکرہ نہیں بلکہ بھوپال کی پوری تاریخی دستاویز ہے۔ اس نوع کی دستاویز وہ مرتب کرسکتا تھا جس کو اپنے موضوع سے خاص شغف ہو۔یہ کتاب صرف یہی نہیں کہ بھوپال کی سیاسی و ادبی تاریخ میں ایک غیرمعمولی اضافہ ہے بلکہ یہ ہمارے عظیم پاک و ہند کی پوری تاریخ اسلام کی مستند دستاویز ہے۔ مجھے بھوپال اور اہلِ بھوپال سے جو تعلق ِ خاطر ہے اس کا تقاضا ہے کہ میں اس تذکرے کی دل کھول کر داد دوں لیکن اپنی مسلسل علالت کو کیا کہوں کہ سرِ دست ایسا ممکن نہیں انشاء اللہ کسی وقت یہ فریضہ ادا کروں گا۔ (ڈاکٹر فرمان فتح پوری)
(4)ہندوستان کی مسلم ریاستوں میں بھوپال کی خاص اہمیت رہی ہے۔ اس ریاست کو ہندوستان کے دیگر علاقوں سے منفرد حیثیت ملی کیوں کہ اس کی بعض شخصیات حکمراں خواتین تھیں اور انھوں نے نہ صرف برصغیر بلکہ مغربی ممالک میں اپنی دانش اور مالی اعانت سے ایسے اداروں کو مستحکم کیا جو اَب تاریخ کا حصہ ہیں۔ تقسیم ِ ہند سے قبل یہاں متعدد اہل کمال اور علم و ادب کے تابندہ ستارے جگمگارہے تھے۔ خود نواب حمید اللہ خاں نے جدوجہدِ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ دینی امور ہوں یا تعلیمی معاملات، قانونِ نظم و نسق کی برتری ہو، ان سب میں اس ریاست کو غیرمعمولی شہرت حاصل رہی۔ دوسرے شہروں کے اکابرین مثلاً جگرؔ مراد آبادی، نیازؔ فتح پوری، جوشؔ ملیح آبادی اور علامہ اقبالؔ اہلِ بھوپال کی میزبانی سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ خود بھوپال نے ایسے فرزند پیدا کئے جو ادب، شاعری، کھیل اور سیاست کے میدان میں نامور ہوئے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان تاریخی شخصیات کی کوئی مستند دستاویز مرتب کی جاتی۔ مقامِ مسرت ہے کہ شگفتہ فرحت نے اس طرف توجہ دے کر ایک ایسا تذکرہ مرتب کردیا جو واقعی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ (پروفیسر سحر انصاری)
(5) یہ کتاب بھوپالیوں کیلئے تو تحفہ ہے لیکن جب ذکر ہو نواب حمید اللہ خان، نواب صدیق حسن، ملا رموزیؔ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، بشیر بدرؔ، حنیف فوقؔ، مختار الدین احمد، مظفرؔ حنفی، سیّد حامدؔ، جاوید اخترؔ، رضیہ حامد، آفاقؔ صدیقی، محمد احمد سبزواری، صہباؔ لکھنوی، دیگر صاحبان علم و فضل کا، ہنر مندکھلاڑیوں اور فنکاروں کا تو یہ کتاب قیمتی دستاویز بن جاتی ہے اور کارآمد سمجھی جاسکتی ہے۔ اسی لئے عزیزہ شگفتہ فرحت قابلِ مبارک باد ٹھہریں۔ یہ کتاب تحقیقی دستاویز نہیں، معلوماتی جائزہ ہے اور ابھی کئی اہم شخصیات اس میں شامل ہوں گی۔ (پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم)
(6) مجھے بے حد خوشی ہے کہ دخترِ بھوپال شگفتہ فرحت نے ایک نہایت قابلِ تحسین پروجیکٹ کا بیڑا اُٹھالیا ہے۔ ان کی بے لوث اَنتھک کوششوں سے نہ صرف بھوپال کے پرانے شہری اکھٹے ہوتے رہے ہیں بلکہ جو مجالس ہوتی رہی ہیں ان میں شرکت کرکے لاتعداد دوسرے افراد بھوپال کی اعلیٰ ثقافت، مذہبی رواداری، دینی علم کی تعلیم، اعلیٰ خاندانی روایتوں سے واقفیت حاصل کرسکے ہیں۔ جو ایک مشکل کام ہے۔ چھوٹی سی ریاست کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار اعلیٰ شخصیات سے نوازا ہے۔ خود بھوپالیوں نے بھوپال کے نام کو چارچاند لگائے اور جو مسلمان دوسرے شہروں اور صوبوں سے بھوپال میں آکر بس گئے یا وہاں ملازمت کی وہ بھی چاند ستاروں سے کم نہیں۔ ہندوستان کی کسی اور ریاست نے وہ عزت، رتبہ علم و تعلیم کے میدان میں حاصل نہیں کیا جو اس چھوٹے سے جواہر پارے کے مقدر میں آیا۔ (ڈاکٹر عبدالقدیر خان)
(7) آپ کا تعارف ایک ایسی ہستی سے کرانا چاہتا ہوں جس نے ابتدا میں بھوپال نہیں دیکھا۔ بچپن میں اپنے والد، والدہ اور دادی سے روپامتی، کملا پتی بیگمات کی رومان انگیز داستانیں سنیں۔ جنگجو خواتین کے کارناموں سے واقفیت ہوئی اور ان پرانی کہانیوں کی طرح جن میں شہزادے ان دیکھی شہزادیوں کے حسن کے قصے سن کر ان پر عاشق ہوجایا کرتے تھے بھوپال کی گرویدہ بن گئے۔ جب چند مرتبہ بھوپال کا سفر کیا تو سات ٹیکریوں گھنے جنگلوں، بہتے آبشاروں، چہچہاتے پرندوں، گنگناتی ہوائوں، ساون کی جھڑیوں، بھادوں کی لڑیوں نے اس کو دنگ کردیا۔ مزید یہ کہ وہاں کے سادہ دل لوگوں کے اخلاص، خلوص اور بے لوث محبت نے اس کو ایسے جال میں پھنسایا کہ اس سے باہر نکلنا اس کیلئے ممکن نہ رہا عوام اس خاتون کو شگفتہ فرحت کے نام سے جانتے ہیں۔
(محمد احمد سبزواری) (8)واقعی شگفتہ فرحت بھوپالیوں کیلئے رہبرِاُردو ہیں، پیامبرِ اُردو ہیں، پرستارِ اُردو ہیں، خادمِ اُردو ہیں۔ بھوپالی اس کی بڑی عزت کرتے ہیں کیوںکہ بھوپال کے وہ فنکار جن کو کوئی رسالہ کوئی چندی اخبار بھی نہیں چھاپتا اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر خود اپنے دیوان شائع کرتے ہیں لیکن نہ کوئی خریدار ہوتا اور نہ کوئی پڑھنے والا ایسے ہی فن کار جب شگفتہ فرحت کے قیمتی خوبصورت ضخیم رسالے میں اپنا فوٹو، اپنا کلام اور اپنی فنی رفعتوں کو پڑھتے ہیں تو ان کی ہمت و حوصلہ بڑھتا ہےکیوں کہ بھوپال میں ادب نوازوں کا ٹوٹا ہوگیا ہے۔ شائقینِ ادب ناپید ہوگئے ہیں تو بے چارے فن کاروں کا یہ حال ہے کہ اذانِ کلام دیتے ہیں، احساس کی صورت دادِ سخن بھی دیتے ہیں، خیرات کی طرح۔ اسلئے اس دور میں مصنفہ کا دم بھوپال کے فنکاروں کیلئے بڑا غنیمت ہے۔ ان کی صلاحیتوں کا میں یہاں اعتراف نہیں کرونگا اسلئے کہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف آنے والا مؤرّخ کریگا۔ ادب کے میدان میں سماجیات کے میدان میں اس کی صلاحیتوں کا شمار کرنا میرے موضوع سے باہر ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ وہ ایسی فعال شخصیت ہیں جنھوں نے ادب و سماج دونوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ اس پر اپنی گہری چھاپ بھی چھوڑ دی ہے۔(مصطفی تاج)
دوسری اعلیٰ و مفید دینی کتاب مجموعۃ التفاسیر کی چوتھی جلد ہے۔ یہ تفاسیر نہایت اچھی شکل میں شائع کی گئی ہیں۔ ان تفاسیر کو جناب حاجی محمد مبین صاحب نے مرتب کیا ہے۔ اس اعلیٰ کتاب کی دس جلدیں شائع ہونا ہیں۔ اللہ پاک متعلقہ اَفراد کو اس کی سعادت حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

تازہ ترین