• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کھینچا تانی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے،گمان کے سائے ہیں کہ پھیلتے جا رہے ہیں،تحفظات ہیں کہ گہرے ہوتے جا رہے ہیں، الزامات ہیں کہ شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ فریقین بخوبی جانتے ہیں کہ پاناما کیس کے ضمن میں یہ محض تفتیش نہیں بلکہ ایک نئے پاکستان کی سنگ بنیاد ہے۔ طلب کرنے، پیش ہونے، دیکھنے اور نظر رکھنے والوں کو پوری طرح یہ ادراک بھی ہے کہ یہ محض ساٹھ دن کی کارروائی نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے۔ حساب لینے،حساب دینے اور حساب چکانے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ صرف چھ ارکان کے دستخطوں سے جاری عبوری رپورٹیں ہی نہیں بلکہ کسی نا کسی کی سیاسی موت کے پروانے پر مہر تصدیق ہے۔ کھوج لگانےاور سچ جھوٹ کا پردہ چاک کرنے میں اعانت کرنے والے سب با خبر ہیں کہ ایک کی جیت دوسرے کی صرف ہا ر ہی نہیں بلکہ سیاست کے کھیل سے ہمیشہ کیلئے بے دخلی ہے۔ ان حالات میں کہ جب داؤ پر سب کچھ لگا ہو تو انسان کے ہاتھ پاؤں پھول ہی جاتے ہیں۔جب ہارنے کا خوف لاحق ہو تو لہجے تلخ ہو ہی جاتے ہیں۔ جب جیت کا یقین نا ہو تو سانسیں پھول ہی جاتی ہیں۔جب عزت پر حرف آرہا ہو تو انسان ہوش کھو ہی بیٹھتا ہے اور جب مطمح نظر صرف وزیر اعظم کو منصب سے ہٹانا ہو تو اخلاقیات کے معنی بھول ہی جاتے ہیں۔پاناما کیس پہ سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کی گئی جے آئی ٹی کی تحقیقات فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے اندرجاری ہیں تو باہر سیاسی اکھاڑہ لگا ہوا ہے۔ یہ ملکی تاریخ کی ایسی منفرد تحقیقات ہیں کہ جس میں مدعی،مدعا علیہان،گواہان اور تفتیش کاروں تک سب شاکی ہیں،کوئی تفتیش کرنے والوں پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کر رہا ہے تو کوئی تفتیش میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے خلاف درخواست دائر کر رہا ہے۔ کسی کو جے آئی ٹی متعصب دکھائی دے رہی ہے تو کوئی تفتیش کاروں پر اثر انداز ہونے کا واویلا کر رہا ہے۔ کل تک جے آئی ٹی کو تسلیم نہ کرنے والے اب اس کے سب سے بڑے ترجمان بن چکے ہیں جبکہ اس کے قیام پر بغلیں بجانے والے اب ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب سپریم کورٹ نے 20 اپریل کو پاناما کیس کی سماعت کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کے قیام کی ہدایات دیں تو مشترکہ اجلاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے یک زبان ہو کر اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ تب اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ اگر جے آئی ٹی بنانی ہی ہے تو سپریم کورٹ کے تین ججز یا ہائی کورٹ کے چاروں چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل بنائی جائے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے یہ تحفظات بھی ظاہر کئے کہ ماتحت سرکاری ملازم کیسے ملک کے وزیر اعظم سے تحقیقات کر سکتے ہیں۔ اس دوران سپریم کورٹ کے فیصلے پربھی تنقید کی گئی۔اپوزیشن لیڈر نے تویہ تک کہا کہ گریڈ انیس کا ملازم جس مالک سے تنخواہ لیتا ہے اس کی تحقیقات کیسے کریگا۔
اعتزاز احسن نے جے آئی ٹی کیلئے مجوزہ اداروں کے سربراہان کو شریف خاندان کے گھر کے فرد کہا تو ایک ادارے نے اس پر فوری رد عمل بھی ظاہرکیا۔ دوسری طرف حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے جے آئی ٹی کے قیام کے فیصلے کا بھرپور خیر مقدم کرتے ہوئے مکمل تعاون کا اعلان کیا۔ اسی شور شرابے میں جے آئی ٹی قائم ہو گئی تو تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے نیا اعتراض کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کی طرز پرجے آئی ٹی کی بھی کھلی سماعت کی جائے۔ خیر ان کیمرا سماعت شروع ہوئی اورجیسے ہی وزیرا عظم کے صاحبزادے حسین نواز کو طلب کیا گیا تو تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جے آئی ٹی کی پشت پر کھڑی ہو گئی جبکہ جے آئی ٹی پر اعتراض کی باری حکومت کی آگئی۔ پہلے وزیر اعظم کے کزن نے جے آئی ٹی کےخصوصاً ایک رکن پر سخت ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ میں درخواست بھی دائر کی تاہم ان کی شنوائی نہ ہوئی، پھر حسین نواز جے آئی ٹی کے دو ارکان بلال رسول اورعامرعزیز پر متعصب ہونے کے اعتراضات کے ساتھ سپریم کورٹ چلے گئے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ایس ای سی پی سے جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول مسلم لیگ ق کے رہنما میاں اظہر کے بھتیجے ہیں جبکہ وہ اوران کے خاندان کے تمام افراد تحریک انصاف کے زبردست حامی ہیں۔ انہوںنے یہ اعتراض بھی کیا کہ اسٹیٹ بنک سے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے رکن عامر عزیز ماضی میں نیب کی طرف سے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کر چکے ہیں جبکہ وہ البرکہ اسلامک بنک کے ملازم بھی رہ چکے ہیں جو کہ سرمایہ کار کمپنی التوفیق کا ذیلی ادارہ تھا اور اس کا حدیبیہ پیپر ملز کے ساتھ تجارتی تنازع چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے حسین نواز کے یہ الزامات مسترد کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے کسی رکن کو بھی تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ابھی جے آئی ٹی متعصب ہونے کے الزامات سے نہیں نکلی تھی کہ اسی دوران رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے اسٹیٹ بنک اور ایس ای سی پی کو واٹس اپ کے ذریعے کی گئی مبینہ کالز نے جے آئی ٹی کو ایک بار پھر متنازع بنا دیا جبکہ اس معاملے شفافیت پر بھی سوالات کھڑے کردئیے۔ حکومتی صفوں میں جے آئی ٹی کے خلاف مزید اشتعال پیدا ہوا اور حکومتی رہنما یکے بعد دیگرے جے آئی ٹی پہ چڑھ دوڑے۔ جے آئی ٹی کی نگرانی کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے جب یہ کہا کہ رجسٹرار نے ان کے کہنے پر ٹیلیفون کال کی تھی تو معاملہ وقتی طور پہ دب گیا تاہم تنقید کرنے والے مطمئن نہ ہوئے بلکہ جے آئی ٹی پر شکوک و شبہات اور بڑھ گئے۔ اس کے بعد حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کی تصویر لیک ہوئی تو ن لیگ کے رہنما آگ بگولہ ہو گئے جبکہ سینیٹر نہال ہاشمی نے تو یہاں تک دھمکیاں دیں کہ وزیر اعظم کے بیٹوں کا احتساب کرنے والوں پر زمین تنگ کر دی جائے گی ، سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اوران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ حسین نواز تصویر لیک کرنے کے خلاف بھی سپریم کورٹ سے رجوع کر چکے ہیں، ویسے تصویرلیک کرنے والوں کو بھی لینے کے دینے پڑ گئے بلکہ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ اس ’دانستہ غلطی‘کے مرتکب کو نہ صرف فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا تھا اور اس سے تفتیش بھی جاری ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کے صاحبزادے کی ایک اور پیشی کے دوران ایمبولینس بھیجی گئی تو اسے بھی حکومتی رہنمائوں نے سازش سے تعبیر کیا تاہم بعد میں وزیر مملکت کیڈ ڈاکٹر طارق فضل نے اعتراف کیا کہ ایمبولینس انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر بھجوائی تھی۔ جے آئی ٹی کے تقریبا چار ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ جیسے جیسے کائونٹ ڈاون قریب آ رہا ہے، جے آئی ٹی مزید متنازع ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی اس کی کاروائی کو جیمز بانڈ کی فلم قراردیا جا رہا ہے تو کبھی اسے قصائی کی دکان سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔اب نیشنل بنک کے صدر نے بھی اس کے ارکان کے ناروا روئیے کے خلاف رجسٹرار کو خط تحریر کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا دوران تفتیش رکاوٹیں کھڑی کرنے پر داد رسی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرچکے ہیں۔اگرچہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی دونوں عبوری رپورٹوں پر اطمینان کا اظہار کر چکی ہے لیکن جب تک جے آئی ٹی کے بارے میں تمام خدشات ،تحفظات اعتراضات اورالزامات کو دور نہیں کیا جاتا تب تک سوالات اٹھتے رہیں گے کیوں کہ ملکی تاریخ کے اس اہم مقدمے میں انصاف صرف ہونا نہیں بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔

تازہ ترین