• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما ہنگامہ اپریل 2016کو شروع ہوا ایک سال کے بعد جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا توخیال تھا کہ ملکی حالات میں کچھ ٹھہرائو آئے گا مگر جوں جوں جے آئی ٹی کی کارروائی آگے بڑھ رہی ہے سیاسی صورتحال میں مزید شدت آرہی ہے۔ یہاں تک کہ اب حکمراں جماعت کے رہنمائوں اور وزیروں نے کھلے عام سپریم کورٹ کے ججز اور جے آئی ٹی کے ارکان کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں کہ کیا جے آئی ٹی کوئی قصائی کی دکان ہے، یہ جے آئی ٹی ہے یا جیمزبانڈ فلم، جے آئی ٹی کون سا فارمولا بنا رہی ہے کہ وزیراعظم کے بیٹوں سے 100گھنٹے تفتیش کرکے اُن کی تضحیک کر رہی ہے جبکہ حسین نواز نے پیشی سے پہلے کہا کہ شکوک پر کارروائی شیطانی کام ہے اور سینیٹر نہال ہاشمی نے یہ دھمکی دی کہ جنہوں نے حساب لیا اور جو حساب لے رہے ہیں وہ آج سروس میں ہیں کل ریٹائرڈ ہو جائیں گے ، اُن کے بچوں کے لئے پاکستان کی سرزمین تنگ کر دی جائے گی ۔ جس پر سپر یم کورٹ کو یہ کہنا پڑا کہ یہ حکومت ہے یا سسیلین مافیا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے سے کچھ دیر پہلے وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے سپریم کورٹ سے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دینا تو دور کی بات کسی میں جرات نہیں کہ وہ کسی ایم این اے کو بھی ڈی سیٹ کر سکے۔سیاستداں ایک دوسرے کے گند کو گندگی سے صاف کر رہے ہیں جو پاکستان کی بدترین سیاسی صورتحال سے مماثلت رکھتی ایک کہانی سنئے جو اس سے پہلے بھی ان سطور میںبیان کی جا چکی ہے ۔پھر عوام کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ کرنا کیا ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب1679 میں برطانیہ میں نئی نئی جمہوریت بادشاہت کے زیر اثر تھی اور پارلیمنٹرین خوف زدہ تھے کہ اُن سے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے بادشاہ سلامت ناراض ہو جائیں ۔اسلئے ایک قانون پاس ہوا کہ پارلیمنٹ میں جو کہا جائے گا اس پر ارکان کو استثنیٰ حاصل ہوگا ، گو آج اس استثنیٰ کے پیچھے کوئی نہیں چھپتا ،برطانیہ کے زیر تسلط بائونوں کا ایک دیس تھا ۔ اس دیس کے جتنے بھی ’’ کَن ٹٹے ‘‘ تھے انہوں نے بھی ایک پارلیمنٹ قائم کی جس میں شہر کا سب سے بڑا ڈاکو ، رہزن ، قاتل ، بدمعاش ، رشوت خور، بداخلاق ، رسہ گیر بدعنوان ، لوٹ مار کرنے کا ماہر ، پانی چوری کرنے والا، ملک کے خزانوں کو نکال نکال کر بیرون ملک ا سمگل کرنے والا حتیٰ کہ ہر وہ شحص اس کا رکن تھا جو کسی نہ کسی برائی میں ملوث تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اپنے کالے دھندوں کو قانونی حیثیت دی جائے اور کوئی بھی ایکشن لیا جائے تو اُسے قانونی تحفظ حاصل رہے۔ کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن اسی دیس کے چند مذہبی اور انصاف پسند بائونوں نے محسوس کیا کہ دیس کی اکثریت کا استحصال ہورہا ہے اور پارلیمنٹ کے بدمعاش جو دل میں آتا ہے کرتے ہیں، ان کے قوانین کی تشریح کے لئے عدالت قائم کی جائے۔ جب اس عدالت نے پارلیمنٹ کے کرتوتوں کا از خود نوٹس لیا ، گو عدالت کو وکیلوں نے قانون کی موشگافیوں میںالجھائے رکھا مگر پھر بھی پارلیمنٹ کے اندر ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ اب ہمارے صادق اور امین ہونے کا سوال اٹھایا جائے گا۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ لوگوں کو قتل کیوں کیا جاتا ہے ،کس کس نے کتنی دولت جمع کی ہے، کتنی جائیدادیں بنائی ہیں، اپنے ملک کی دولت دوسرے ملکوں میں کیسے گئی ، یہاں کے عوام بھوکے مر رہے ہیں ، آپ بیرون ملک فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگا رہے ہیں ۔ ہم اپنی دولت کو سفید کیسے ثابت کریں گے ،ہمیں تو عدالت نااہل قرار دے دے گی اور پھر ہماری دکانداری تو ختم، کسی نے تجویز دی کہ ہم سب آپس میں ایک دوسرے کو یہ دولت اور جائیدادیں تحائف میں دے دیتے ہیں۔
کسی نے سوال اٹھایا کہ عدالت پھر بھی ہمیں ڈِس کوالیفائی کرسکتی ہے ۔ ایک پارلیمنٹرین نے یہ کہا کہ ہماری پارلیمنٹ میں ہونے والی تمام کارروائی ایک رپورٹر ’’گُتھری‘‘ چھاپتا رہا ہے۔ اگر یہ سارے اخبارات عدالت میں اُس نے پیش کر دیئے تو عدالت ہمارے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے کیونکہ اب لوگوں کے اندر شعور آنا شروع ہوگیا ہےکہ یہ ہمارے ووٹ کی وجہ سے ایوان میں بیٹھے ہیں ، ایک پارلیمنٹرین نے تجویز دی کہ ایک قانون پاس کیا جائے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی تمام کارروائی قومی راز ہے، اسے ڈسکس نہیں کیا جاسکتا اور پارلیمنٹرین کو ہر اچھی بُری حرکت کرنے کی اجازت ہے اور اسے یہ استثنیٰ بھی حاصل ہے کہ یہ عدالت یا مستقبل میں بننے والی کوئی بھی عدالت اس استثنیٰ پر بات نہیںکرسکتی ۔ لیکن پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھایا گیا اب معاملہ عدالت تک محدود نہیں رہا بلکہ اس دیس کا ہر باسی ہمارے خلاف آواز اٹھا رہا ہے، ہمارے ناجائزاقدامات کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں ، لوگ یہ ڈسکس کرتے ہیں کہ یہ سب بد عنوان ہیں، ان کے ڈوپ ٹیسٹ کروائے جائیں ، انہیں چوراہوں پر لٹکایا جائے۔
اس کے بعد پارلیمنٹرین نے متفقہ طور پر اس تجویز کو قانونی شکل دی کہ دیس کے اندر جو بھی ایسے سرگرم لوگ ہیںاُن کو پارلیمنٹ کا رکن بنا لیا جائے ،یہ کرنے کے بعد بھی لوگ مطمئن نہ ہوئے تو پارلیمنٹرین نے یہ قانون بنایا کہ آج سے پورا جزیرہ پارلیمنٹ ہے اور جزیرے میں کوئی بھی پارلیمنٹرین جو بھی حرکت کریگا اُسے قانونی تحفظ اور ہر طرح کا استثنیٰ حاصل ہوگا ۔ اس جزیرے میں رہنے والے جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے انہیں سمندر میں غرق کر دیا جائیگا ۔ اس کے بعد بائونوں کے اس جزیرے میں کچھ’’ امن و امان ‘‘ قائم ہوگیا۔ کیونکہ آواز اٹھانے والوں کی اکثریت کو سمندر کے سپرد کردیا گیا تھا۔ جو بچ گئے اُن کیلئے قانون بن گیا کہ اُن کا اسٹیٹس ارکان اسمبلی جیسا ہوگا، اس طرح سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
بس آج پاکستان میں جمہوریت کے نام پر عوام سے بدترین انتقام لیا جارہا ہے اور اس کو ہم جمہوریت کی مضبوطی کہتے ہیں حالانکہ سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کیلئے ایک طرف ملک کو خطرے میں ڈالا ہواہے تو دوسری طرف ملک سے محبت کرنے والے عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ سارے نظام، ساری عدالتیںاور تمام ادارے گاڈ فادر کے زیر تابع ہیں۔ جب گاڈ فادرکی طرف انگلی اٹھائی جائے گی تو نہ کسی ادارے کا احترام رہے گا، نہ کسی ادارے کو کام کرنے دیں گے کوئی گاڈ فادر کے خلا ف آواز اٹھائے گا اس کا گلا دبا دیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں اگر عوام بدعنوان عناصرکے خلاف اٹھتے نہیں تو پھر اُن کی حالت کوئی نہیں بدل سکتا یہ حکم خدا وند ی بھی ہے۔

تازہ ترین